انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم )

282

جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا
مولانا مودودیؒ مراکش میں اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لیے ۲۱؍ستمبر ۱۹۶۹ء کو رباط پہنچے۔ ۲۲؍ستمبر کو چھبیس ۲۶ ممالک کی کانفرنس شروع ہوئی۔ افتتاحی اجلاس میں تقریباً پانچ سو کے قریب مندو بین نے شرکت کی۔ پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی بائیں بازو کے عناصر بہت زیادہ سر گرم ہوگئے۔ تشدد اور لاقانونیت حد سے بڑھ گئی اور حکومت اس کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی تھی۔ مغربی پاکستان میں مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی‘ عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی‘ پیر اسحاق کی مزدور کسان پارٹی اور مشرقی پاکستان میں عبد الحمید بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی ‘ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور اس کے ہندو سرپرست عوام کو تشدد پر اکسا رہے تھے۔
قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے ۵؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء کا دن مقرر کیا گیا تھا لیکن مشرقی پاکستان میں شدید طوفان اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب بعد میں اسے ملتوی کر کے ۱۷؍دسمبر کا دن مقرر کیا گیا۔
ایوب خان نے اپنے ہی تیار کردہ ۱۹۶۲ء کے آئین کے تحت اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر عبد الجبار خان کے سپرد کرنے کے بجائے اور عبوری حکومت بنانے کے بجائے ملک کا اقتدار فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔ جنرل یحییٰ خان نے مارشل لا لگاکر ۱۹۶۴ء کا آئین منسوخ کردیا۔ جماعت اسلامی اور تمام سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ ۱۹۵۶ء کا آئین بحال کرکے بالغ رائے دہی کے تحت نئے انتخابات کرائے جائیں‘ لیکن جنرل یحییٰ خان نے اس تجویز کو نظر انداز کردیا۔ جنرل یحییٰ خان نے بالغ رائے دہی کے تحت نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ دستور ساز اسمبلی کے انتخاب کے لیے لیگل فریم ورک آرڈی ننس جاری کردیا۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیا ن اصول مساوات (parity) کو ختم کردیا۔ ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان میں چار صوبے قائم کردیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کے نئے منتخب نمائندے ملک کا نیا دستور بنائیں گے۔
یحییٰ خان کے نیاآئین بنانے کے ا علان نے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر بے آئینی کے دلدل میں دھکیل دیا۔ اس صورت حال پر امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی ؒ نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’اگر پاکستانی حکومت جمہوریت کی طرف سفر کا آغاز کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے اس صورت حال کو بحال کرنا ہوگا جو ۸؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء سے قبل موجود تھی۔ اگرایسا نہ کیا گیا تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ کسی شخص کو بھی یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر جمہوری طریقے سے بنائے ہوئے دستور کو منسوخ کرسکتا ہے۔ فی الحقیقت یہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول ہے ‘جو قانون کے تصور ہی کے منافی ہے‘‘۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان صاف الفاظ میں خبردار کرچکے تھے کہ: ’’اگر اسمبلی نئی دستور سازی کے لیے قائم کی گئی تو ملک تباہ ہوجائے گا‘‘۔ انھوں نے مزید فرمایا تھا کہ: ’’اگر مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی ۱۹۵۶ء کے آئین کی بحالی کا اعلان کردیا جاتا تو یہاں سارے جھگڑے ختم ہوجاتے‘‘۔
لیکن یحییٰ خا ن نے ’’ایک آئین کے تحت انتخاب‘‘ کرانے کے بجائے ایک ’’نئے آئین کے لیے انتخابات‘‘ کرانے کا اعلان کیا۔ ۲۸؍جولائی ۱۹۶۹ء کو صدر یحییٰ خان نے جسٹس عبدالستار کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا۔ یہ عمل پاکستان کو نئے فکری انتشار میں دھکیلنے کی شعوری کوشش تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت پاکستان دوسرے مارشل لا کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ انتخابات کے باضابطہ اعلان ہونے سے قبل مارشل لا کی بے بسی کا اندازہ ہورہا تھا۔ نیا مارشل لا ایک ایسا مارشل لا تھا‘ جس میں غنڈہ گردی‘ جھوٹ اور قتل و غارت گری کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔
۱۲؍اگست۱۹۶۹ء کو ڈھا کا یونیورسٹی کے ۲۲ سالہ طالب علم اور اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکا کے ناظم عبد المالک کی شہادت اس کی واضح اور پہلی مثال تھی۔ عبد المالک کی شہادت پر مولانا مودویؒ نے فرمایا:
’’ اس موقع پر میں یہ بات بالکل بے لاگ طریقے سے واضح کر دیتا ہوں کہ جولوگ پاکستان میں اسلام اور اس کے نظام زندگی کی حمایت کے لیے اٹھے ہیں وہ اللہ کے سوا کسی اور پر بھروسا نہیں رکھتے۔ انھیں اس مقصد کے لیے جان و مال کی بازی لگانی ہے اور ہر اس قوت سے لڑجانا ہے جو یہاں اسلام کے سوا کوئی اور نظام لانا چاہتے ہیں۔ عبد المالک کی شہادت اس را ہ میں پہلی شہادت تو ہو سکتی ہے مگر یہ آخری شہادت نہیں ہے ‘‘۔اس سے بہت پہلے مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی لاہور کے دفتر پر حملہ ہوا اور قرآن پاک کو نذر آتش کیا گیاتھا۔
(جاری ہے)