بلوچ علیحدگی پسند وں کو مذاکرات کی طرف لایا جاسکتا ہے،اختر مینگل

709

کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اب بھی مذاکرات کی طرف لایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ریاست اس بارے میں ماحول تیار کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس سٹیج پر پہنچے ہوئے ہیں کہ ان کو لانا مشکل ہے لیکن میں ابھی بھی کہوں گا ناممکن نہیں اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے حکمرانوں کو ایک ماحول بنانا ہو گا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی نے ہمیشہ بلوچستان کے عوام کی حقوق کیلیے جدوجہد کی ہے ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے ایک عرب خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کے حق میں ہیں اور ان کی پارٹی کے اکثریتی ارکان بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک وفد چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں ان کی مدد طلب کرنے آیا تھا لیکن انہوں نے اس وفد پر واضح کر دیا کہ وہ صادق سنجرانی کے اس عہدے پر فائز رہنے کے حق میں نہیں ہیں۔

اختر مینگل نے کہا کہ انہوں نے بجٹ پاس کروانے کے لیے حکومت کو ووٹ مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے دیا۔ بجٹ کا اگر ووٹ نہ دیتے تو کیا بجٹ پاس نہیں ہوتا اگر اس کے بدلے میں بلوچستان کے جو مسنگ پرسنز ہیں وہ واپس آ جاتے ہیں تو میرے خیال میں یہ سودا برا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حالات اس طرح کے رہے تو مجھے نہیں لگتا کہ آج کا بلوچستان کل وہ بلوچستان ہو گا۔ اگر حکومت نے ہوش کے ناخن لیے اور اسے سمجھ آگئی، جو ستر سالوں میں نہیں آئی تو پھر شاید بلوچستان اس ملک میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ آپ کے ارد گرد جو حالات ہیں اوراگر بلوچستان کے لوگوں کو اپنے ساتھ گھسیٹتے گئے تو پھر شاید بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے۔

اختر مینگل نے کہا کہ آج کے دور کے بلوچستان اور مشرف کے بلوچستان میں کوئی زیادہ فرق نہیں صرف میڈیا کا فرق ہے۔ اس وقت میڈیا بلوچستان میں تھوڑا آزاد تھا، اس وقت جمہوری دور ہے مگر میڈیا پر قدغن لگ گئی ہے۔ میڈیا کے لوگ آج حالات کی خرابی نہیں دکھا سکتے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے موجودہ وفاقی حکومت گزشتہ حکومت سے زیادہ بااختیار ہے پچھلی جو حکومت تھی وہ اس سے زیادہ بے اختیار تھی۔ ان سے ہم نے بات کرنا چاہی، ان کو بات کرنے کا بھی اختیار نہیں تھا۔