کچرے پر دھمکی نہ دیں نظام بنائیں

299

حکمرانوں کی پرانی بیماری ہے کہ اپنی نالائقی کا الزام عوام پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی میں صفائی کے معاملے پر کئی ماہ کی نورا کشتی کے بعد بلدیہ کراچی، حکومت سندھ اور وفاقی حکومت سب ہی صفائی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔ ہر ایک کی اپنی مہم ہے اور اپنی تصویر کھنچوا کر اپنے نمبر خود ہی بڑھا رہا ہے۔ اب تو تصاویر صرف یکطرفہ نہیں ہوتیں، ویڈیوز بھی دوطرفہ ہوتی ہیں۔ اِدھر وزرا اور بلدیاتی نمائندے کچرا اُٹھوا کر جاتے ہیں اُدھر وہی کچرا اسی جگہ دوبارہ لا کر ڈال دیا جاتا ہے۔ ایک جانب کراچی کا کچرا ہر روز بڑھتا جارہا ہے تو دوسری طرف کچرا سیاست بھی بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک کلین کراچی مہم میں شہر سے دو لاکھ 82 ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاچکا ہے، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں روزانہ 12 ہزار ٹن کچرا پھینکا جاتا ہے اس اعتبار سے شہر میں ایک ماہ میں 3 لاکھ 60 ہزار ٹن کچرا پھینکا جاتا ہے اگر حکومتی مہم کے نتیجے میں تقریباً تین لاکھ ٹن کچرا اٹھایا جاچکا ہے تو اس دوران اتنا ہی کچرا مزید بھی پھینکا جاچکا ہے۔ کچرا سیاست کی مہم فوٹو سیشن وغیرہ کے ڈراموں میں کچرا اٹھوایا ہی نہیں جاتا لیکن پھر بھی بلدیاتی انتخابات قریب آتے ہی کچرا اٹھوانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ اگر سڑکوں پر کچرا پھینکا جاتا رہا تو جرمانہ عاید کرنا شروع کردیں گے۔ یہ بات بجا ہے کہ سڑکوں، پارکوں، مساجد کے قریب اور تعلیمی اداروں کے دروازوں کے قریب کچرا پڑا ہوتا ہے اور ایسے مقامات پر کچرا پھینکنے والوں پر جرمانے ہونے چاہئیں۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ کچرا تو زیادہ تر سرکاری سویپرز پھینک رہے ہیں یا اگر وہ غائب ہیں تو کچرا ان مقامات سے اُٹھ نہیں رہا جہاں سے روزانہ اُٹھنا چاہیے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ سرکاری کچرا کنڈی تک بھی اب پرائیویٹ جمعدار کچرا پہنچاتے ہیں اور سرکار نے بوجوہ شہر میں کئی کچرا کنڈیاں بھی بند کردی ہیں۔ کہیں بلڈرز کے کہنے پر کہیں کسی سیاسی رہنما کی وجہ سے اور کوئی متبادل نہیں رہا۔ کنٹونمنٹ اور بلدیہ کے مشترکہ علاقوں گلستان جوہر، گلشن جمال وغیرہ میں کنٹونمنٹ کے ٹرک والے ہر اپارٹمنٹ والے سے 2 سے 6 ہزار روپے ماہانہ وصول کررہے ہیں، جب کہ انہیں بلامعاوضہ کچرا اٹھانا چاہیے۔ اس طرح جب سرکار نے کچرے کے ڈمپ اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے لینڈ فل سائنس کا تعین بھی نہیں کیا ہے تو کچرا شہر سے باہر کہاں ڈالا جارہا ہے۔ یا کم از کم عوام کو نہیں پتا کہ کچرا اُٹھا کر ڈالا کہاں جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ نے یہ جو کہا ہے کہ عوام اور دکانداروں کے خلاف کچرا پھینکنے پر کارروائی کی جائے گی تو اس میں ذرا صبر اور حکمت کی ضرورت ہے۔ حکومت پہلے اپنے عملے کو پابند کرے کہ کچرا کچرے دان میں پھینکے اسی طرح مارکیٹوں کی یونینوں کے ذمے داروں کو بلا کر انہیں تنبیہ کی جائے کہ ان کی مارکیٹوں کے سامنے کچرا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ شام کو دکان بند کرتے ہوئے ہر دکاندار اپنی دکان کا کچرا سڑک پر پھینکتا ہے اور دکان بند کردیتا ہے۔ اس طرح پوری مارکیٹ کا کچرا سڑک پر پڑا ہوتا ہے۔ مارکیٹ والے ہر چیز کے پیسے وصول کرتے ہیں تو انہیں کچرا پھینکوانے اور صحیح جگہ پھینکوانے کا انتظام کرنا چاہیے۔ لیکن وزیراعلیٰ اسپتالوں، اسکولوں اور مساجد و مدارس کے دروازوں پر کچرے کے بارے میں کیا کہیں گے۔ جو کچھ حکومت بلدیہ اور وفاقی وزرا کررہے ہیں یہ کوئی نظام نہیں ہے انتظام ہے جو ہمیشہ عارضی ہوتا ہے، کچرا ٹھکانے لگانے کا نظام بحال کیا جائے۔ آخر نعمت اللہ خان کے دور میں بھی اسی طرح کچرا پیدا ہوتا تھا لیکن اس کا نظام انہوں نے اور ان کی ٹیم نے بنایا تو کراچی صاف ستھرا تھا۔ مصطفی کمال کو اسے برقرار رکھنا پڑا اس کے لیے وہ مشینیں بھی لائے لیکن کچھ ہی دنوں میں بلدیہ سیاست کی نذر ہوگئی اور اب تو سب کچرا سیاست کررہے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ پلاسٹک کی تھیلیوں کا بھی ہے۔ حکومت نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی لگادی ہے اور وزرا کا انداز وہی ہے کہ کسی کو تھیلی پھینکتے ہوئے دیکھ لیا تو اسے پکڑلیں گے۔ ایسا ضرور کریں، لیکن کب… پہلے پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والے کارخانے تو بند کرائیں جہاں یہ تھیلیاں بنتی ہیں وہ لوگ پلاسٹک کے بڑے بڑے رول جیب میں رکھ کر تو نہیں لے جاتے ہوں گے۔ کارخانے میں مشینیں کہیں سے خرید کر لاتے ہوں گے تو اس وقت حکومت کے اہلکار کہاں ہوتے ہیں۔ اشتہاری مہم چلا دی گئی ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے پلاسٹک پر پابندی ضروری ہے۔ یہ ٹیکنالوجی آئی کہاں سے ہے؟ وہیں سے جن کے پیٹ میں ماحولیات کا درد ہوتا ہے۔ عوامی کی تربیت بھی ضروری ہے شعور بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن پہلے پلاسٹک تھیلیوں کی تیاری بند کی جائے۔ اس کے بعد متبادل طریقے اختیار کیے جائیں پھر بھی کوئی پلاسٹک کی تھیلیاں پھینکے تو اسے سزا دی جائے۔ اگر وزیراعلیٰ وزرا سزا کا لفظ بار بار ادا کریں گے تو پولیس والے تو راستے میں چلنا دوبھر کردیں گے۔ تلاشیاں لیں گے پلاسٹک کی تھیلی برآمد ہوتے ہی تشدد کریں گے اور مال بٹوریں گے۔ حکومت کا کام پہلے مرحلے میں سزا دینا نہیں ہوتا۔ تعلیم و ترغیب تو دیں پھر سزا کی جانب آئیں۔ کوئی نظام اختیار کیے بغیر عوام کو الزام دینا درست نہیں۔