ہم نے فراق کو دیکھا ہے

454

الہٰ آباد یونیورسٹی کے کئی ہاسٹل تھے مسلم بورڈنگ ہاؤس صرف مسلمان طلبہ کے لیے تھا کافی بڑی عمارت تھی ہاسٹل کے اندر ایک کشادہ جگہ تھی جہاںاکثر پروگرام ہوا کرتے تھے سال میں ایک مرتبہ اس جگہ مشاعرے کا بھی انعقاد ہوتا تھا سارے ہندوستان سے شعرا آیا کرتے تھے سال 1966 کا تھا مہینہ اگست کا مشاعرے کی تیاریاں زور و شور سے ہو رہی تھیں ہر طرف مشاعرے کا ہی چرچا تھا ان دنوں علمی اور ادبی تفریحات کا واحد ذریعہ مشاعرے ہی ہوتے تھے مشاعرے ہماری تہذیب اور ثقافت کا آئینہ دار ہوا کرتے تھے آج بھی ہوتے ہیں مگر آج کے دور میں ساری سرگرمیاں چاہے ادبی ہوں یا غیر ادبی سب ایک چھوٹی سی طلسمی ڈبیا میں سمٹ آئی ہیں ہم گھر بیٹھے بلکہ لیٹے ہوئے بھی ساری تفریحات سے محظوظ ہو سکتے ہیں سائنس کی ترقی نے ابن ِ آدم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے ’عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں ‘ بات ہو رہی تھی مشاعرے کی اور درمیان میں آدمِ خاکی آگئے ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں، اہلِ ذوق جس میں زیادہ تر یونیورسٹی کے طلبہ تھے مشاعرہ شروع ہونے سے قبل ہی مشاعرہ گاہ پہنچ چکے تھے مشاعرہ گاہ میں ایک ہنگامہ بپا تھا… آج کی شام طلبہ کے لیے ایک یادگار شام تھی، چونکہ مہینہ اگست کا تھا لہٰذا ہلکی سردی کا آغاز ہو چلا تھا سارے شعرا کرام اسٹیج کی زینت بن چکے تھے اسٹیج روشنیوں سے جگمگا رہا تھا،نظامت ملک زادہ منظور کررہے تھے اس وقت ہندوستان میں مشاعرے کی نظامت کے لیے ملک زادہ سے بہتر کوئی اور نہیں تھا ملک زادہ شاعری بھی کرتے تھے مگر انہوں نے شاعری میں اتنی شہرت حاصل نہیں کی جتنی نظامت میں کی ،ان کا ٹھہر ٹھہر کر بولنا کسی شاعر کو دعوت ِسخن دینے سے قبل اس کے لیے تمہیدی کلمات کہنا اور بہت ہی خوبصورت انداز سے اس کا تعارف کرانا یہ ان کا وصف ِخاص تھا کسی مشاعرے کی نظامت اگر ملک زادہ منظور کر رہے ہوتے تو مشاعرے کی کامیابی کی پچاس فیصد ضامن ان کی شخصیت ہوا کرتی تھی۔

مشاعرے کا آغاز ہو چلا شعرائے کرام اپنا کلام سنا رہے تھے فراق گورکھپوری بھی اس مشاعرے میں موجود تھے وہ الہٰ آباد یونیورسٹی میں ان دنوں انگریزی کے استاد تھے چین اسموکر تھے کلاس کے اندر ہوں یا باہر سگریٹ ان کے ہاتھ میں ضرور ہوا کرتی تھی درمیان میں فراق صاحب جنہیں ابھی ناظم نے دعوتِ کلام نہیں دی اپنی جگہ سے اٹھے شیروانی کے بٹن کھلے ہوئے ایک ہاتھ میں سگریٹ دوسرے میں چھڑی پکڑے ہوئے مائک پر آ بیٹھے یہ کہتے ہوئے کہ میں رات زیادہ دیر تک جاگ نہیں سکتا اور اپنا کلام پڑھنا شروع ہو گئے…

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

اس کے بعد جیسے ہی انہوں نے اگلے اشعار پڑھنے شروع کیے لڑکوں کی شرارت کی رگیں پھڑک اٹھیں اور پہلے ہی مصرے پر لڑکوں نے بآوازِ بلند واہ واہ کے نعرے لگانے شروع کر دیے فراق صاحب نے اپنی چھڑی اٹھائی اور لڑکوں کی طرف ڈانٹنے کے انداز میں چھڑی دکھاتے ہوئے کہنے لگے’’ خاموش ہو جاؤ ! سمجھ میں آتا واتا کچھ ہے نہیں اور چلے ہیں واہ واہ کرنے‘‘ بس پھر کیا تھا لڑکے تو شریر ہوتے ہیں ایسی خاموشی اختیار کی کہ محفل میں بالکل سنّاٹا چھا گیا اور ایسا لگا کہ یہ محفلِ مشاعرہ نہیں بلکہ مجلسِ شہدائے کربلا ہو رہی ہے اور فراق صاحب کو ایسے سوگوار ماحول میں اپنے اشعار پڑھنے پڑے، مزے کی بات تو یہ ہے کہ ا سٹیج پر بیٹھے شعرا حضرات بھی خاموش تھے ان کے ذہنوںمیں شاید یہ بات رہی ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب کے چھڑی کا رُخ ان کی طرف ہو جائے بہرحال فراق کے چند اشعارجو مجھے یاد ہیں تحریر کیے دیتا ہوں۔

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں
شبِ سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہِ حیات
قدم سنبھل کے اٹھائو بہت اندھیرا ہے
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکر رہ گئیں

الہٰ آباد کا سب سے خوب صورت علاقہ سول لائنز ہے وہاں پر ایک چوراہے کے کونے پر چھوٹی سی کافی شاپ ہوا کرتی تھی میرے بچپن کے ایک دوست اسد حامد جنہیں پیار سے سب پپّن کہتے تھے ان کے بڑے بھائی اس کافی شاپ کے مالک تھے شام کو تفریحاً ہم لوگ وہاں اکٹھا ہوتے تھے کافی شاپ کی جگہ چھوٹی تھی اندر صرف کافی تیار کی جا سکتی تھی باہر کشادہ فٹ پاتھ تھا وہاں بیٹھ کر کافی پی جاتی تھی اکثر فراق صاحب رکشے پر تشریف لاتے کافی شاپ کے سامنے رکشہ رکتا فراق صاحب چھڑی سے اشارہ کرتے مقصد تھا کافی کا ایک پیالہ درکار ہے اور لڑکا تیزی سے کافی کا پیالہ لیے رکشے پر فراق صاحب کو پہنچا دیتا… پپّن ان سے کافی کے پیسے نہیں لیتا تھا ایک دن فراق صاحب نے پپّن سے کہا کہ مجھ سے کافی کے پیسے نہ لے کر تم نے مجھے مفت خورا بنا دیا ہے نہ تو میں کوئی بزرگ ہستی ہوں نہ کوئی پیر فقیر جس کو مفت کافی پلانے کا ثواب تمہیں آخرت میںملے، میں تو ٹھہرا کافر اور سونے پہ سہاگہ ایک شرابی شاعر…پپّن نے کہا تو پھر آپ مسلمان ہوجایئے کہنے لگے … میاں برخوردار ساری زندگی عشق ِبتاں میں گزار دی اب آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے۔

فراق مذہباً ہندو تھے ان کا پورا نام رگھو پتی سہائے تھا، فراق تخلص فرماتے تھے گورکھپور میں پیدا ہوئے تھے مگر ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ الٰہ آباد میں گزرا تھا شروع کی تعلیم گورکھپور میں حاصل کی گریجویشن اور ماسٹرز الٰہ آباد یونیورسٹی سے کیا بعد ازاں وہیں انگریزی کے لیکچرر ہو گئے اور ساری عمر الٰہ آبادمیں گذار دی۔ میں نے انہیں الٰہ آباد میں بارہا دیکھا تھا اس وقت مجھے ان کا ایک شعر یاد آگیا:

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصروں
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق ؔکو دیکھا ہے

ہاں !ہم فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ ـہم نے فراق کو دیکھا ہے کیفی اعظمی بمبئی سے تشریف لائے تھے چونکہ بمبئی کی فلمی دنیا سے منسلک تھے فلموں کے لیے گیت لکھتے تھے اس لیے کافی مقبول ہو چکے تھے انہوں نے ایک نظم سنائی جس میں حضرت یوسف اور زلیخہ کا ذکر تھا اس کے اشعار اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہیں۔

خمار بارہ بنکوی اپنے ترنم کے لیے خاصے مقبول تھے سامعین نے تالیوں سے ان کا استقبال کیا خمار کا انداز بتا رہا تھا کہ’’ مجھ کو یار و معاف کرنا میں نشے میں ہوں‘‘ خمار غزل سرا ہوئے:

اکیلے ہیں وہ اور جھنجلا رہے ہیں
مری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں
الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آرہے ہیں
یہ کیسی ہوائے ترقّی چلی ہے
دیے تو دیے دل بجھے جا رہے ہیں
بہاروں میں بھی مے سے پرہیز توبہ
خمارؔ آپ کافر ہوئے جا رہے ہیں

٭

یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے
خدا ہے محبت، محبت خدا ہے
کہوں کس طرح میں کہ وہ بے وفا ہے
مجھے اس کی مجبوریوں کا پتا ہے

؎ملک زادہ نے ایک غزل پڑھی اس وقت ذہن میں صرف ایک شعر ہے سو تحریر کیے دیتا ہوں :

زندگی میں تو کبھی اتنی پریشانی نہ تھی
چاک دامانی تھی لیکن تنگ دامانی نہ تھی

دلاور فگار بدایوں سے تشریف لائے تھے مجھے انہیں دیکھنے کی بڑی تمنا تھی اس کی وجہ ان کی وہ مشہور نظم’’ شاعرِ اعظم‘‘ تھی جسے میں نے ماہنامہ رسالے’’ بیسویں صدی ‘‘میں پڑھاتھا میرے گھر ’’بیسویں صدی ‘‘پابندی سے آتا تھا خوشتر گرامی اس کے مدیر ہوا کرتے تھے یہ اپنے وقت کا سب سے اچھا ادبی رسالہ ہوا کرتا تھا دلاور فگار کی نظم ’’شاعرِ اعظم‘‘ سب سے پہلے اسی رسالے میں شائع ہوئی تھی میں نظم سے بہت زیادہ متاثر ہوا تھا اور میری خواہش تھی کہ میں دلاور فگار کو دیکھوں اس نظم نے دلاور فگار کو سارے ہندوستان میں مشہور کر دیا تھا دلاور فگار مائک پر تشریف لائے انہوں نے اپنی مزاحیہ نظم’’ ریلوے کا تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ‘‘ پڑھی ایک تو ان کے پڑھنے کا انداز بہت منفرد دوسرے نظم مزاح سے بھرپور… یقین جانیے مشاعرہ گاہ قہقہوں سے گونج رہی تھی بات بہت پرانی ہے اس لیے اس نظم کا ایک بھی شعر اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے اس کے بعد شعرا اور سامعین کی فرمائش پر دلاور فگار نے’’ شاعرِ اعظم‘‘ سنائی اس کے چند اشعار سے آپ بھی محظوظ ہو سکتے ہیں:

کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں
کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
وہ کون ہے کہ شاعرِ اعظم جسے کہیں
میں نے کہا شکیل تو بولے ادب فروش
میں نے کہا قتیل تو بولے کہ بس خموش
میں نے کہا کہ ساحرو مجروح و جاں نثار
بولے کہ شاعروں میں نہ کیجیے انہیں شمار
میں نے کہا کہ یہ جو دلاور فگار ہیں
بولے کہ وہ تو صرف ظرافت نگار ہیں
میں نے کہا مزاح میں اک بات بھی تو ہے
بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے
پایانِ کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ
میں نے کہا حضور تو بولے کہ شکریہ

نازش پڑتاب گڑھی بھی مشاعرے میں تھے نازش تخلص فرماتے تھے مذہبا ًہندو تھے ہندو مذہب کے خلاف شعر کہہ گئے:

سانپ کی شکل کی کرتے ہیں جو پوجا وہ لوگ
سانپ زندہ نظر آتا ہے تو ڈر جاتے ہیں

اگر یہ شعر کوئی مسلمان شاعر کہتا تو شہر الٰہ آباد میں اگلے دن سے ہندوئوں کو ’’ہندو مسلم فساد‘‘ کھیل کھیلنے کا بہترین موقع مل جاتا وہ تو شکر ہے کہنے والا خود ہندو تھا ۔

راز الٰہ آبادی بھی شاعروں کی فہرست میں تھے چہرے پر خوب صورت سی داڑھی‘ سر پر کالی ٹوپی کرتا پاجامہ یہی ان کا لباس تھا ترنم سے اشعار پڑھتے تھے،غزل سرا ہوئے:

وہی غزل پڑھی جسے پاکستانی فلم ’’بازی‘‘ کے لیے حبیب ولی محمد نے گایا اور فلم میںاداکار ندیم پر غزل فلمائی گئی۔

آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا
ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیںگے
اتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
اور کچھ دن یہ دستورِ میخانہ ہے
تشنہ کامی کہ یہ دن گزر جائیں گے
میرے ساقی کو نظریں اٹھانے تو دو
جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے
اے نسیمِ سحر تجھ کو ان کی قسم
ان سے جا کر نہ کہنا مرا حالِ غم
اپنے مٹنے کا غم تو نہیں ہے مگر
ڈر یہ ہے ان کے گیسو بکھر جائیں گے
اشک ِ غم لے کے آخر کہاں جائیں ہم
آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں
آپ ہی اپنادامن بڑھا دیجیے
ورنہ موتی زمیں پر بکھر جائیں گے
رازؔ ایسے میں کوئی غزل چھیڑ دو
قافلے زندگی کے ٹھہر جائیں گے

مشاعرے میں اور بھی شعرا تھے بات اتنی پرانی ہو چکی ہے کہ اب صحیح سے ان حضرات کے نام بھی یاد نہیں ہیں زندگی میں اتنے مشاعروں میں شرکت کی ہے کہ جب یاد کرتا ہوں تو ایک دوسرے میںگڈ مڈ ہو جاتے ہیں،آخر میں صفیؔ لکھنوی کا ایک شعر لکھ کر آپ حضرات سے رخصت چاہتا ہوں:

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

حصہ