درد دل کے واسطے

103

ایک غم ہو تو کوئی اس کا مداوا بھی کرے
دردِ دل ، دردِ جگر ، دردِ کمر تینوں ہیں

مندرجہ بالا شعر پڑھ کر یوں گمان ہوتا ہے کہ شاعر کا جسم ہے یا درد کا مجموعہ…صورت حال بہت ہی تشویش ناک اور خطرناک معلوم ہوتی ہے شاعروں کی دنیا میں دردِ دل کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے… یعنی محبوب کی بے وفائی، اس کی سنگ دلی مگر اس کے ساتھ شاعرِ پُر درد نے دو عدد مزید دردوں کا بھی ذکر کیا ہے اس کی وجہ ڈاکٹر یا حکماء حضرات ہی بتا سکتے ہیں میری سمجھ سے تو باہر ہے ۔ہاں سر درد کی وجہ تو میری سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اکثر مجھے اس سے سابقہ پڑتا ہے اسی سلسلے کا ایک شعر بھی ذہن میں ہے جو تحریر کیے دیتا ہوں… شاید آپ کو اچھا لگے:
کبھی کمر میں کبھی میرے سر میں رہتا ہے
عجیب درد ہے ہر دم سفر میں رہتا ہے
شاعرِ سر درد نے درد اور سفر کے درمیان جو رشتہ قائم کیا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر کے درد میں بے قراری ہے تبھی تو ایک جگہ رکنا اسے پسند نہیں ہے۔
جہاں تک دردِ دل کا تعلق ہے وہ تو شعرا حضرات کاقیمتی سرمایہء حیات ہے اس کے بغیر ان کا کاروبار ِشوق چلنے سے قاصر ہے درد کی شدّت جتنی زیادہ ہوگی اتنے ہی اچھے اشعار ان کے خیالوں میں آئیں گے…کیونکہ… آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں… تو معلوم یہ ہوا کہ شاعر کے اچھے اشعار کہنے کا تمام تر سہرا اس کے محبوب کو جاتا ہے محبوب جتنا زیادہ بے وفا ،دغاباز اور دھوکے باز ہوگا، بے رحمی کا سلوک کرے گا شاعر اتنے ہی زیادہ اچھے اشعار کہہ سکے گا…اپنی بیوی کی نظر میں چاہے وہ کیساہی انسان کیوں نہ ہو مگر ادب میں اس کا مقام اعلیٰ ہوگا…ایک مصرعہ یاد آیا تھوڑی سی تحریف کے ساتھ …
’’درد‘‘ بڑھتا گیا جوں جوں ’’دغا‘‘ کی
غالب کے بیشتر اشعار محبوب کی بے رحمی اور سنگ دلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب دیکھیے نا…بات سر پھوڑنے تک پہنچ گئی گویا غالب کا سر نہ ہوا پانی سے بھرا ہوا ناریل ہو گیا…
وفا کیسی کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
غالب کے محبوب کے یہاں بے رحمی، بے وفائی، ظلم و ستم اپنے عروج پر ہے تبھی تو مرزا نے اتنا سخت اور فیصلہ کن قدم اٹھایا مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جب مرزا ہاتھ میں تلوار اور کفن باندھ کر گھر سے باہر نکل رہے تھے اس وقت امراؤ بیگم نے انہیں روکا کیوں نہیں…
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
مندرجہ بالاشعر میں جن امراؤ کا ذکر ہوا ہے وہ مرزامحمد ہادی رسوا والی امراؤ جان نہیں ہیں، یہ خاتون امراؤ بیگم مرزا غالب کی اپنی ذاتی اور اکلوتی اللہ والی بیوی ہیں جنہوں نے ساری زندگی مرزا کو بھی اللہ والا بنانا چاہا مگر بے سود اس لیے کہ مرزا کہتے تھے…
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
بات ہو رہی تھی دردِ دل کی اور ذکر چھڑ گیا مرزا غالب کی بیگم کا۔ ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ کبھی کبھی شاعر کے دل کا درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل کا درد دھواں بن کر فضا میں اٹھتا دکھائی دیتا ہے اس بائیولوجیکل یعنی حیاتیاتی کیفیت کو شہنشاہ ِمتغزلین میرتقی میر نے اپنے ایک شعر میں اس حکمت سے بیان کیا ہے کہ ہمیں ان پر شاعر کے ساتھ حکیم ہونے کا بھی گمان ہوتا ہے…شعر حاضر ہے…
دل سے اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
اگلے وقتوں میں حکما -حضرات نے بھی شاعری زبردست کی ہے جیسے حکیم مومن خاںمومن،حکیم آغا جان عیش، حکیم قدرت اللہ قاسم وغیرہ وغیرہ۔ سنتے آئے ہیں کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور ساری زندگی اس رزق کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے مگر ہمارے شاعر ِمحترم خواجہ میر درد نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد ہی ’دردِدل‘ ہے جسے وہ اپنے ساتھ لاتا ہے اور ساری عمراسے برداشت کرتا ہے اور اس کا صحیح حق ہمارے اردو شعرا نے ادا کیا ہے… اسی لیے تو خواجہ صاحب یہ مصرع کہہ گئے:
’’دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘
بس اسی مصرع سے شعرائے کرام کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے اس سے استفادہ کیا اور دھڑا دھڑ بلا تکلف درد ِدل پر اشعار کہہ ڈالے…
دردِ دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو بتلا دوں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکا اپنا
کون سے زخم کا کھلا ٹانکا
آج پھر درد دل میں ہوتا ہے
میڈیکل سائنس چاہے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے مگر ہمارے شعرا کرام کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اگر مندرجہ بالا شعر کسی دل کے ڈاکٹر جو ماہر سرجن بھی ہو اسے پڑھ کر سنایا جائے تو وہ اپنی ساری ڈگریاں پھاڑ کر پھینک دے گا اور دیوانہ وار اس سرجن کو تلاش کرے گا جس نے شاعر کے دل میں لا تعداد ٹانکے لگا دیے مگر شاعر صاحب ہیں کہ ہشّاش بشّاش ہیں اور شعر پہ شعر کہہ رہے ہیں۔
سرِدست میرا موضوع تو دردِ دل ہے مگر موقع کی مناسبت سے مجھے غلام ہمدانی مصحفی یاد آ رہے ہیں جن کے ایک شعر نے میڈیکل سائنس میں آج تک کھلبلی مچا رکھی ہے، شاعر کا اپنے گریبان کو چاک کرنا پھر کسی رفوگر کی خدمات حاصل کرنا… یہ تو سنا تھا… مگر مصحفی کے یہاں دل کی رفوگری بھی ممکن ہے، اس حیرت انگیز سرجری نے ڈاکٹر حضرات کے لیے حیران کن اور پریشان کن مسئلہ بنا رکھاہے…
مصحفی! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
معزّز قارئین کرام!دردِ دل پرشعرا کرام نے اشعار تو بہت کہے ہیں مگر میں اختصار سے کام لے رہا ہوں ، مزیددو شعر آپ حضرات کے ذوقِ طبع کے لیے اور لکھ رہا ہوں … اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اشعار کی زیادتی آپ حضرات کو دل کے ڈاکٹر کے پاس جانے پر مجبور کر دے…
امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے
علاجِ دردِ دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا
امید کرتا ہوں کہ آپ سب حضرات ’’اچھے‘‘ ہوں گے۔ اللہ حافظ۔
nn

حصہ