اسلام اور دین و دنیا کی یکجائی

1566

بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ حال ہی میں جی ایچ کیو کے تحت دینی مدارس کے ایسے طلبہ و طالبات کے لیے ایک تقریب منعقد ہوئی جنہوں نے میٹرک کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہ صرف یہ کہ پوزیشن لینے والے طلبہ و طالبات کو انعامات اور اعزازات دیے بلکہ انہوں نے طلبہ و طالبات سے خطاب بھی فرمایا۔ ان کے خطاب کے کچھ اہم نکات کو ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان مولانا محمد حنیف جالندھری نے اپنے اس مضمون میں بیان کیا ہے جو روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہوا ہے۔ آرمی چیف نے فرمایا۔
’’میری ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ ہم دین اور دنیا دونوں میں آگے بڑھیں، دینی علوم ہمارے اندر کو نکھارتے ہیں، ہمیں دنیا میں دیگر اقوام کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیاوی علوم میں آگے بڑھنا ہوگا۔
جب آپ مدارس کے پڑھے ہوئے دنیاوی علوم حاصل کرنے کے بعد اے سی، ڈی سی لگیں گے تو ملک میں انصاف قائم ہوگا اور صحیح معنوں میں ریاست مدینہ قائم ہوگی۔ اگر صرف دنیا دار ہی عہدے دار بنتے رہے تو کام نہیں چلے گا۔ آپ لوگوں کو احساس ہوگا کہ غلط کام کرنے پر مجھے آخرت میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں، حاکمیت کریں، ترکی کے صدر اردوان صاحب مدرسہ کے پڑھے ہوئے ہیں، وہ اپنے ملک کو کہاں سے کہاں لے گئے ہیں۔ آپ بھی ایسا ہی کریں، دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں، قانون، اکنامکس، سیاسیات، نفسیات کے مضامین پڑھیں، تا کہ آپ یونیورسٹی، کالجز میں پروفیسر مقرر ہوں، وکیل بنیں، بینکس میں کام کرکے سودی نظام کے خاتمے میں کردار ادا کریں۔ میری خواہش ہے کہ سائنسی مضامین میں آگے آئیں، اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کریں۔ آج اس کمرے میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جو کسی مسلمان نے ایجاد کی ہو۔ ہم نے گزشتہ پانچ سو سال میں انسانیت کی خدمت کے لیے کوئی ایجاد نہیں کی، انجکشن نہیں بنایا، ٹیبلٹ نہیں تیار کی۔ حالاں کہ گیارہ صدیوں تک ہمارا عروج رہا۔ آج میں نے جو وردی پہنی ہوئی ہے، یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے وردی ایجاد کی۔ آج امت مسلمہ کی حالت کمزور ہے، اور دنیا کمزور کے ساتھ نہیں طاقتور کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ یہود دنیا میں نمک کے برابر ہیں، لیکن وہ دنیا کی معیشت پر قابض ہیں۔ ان کی مائیں جب امید سے ہوتی ہیں تو انہیں سائنس پڑھائی جاتی ہے جب کہ ہماری عورتوں میں ساس بہو کے جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے آپ ہماری قومی حالت دیکھیں صفائی کی کیا حالت ہے، کراچی کا حال آپ نے سنا ہوگا، حالاں کہ ہمارے دین میں صفائی کو پچاس پرسنٹ ایمان کہا گیا ہے۔ ہم نے قرآن پاک کو صرف لحاف میں لپیٹ کر طاقچے میں رکھنے کے لیے بنالیا ہے۔ غیر مسلموں نے قرآن پاک کو سمجھا اور اس کی روشنی میں تحقیقات کیں۔ ہم ابھی تک چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں لڑ رہے ہیں، دنیا چاند تک پہنچ چکی ہے۔ ہر ایک فقہ کا جو طریقہ ہے سب اپنی فقہ کے مطابق عمل کریں، اپنی فقہ چھوڑیں نہیں دوسروں کو چھیڑیں نہیں۔ جب یہ اتحاد ہوگا تو امت مضبوط ہوگی ورنہ امت ختم ہوجائے گی، اغیار کھا جائیں گے، آج آپ دیکھیں دنیا میں جنگ کہاں ہے؟ افغانستان میں، عراق میں، شام، کشمیر، لیبیا، یمن یہ سب ممالک مسلمان ہیں۔ کیا کسی غیر مسلم ملک میں بھی جنگ مسلط ہے؟ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بکھرے ہوئے ہیں۔ اتحاد نہیں ہے۔ تو اس بات کی ضرورت ہے ہم کھوئی ہوئی میراث حاصل کریں اور دنیا کی باگ ڈور سنبھالیں۔ قرآن پاک پڑھیں، سمجھیں، اس کی روشنی میں تحقیق کریں۔ دنیا کے جس میدان میں ہوں دین پر عمل کریں، ہر جگہ عمل ہوسکتا ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی 27 اگست 2019ء)
کبھی برصغیر میں تعلیم کے تین نمونے موجود تھے۔ دیوبند، علی گڑھ اور ندوۃ العلماء۔ اکبر الٰہ آبادی نے ان تینوں تعلیمی سلسلوں کے بارے میں ایسی رائے دی ہے کہ ڈیڑھ سو سال بعد بھی اس سے اختلاف ممکن نہیں۔ اکبر نے دیوبند کو ’’دلِ روشن‘‘ قرار دیا ہے۔ ندوۃ العلماء کو زبانِ ہوش مند‘‘ کا نام دیا ہے اور علی گڑھ کو ’’معزز پیٹ‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان تینوں تعلیمی اداروں کا ایک تہذیبی اور تاریخی پس منظر ہے۔ دیوبند کے مدرسے کے قیام کا مقصد دینی علوم کا تحفظ اور فروغ تھا۔ سرسیّد جیسے لوگوں کی نظروں میں دیوبند کے مدرسے میں دین تو تھا مگر دنیا نہیں تھی۔ چناں چہ انہوں نے علی گڑھ میں علی گڑھ کالج قائم کیا جو بعد میں ترقی کرکے یونیورسٹی بن گیا۔ علی گڑھ کالج کا مقصد ایک جانب مسلمانوں کو دنیا کمانے میں مدد دینا تھا اور دوسری جانب ایسے ’’جدید مسلمان‘‘ تیار کرنا جو انگریزوں کی فرمانبرداری، وفاداری بلکہ غلامی پر فخر کرسکیں۔ دیوبند اور علی گڑھ کی کشمکش سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جس کے نزدیک دیوبند صرف قدیم اور علی گڑھ صرف جدید تھا۔ چناں چہ اس طبقے نے جدید و قدیم کو ملانے کے لیے اعظم گڑھ میں ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ طبقہ تھا جو نہ دین کو چھوڑنا چاہتا تھا نہ دنیا سے لاتعلق رہنا چاہتا تھا۔ جنرل باجوہ نے اپنے خطاب میں ایک اہم بات یہ کہی ہے کہ ہمیں دین اور دنیا دونوں میں آگے بڑھنا ہے۔
اسلام میں دین اور دنیا کی تفریق اور ان کی علیحدگی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ دین اور دنیا کی علیحدگی کا تصور اپنی اصل میں ایک مغربی تصور ہے۔ مغرب نے تو رسالت کے ادارے اور مذہب کو مسترد کرکے یہ کہا کہ اول تو جدید معاشرے بالخصوص جدید ریاست میں دین ہوگا ہی نہیں اور ہوگا تو وہ ایک ’’نجی معاملہ‘‘ ہوگا۔ دین کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اسلام میں اس طرح کا تصور کبھی موجود نہیں رہا۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائو اور دین کو قائم کرکے دکھائو۔ بالکل اسی طرح جس طرح نماز کو قائم کرنے کا حکم ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کوئی مسلمان ’’ترکِ دنیا‘‘ کے عیسائی یا ہندووانہ تصور کو ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کرسکتا۔ مگر یہاں ہمیں ایک بات پورے شعور سے سمجھنی ہوگی اور وہ یہ کہ اسلام میں دین اور دنیا کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام میں دین حاکم ہے دنیا محکوم، دین غالب ہے دنیا مغلوب۔ دین رہنما ہے اور دنیا مقلد۔ دین اور دنیا کے تعلق میں دنیا کی یہ حیثیت قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔ قرآن دنیا کو ’’متاع الغروِر‘‘ دھوکے کی ٹٹّی یا smoke screen قرار دیتا ہے۔ کئی صحیح احادیث میں بھی دنیا کی ’’اوقات‘‘ پوری طرح آشکار کی گئی ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ دنیا اگر مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا دنیا میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ رسول اکرمؐ ایک بار صحابہؓ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی اسے خریدنا چاہے گا۔ صحابہ نے کہا ایک تو یہ بچہ ہے پھر مرا ہوا ہے اسے تو کوئی مفت بھی لینا پسند نہیں کرے گا۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر اُمت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔
(جاری ہے)