یوم سیاہ ناکام تھا تو واویلا کیوں؟

384

عمرانی حکومت کی پہلی سالگرہ کو حزب اختلاف نے یوم سیاہ کے طور پر منایا اور اس موقع پر چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں جلسے کیے اور ریلیاں نکالیں ۔ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنماؤں نے خوب خوب دل کا غبار نکالا اور حکومت کو انتباہ کی پہلی باقاعدہ کال دی ۔ حزب اختلاف کا یہ پاور شو کس حد تک کامیاب رہا ، اس کا اندازہ سرکار کے ترجمانوں اور وزراء کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اخبارات میں جتنے بیانات حزب اختلاف کے رہنماؤں کے لگے ہیں ، اس سے زیادہ سرکاری کارندوں کے شائع ہوئے ہیں کہ یوم سیاہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا اور حزب اختلاف کا پاور شو فلاپ تھا ۔ یہ جلسے نہیں جلسیاں تھیں، ایسا ہی تھا تو لاہور میں راستے کیوں روکے گئے ۔ حزب اختلاف کی جانب سے یوم سیاہ منانے کے اعلان کے جواب میں تحریک انصاف نے یوم تشکر منانے کی کوشش کی جس کی تقریبات ڈرائنگ روموں تک ہی محدود رہیں ۔ کسی بھی حکومت کا پہلا برس مکمل ہوتے ہی اس کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ عام سی بات ہے ۔ جہاں حزب اختلاف حکومت کی کارکردگی کو ہدف تنقید بناتی ہے تو وہیں حکومت بھی اپنے کارنامے گنواتی ہے ۔ عمران خان کے معاملے میں تو معاملہ ہی یکطرفہ ہے کہ سرکار نے بڑھکیں مارنے کے علاوہ اگر کچھ کیا ہے تو وہ ہے مہنگائی سے عوام کا بھرکس نکالنا ۔ مہنگائی کا یہ دیو کسی ایک سمت سے حملہ آور نہیں ہوا ہے کہ اس کا مقابلہ کرلیا جائے ۔ اس نے تو ہر سمت سے پاکستانیوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کردیا گیا ہے تو پٹرول کی قیمت میں بلا جواز ہر ماہ اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ناقدری سے ہر درآمدی شے کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں جس کے گہرے اثرات کھاد، زرعی ادویات ، درآمدی بیج ،ادویات سے لے کر ہر شے پر پڑے ہیں ۔ اس سے ملک کی اپنی زرعی پیداوار کی لاگت میں بھی بھاری اضافہ ہوا ہے اور یوں دال سبزی ، گوشت سے لے دودھ تک ہر چیز کی قیمت میں ازخود اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس پر مزید کام سرکار نے یہ کیا ہے کہ سرکاری شرح سود میں ہر مرتبہ اضافہ کیا جارہا ہے اور یوں ملک میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر خوشحال شہری بے حال ہوگیا ہے اور یوں عمران خان کے باتدبیر وزراء اور مشیران نے خود عوام کو دھکیل کر احتجاج کے لیے حزب اختلاف کی خدمت میں پیش کردیا ہے ۔ عوام کا یہ حال ہے کہ وہ کسی نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں کہ وہ آئے اور انہیں اس جبر سے نجات دلائے ۔ یہ بھی عمران خان ہی کا کمال کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے منتشر حزب اختلاف کو متحد کردیا ہے ۔یہ سوال عوام کے لیے اب ثانوی حیثیت اختیار کرگیا ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے کتنی کرپشن کی اور کتنا ملک کو لوٹا۔ عوام کا اب صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں جینے کا حق دیا جائے جس طرح سے حکومت نے بلا امتیاز ٹیکس لگانے اور بہیمانہ طریقے سے وصولی کا عمل شروع کیا ہے ، اس سے عوام میں عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے صرف اور صرف نفرت کے جذبات پیدا ہورہے ہیں۔ پوری مہذب دنیا میں ٹیکس لگانے کا ایک طریقہ کار ہے ۔ ٹیکس اس شہری سے وصول کیا جاتا ہے جو صاحب استطاعت ہو ۔ جس شہری کے پاس کھانے ہی کو نہ ہو ، اس سے اگر اس کے گھر کے دروزے پر ٹیکس وصولی کے لیے سرکار پہنچ جائے تو پہلے اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور پھر پرتشدد احتجاج جنم لیتا ہے۔ یہ احتجاجی سیلاب بلا اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو بہا کر لے جاتا ہے اور اس کے پیچھے صرف تباہی کی داستانیں بچتی ہیں ۔ عمران خان نے شاید اسی لیے سونامی کی اصطلاح استعمال کی تھی ۔ اگر عمران خان کے ٹیکس وصولی کے فارمولے کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ انتہائی آسان ترین ہے کہ ملک پر موجود قرضوں کے بوجھ کو ملک کی آبادی پر تقسیم کرکے ہر شہری کوخواہ وہ کسی بھی حیثیت کا مالک ہو ، حکم دیا جائے کہ اتنی رقم ادا کرو تاکہ ملک پر سے قرضوں کا بوجھ اتارا جاسکے ۔ جس طرح سے یہ ممکن نہیں ہے ،بالکل اسی طرح بے ہنگم ٹیکسوں کا نفاذ بھی ممکن نہیں ہے ۔ عمران خان اپنا کام تو کرنہیں رہے ہیں کہ وہ ٹیکسوںکی وصولی کے نظام کو موثر بنائیں اور اس میں ہونے والی چوری کو روکیں ۔ اس ضمن میں ایک مرتبہ پھر سے بڑے اداروں کی مثال پیش کریں گے جو نہ صرف اپنے اوپر عاید کردہ ٹیکس سرکار کو دھڑلے سے ادا نہیں کرتے بلکہ اپنے صارفین سے سرکار کے نام پر جمع کردہ ٹیکس بھی ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ اس میں موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں ، کے الیکٹرک اور بجلی پیدا کرنے والی دیگر کمپنیاںاور گیس فراہم کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں ۔ کے الیکٹرک عوام سے ٹی وی لائسنس کی مد میں فیس جمع کرتی ہے مگر سرکار کو ادا نہیں کرتی ۔ اسی طرح سے ودہولڈنگ ٹیکس اور سیلز ٹیکس بھی جمع نہیں کروایا جاتا ۔ اگر سرکار یہی ٹیکس ان بڑے چور اداروں سے مع جرمانہ وصول کرلے تو پھر عمران خان کوکوئی نیاٹیکس لگانے اور اس کی وصولی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔ حزب اختلاف کے یوم سیاہ پر یہ کہہ کر تو تنقید کی جاسکتی ہے کہ وہ عوامی مسائل کے بجائے اپنے مفادات کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔ مریم اور بلاول اپنے اپنے باپ کو آزاد کروانے اور فضل الرحمٰن اپنے سرکاری منصب کے حصول کے لیے سرگرم ہیں مگر عوام کے نزدیک یہ بات اہم ہے کہ عمران خان کے آنے سے مہنگائی کا طوفان آگیاہے ۔ اب عمران خان کو یا تو لگام دی جائے یا پھر انہیں رخصت کیا جائے تاکہ اس صورتحال سے تو چھٹکارا مل سکے ۔