علامہ اقبال، ایما ویگیناسٹ اور جرمنی

1125

علامہ اقبال کے ایک سو بیالسویں یوم پیدایش پر مجھے ممتاز جرمن دانشور اور سفارت کار محمد امان ہوبوم سے لندن میں ایک پرانی ملاقات یاد آگئی۔ ہوبوم صاحب ۱۹ سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ دوسری عالم گیر جنگ کے دوران وہ جرمن بحریہ کے تباہ کن جہاز پر تعینات تھے۔ جنگ کے دوران وہ قید کیے گئے۔ جنگ کے خاتمے پر رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں اسلام کی مزید تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۹ سے ۱۹۵۴ تک ہوبوم صاحب برلن میں ولمرز ڈورف کی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد وہ اسلام کی مزید تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان گئے جہاں انہوں نے دو سال قیام کیا۔ ہوبوم صاحب پاکستان، انڈونیشیا، جاپان، سعودی عرب اور برطانیہ میں جرمن سفارت خانوں سے وابستہ رہے۔ ۱۹۹۵ سے ۲۰۰۲ تک ہوبوم صاحب جرمنی میں شاہ فہد اکیڈمی کے سربراہ رہے۔ ہوبوم صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۷ میں علامہ اقبال کے ایک سویں یوم پیدایش کے سلسلے میں لندن میں ایک تقریب کے دوران ہوئی تھی اس ملاقات میں ان سے علامہ اقبال کے جرمنی میں قیام کے بارے میں تفصیل سے گفتگو رہی۔ سن پچاس کے عشرہ میں ہوبوم صاحب، پاکستان اور جرمنی کے درمیان ثقافتی رابطہ کی تنظیم پاکستان جرمن فورم کے اعزازی جنرل سیکرٹری تھے۔
علامہ اقبال کے ایک سویں یوم پیدایش کی تقریب میں علامہ اقبال کی اپنی جرمن اتالیق ایما ویگیناسٹ کے ساتھ خط و کتابت کا سرسری ذکر کیا گیا تھا۔ میں نے ہوبوم صاحب سے ایما ویگیناسٹ کے نام علامہ کے خطوط کے بارے میں تفصیل جاننی چاہی۔ ہوبوم صاحب نے بتایا کہ علامہ اقبال اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں ۱۹۰۷ میں جرمنی گئے تھے اور اس دوران میں انہوں نے ہائیڈل برگ میں قیام کیا تھا جہاں۲۰ سالہ ایما ویگیناسٹ سے وہ جرمن زبان سیکھتے تھے۔ ایما ویگیناسٹ نے علامہ کو جرمن زبان کے ساتھ جرمن ادب اور خاص طور پر جرمنی کے اٹھارویں صدی کے ممتاز شاعر، فلسفی اور ڈراما نگار گوئٹے کی تخلیقات سے روشناس کرایا۔
ہوبوم صاحب کا کہنا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کو جرمنی سے لگائو اور محبت کی وجہ ان کی اتالیقہ ایما ویگیناسٹ تھیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں، جرمنی سے علامہ اقبال کے لگائو اور محبت کی اصل وجہ، جرمن افکار، شاعری اور سب سے زیادہ گوئٹے کی وجہ سے گہری عقیدت تھی۔ علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ گوئٹے رسول تو نہیں تھے لیکن وہ صاحب کتاب تھے اور یہ کتاب ان کی تخلیق ’’فاوسٹ‘‘ ہے۔ ہوبوم صاحب کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال گوئٹے کا موازنہ غالب سے کرتے تھے اور اقبال کی مشہور فارسی نظم ’’پیام مشرق‘‘ کا محرک یا جواب کہہ لیں، گوئٹے کا دیوان غربی و شرقی ہے، جو اقبال کی نظر میں مشرق کے نام گوئٹے کا گلدستہ عقیدت ہے اور یوں گوئٹے نے جرمن ادبیات میں عجمی روح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ہوبوم صاحب نے بتایا کہ گوئٹے نے اس دیوان میں ہجرت کے عنوان سے آغاز میں لکھا ہے کہ ’’شمال مغرب اور جنوب پریشان سخت کشمکش میں مبتلا ہیں، تخت و تاج برباد ہورہے ہیں اور سلطنتوں کے پائے لرزاں ہیں ان حالات میں تو اس دوزخ سے دور بھاگ اور دل پزیر مشرق کا رخ کر جہاں تجھے روحانیت کی ٹھنڈی ہوا میسر ہوگی اور آبِ حیات پینے کو ملے گا۔ ہوبوم صاحب کا کہنا تھا کہ گوئٹے نے اس دیوان میں لکھا ہے کہ اگر اسلام کے معنی اپنے معاملات اور ارادوں کو خدا کے سپرد کرنے کا نام ہے تو ہم سب مسلمان ہیں اور مسلمان ہی مریں گے‘‘۔ میں نے ہوبوم صاحب سے پوچھا کہ آپ کو گوئٹے کی کون سی نظم سب سے اچھی لگی۔ بغیر کسی توقف کے ہوبوم صاحب نے بتایا کہ یوں تو گوئٹے نے رسول اللہؐ کی تعریف میں جا بجا نظمیں کہی ہیں لیکن مجھے سب سے اچھی نظم ’’نغمہ محمد‘‘ لگی جس میںگوئٹے نے نہایت خلوص کے ساتھ لکھا ہے کہ دین ِ اسلام نے کس طرح پرانی رسوم و قیود کو توڑکر مال و دولت اور رنگ و نسب کے امتیازات کو نیست و نابود کردیا، بندہ اور آقا کی تمیز ختم کردی۔ ہوبوم صاحب کا کہنا تھا کہ اس نظم میں گوئٹے نے اسلام کو ایک ابلتے ہوئے چشمے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اُ س چشمے کو دیکھو جو ستاروں کی کرنوں کی طرح ہنستا ہوا صاف شفاف چٹانوں سے نکلا ہے‘‘۔
میں نے ہوبوم صاحب سے کہا کہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے پاس ایما ویگیناسٹ کے نام علامہ اقبال کے خطوط ہیں۔ انہوں نے گہری سانس لی اور کہا کہ ہاں ہیں لیکن یہ فوٹو اسٹیٹ نقول ہیں۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ میں پاکستان جرمن فورم کا سیکرٹری جنرل تھا اور ممتاز حسن صدر تھے۔ ۱۹۵۹ میں ہم دونوں کو ان شہروں اور یونیورسٹیوں کے دورے کی دعوت دی گئی جہاں علامہ اقبال کا ۱۹۰۵ اور ۱۹۰۶ کے دوران قیام رہا تھا۔ اسی دوران میں ایما ویگیناسٹ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس علامہ اقبال کے ۲۷ خطوط ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ خطوط پاکستان کے آرکائیوز میں رکھے جائیں تاکہ اقبال پر ریسرچ کرنے والے ان سے استفادہ کر سکیں۔ ہوبوم صاحب نے بتایا کہ اس بارے میں ممتاز حسن اور ایما ویگیناسٹ کے درمیان خط و کتابت ہوئی اور سن ستر کے اوائل میں ایما ویگیناسٹ نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل یہ خطوط پاکستان جرمن فورم کے حوالے کیے تھے۔ ممتاز حسن نے ان خطوط کی فوٹو اسٹیٹ نقول مجھے دی تھیں۔
میں نے ہوبوم صاحب سے پوچھا کہ علامہ اقبال نے یہ خطوط کس زمانہ میں ایما ویگیناسٹ کو لکھے تھے۔ ہوبوم صاحب نے بتایا کہ علامہ نے یہ خطوط ۱۹۰۷ سے ۱۹۱۴ کے دوران اور ۱۹۳۱ اور ۱۹۳۳ کے دوراں لکھے تھے۔ اقبال کی عمر اُس وقت ۳۰ سال تھی اور ایما ویگیناسٹ اس وقت ۲۰ سال کی تھیں۔ میں نے ہوبوم صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ خطوط پڑھے ہیں، آپ کو ان خطوط میں کیا رومانس کا کوئی عنصرو نظر آیا جیسے کہ بہت سے لوگ اس پر زیادہ زور دیتے ہیں۔
ہوبوم صاحب نے بڑی سختی سے کہا کہ رومانس کی بات قطعی صحیح نہیں۔ انہوں نے کہا بلاشبہ علامہ اقبال ایما ویگیناسٹ کو بے حد پسند کرتے تھے اور یہ بات خطوط میں بھی عیاں ہے لیکن اقبال اپنی اتالیقہ کا بے حد احترام کرتے تھے اور مائی ڈیر فرالین ویگیناسٹ سے خطاب کرتے تھے اور بڑے ادب کے ساتھ آپ لکھتے تھے کہیں بھی انہوں نے تم سے خطاب نہیں کیا۔ ہوبوم صاحب نے بتایا کہ ان خطوط میں اقبال ہائیڈل برگ میں قیام کے دنوں کا بڑی چاہت سے ذکر کرتے ہیں اپنی جرمن زبان کی اتالیقہ کو ان دنوں کی یاد دلاتے ہیں جب وہ ایک ساتھ بیٹھ کر گوئٹے کی نظمیں اور ان کا مشہور ڈراما فائوسٹ پڑھتے تھے۔ اقبال نے ایک خط میں ایما ویگیناسٹ کو لکھا تھا کہ مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی وہ پُر مسرت دن یاد ہوں گے جب ہم ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے، روحانی طور پر۔ ہوبوم صاحب نے بتایا علامہ اقبال نے ۱۹۰۹ میں وطن واپسی پر لاہور سے ایک خط میں اقبال نے ایما ویگیناسٹ کو لکھا تھا کہ میرا جسم یہاں ہے لیکن میرے خیالات جرمنی میں ہیں۔ میرے لیے آپ کے خوبصورت ملک کو بھلا دینا ناممکن ہے جہاں میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اقبال نے لکھا تھا کہ ہائیڈل برگ میں میرا قیام ایک دلکش خواب سے کم نہیں تھا کاش میں آپ سے دوبارہ ہائیڈل برگ میں مل سکوں۔
ہوبوم صاحب نے کہا کہ بہت سے لوگ ان جملوں کا غلط مطلب نکالتے ہیں جو صحیح نہیں ہیں۔ ان خطوط سے دراصل علامہ اقبال کی جرمنی اور اس کی شاعری، اس کی ادبیات اور جرمن افکار اور خاص طور پر گوئٹے سے گہری عقیدت مظہر ہے۔ ہوبوم صاحب کا کہنا تھا کہ علامہ نے اسلام میں مذہبی فکر کے بارے میں جو ۶ مشہور لیکچر دیے تھے ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہیں جرمن افکار اور جرمن ثقافت کے بارے میں گہرا ادراک تھا۔ وہ جرمن مفکر فریڈرک نیشا سے بھی بہت متاثر تھے۔ ہوبوم صاحب سے علامہ اقبال کی جرمنی، جرمن افکار، شاعری اور ہائیڈل برگ سے لگائو اور محبت کا ذکر سننے کے بعد مجھے دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر ایک شام کے عنوان سے علامہ اقبال کی وہ مشہور نظم یاد آگئی۔
خاموش ہے چاندنی قمر کی، شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا، قدرت ہے مراقبے میں گویا
اے دل تو بھی خموش ہو جا، آغوش میں غم کو لے کے سو جا