امریکا ڈھیر ،مذاکرات پر تیار خفت مٹانے کیلئے شرائط

666

واشنگٹن/کابل/اسلام آباد( نمائندہ جسارت+ خبرایجنسیاں) امریکا افغان طالبان کی دھمکی کے آگے ڈھیرہوگیا۔ مذکرات کی بحالی پرآمادگی ظاہر کردی تاہم خفت مٹانے کے لیے کچھ شرائط رکھ دیں۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ اب بھی امن معاہدہ کرنا چاہتا ہے لیکن ہم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک طالبان سمجھوتے پر عمل درآمد سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کرتے۔امریکی ٹی وی چینل سی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی بحالی کے لیے طالبان کو اپنا رویہ ٹھیک کرنا ہوگا، طالبان اچھا برتاؤ نہیں کرتے اور سمجھوتے پر عمل درآمد نہیں کرتے تو امریکی صدر بھی ان پر دباؤ کم نہیں کریں گے۔امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ اگر طالبان افغان حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھتے، کارروائیوں میں کمی نہیں لاتے اور القاعدہ سے تعلق ختم نہیں کرتے تو ہم ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرسکتے۔مائیک پومپیو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان طالبان کو امریکی سرزمین پر مدعو کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کیمپ ڈیوڈ میں افغان طالبان کے ساتھ ملاقات پر کافی وقت سے کام چل رہا تھا۔ انہوںنے کہا کہ اگر یہ ملاقات ہو جاتی تو طالبان مذاکرات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں دہشت گرد حملے کرتے،امریکی صدر نے ملاقات منسوخ کر کے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا، برے برتاؤ پر طالبان کو نوازنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مائیک پومپیو کایہ بھی کہنا تھا کہ کابل حملے سے پہلے ایک سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے، ہم اب بھی مذاکرات کے لیے کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس کا انحصار طالبان کے برتاؤ پر ہے۔انہوں نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔علاوہ ازیں امریکی ٹی وی اے بی سی کو ایک انٹرویو میں پومپیو نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ طالبان اپنا رویہ تبدیل کریں گے اور جس حوالے سے ہم مذاکرات کررہے ہیں اس پر دوبارہ وعدہ کریں گے، آخر میں یہ مسئلہ مذاکرات کی سیریز کے ذریعے ہی حل ہوگا‘ہمیں ایک سنجیدہ عزم کی ضرورت ہے۔مائیک پومپیو نے مزید کہا کہ ہم افغان سیکورٹی فورسز کو اپنے تعاون میں کمی نہیں لارہے ہیں کیونکہ وہ مشکل لڑائی میں مصروف ہیں۔دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صادق صدیقی نے کہا ہے کہ ایسے مذاکرات جاری رکھنا بے معنی ہیں جو تشدد کے خاتمے کی ضمانت نہ دیں۔ انہوں نے کابل میں پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ صدر اشرف غنی کا واضح موقف ہے کہ اگر طالبان کے قول و فعل میں تضاد ہے تو ہم نہ صرف مذاکراتی عمل پرشک کریں گے بلکہ تشویش کا اظہار بھی کریں گے، جیسا کہ بہت سے لوگوں نے کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مفاہمتی عمل افغان عوام اور حکومت کی سربراہی میں ہوناچاہیے، افغان حکومت کو کسی بھی امن مذاکرات سے الگ نہیں کرناچاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں 28 اکتوبر کے الیکشن کے بعد مضبوط اور بااختیار حکومت بنے گی،جس سے امن عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ادھرپاکستان نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ افغان مسئلے کا حل سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے، فریقین کے درمیان جلد مذاکرات کی بحالی اور دوبارہ رابطوں کے لیے پرامید ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ تشدد کی مذمت کی ہے۔ افغان امن عمل میں نیک نیتی سے سہولت کاری فراہم کر رہے ہیں،پاکستان نے تمام فریقین کو مخلصانہ اور صبر کے ساتھ آگے بڑھنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کا اصولی موقف ہے کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے، فریقین سیاسی مذاکرات کے ذریعے امن عمل کو آگے بڑھائیں۔