میری ماں 

385

آسمانی دوپٹے کے ہالے میں ان کا ملیح چہرہ ہمیشہ کی طرح خوب صورت دکھائی دے رہا تھا۔ وہ جاء نماز بچھائے اپنے رب سے مناجات میں مصروف تھیں۔ یہ میری ماں تھیں، انہیں جدا ہوئے ایک ماہ ہی ہوا ہے، لیکن لگتا ہے برسوں گزر گئے۔

انہیں بچپن سے ہی اللہ رب العزت سے بہت محبت تھی۔ نماز کے انتظار میں رہتیں۔ قرآن کو ایسے پیار اور ادب سے پڑھتیں کہ رشک آتا… نفاست پسند ایسی کہ گھر کی ہر شے ان کے سگھڑپن اور سلیقہ شعاری کی عکاس تھی۔ کم عمری میں بیاہ کر آئیں اور شوہر کے گھر کو جنت بنادیا۔ پروفیسر صاحب نے ساری زندگی حق حلال کی کمائی کی۔ ان کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ دین کے راستے میں چلنے میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔ کم آمدن میں بھی گھر کا نظام منظم رکھا۔ بہت عزت کے ساتھ زندگی گزاری۔ اپنی اولاد کو اچھا پہنایا اور کھلایا۔ کفایت شعاری کی صفت نے ہمیشہ ہر محفل میں پُروقار ہی رکھا۔ بہت زیادہ کپڑے بنانے کی حرص نہ تھی۔ گرمی ہو یا سردی، ان کی الماری میں محض چار جوڑے ہی دکھائی دیتے۔ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کے اصول پر کاربند رہتیں۔ ہمہ وقت کسی نہ کسی کام میں مشغول رہتیں۔ کھانا اس قدر لذیذ بناتیں کہ لوگ انگلیاں چاٹتے رہ جاتے، کیونکہ بناتی ہی اتنے پیار اور لگن سے تھیں۔

مطالعے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ تاریخ سے بے حد لگاؤ تھا اور مزے کی بات کہ بڑھاپے میں بھی تاریخی واقعات مع نام اور مقام کے یاد تھے۔ جب بھی ان کے پاس بیٹھتے علم کے سمندر سے کچھ نہ کچھ لے کر ہی اٹھتے۔ شوہر کا گھر بنانے سے لے کر اولاد کی تربیت تک وہ کامیاب تھیں۔ ساری زندگی اس گھر کو جنت بنانے میں وار دی۔ اولاد کی نہ صرف دنیاوی تعلیم بلکہ دینی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دی۔ انہیں نماز، روزے کا پابند بنایا۔ اللہ سے تعلق کو جوڑا نہ صرف خود کا بلکہ اپنے چھوٹے سے خاندان کا بھی۔ اقامتِ دین کے لیے کام کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتیں، اُن کی مالی مدد بھی کرتیں اور ہمت بھی بڑھاتیں۔ ہر ایک کی پریشانی پہ پریشان ہوجاتیں، خوب دعائیں مانگتیں۔ حق بات پہ ڈٹ جانے والی… کبھی کسی کی برائی کرتیں نہ ٹوہ لگاتیں، اپنی زندگی میں مگن رہتیں۔

آزمائشیں بہت آئیں مگر اللہ کے سوا کبھی کسی سے بیان نہ کرتیں۔ وہ میری ماں… میری دوست تھیں جو اب اُس کے پاس چلی گئیں جس سے بہت محبت کرتی تھیں، اُس اللہ کو پیاری ہوگئیں جس سے گھنٹوں محوِ گفتگو رہتیں۔

وہ آخری سفر پر بھی باوقار طریقے سے روانہ ہوئیں، ان کا چمکتا اور پُرنور چہرہ اس بات کا گواہ تھا کہ جو اللہ سے محبت رکھتے ہیں اللہ اس محبت کی لاج رکھتا ہے، اپنے محبوب بندوں کو پیار سے اپنے پاس بلا لیتا ہے۔

پیاری امی جان! لکھنا تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر یہ انگلیاں اور آنکھیں دکھ سے معمور ہیں اور میرا ساتھ نہیں دے رہیں۔ جانا تو سب کو ہے، سدا کون رہا ہے اس جہان میں! مگر میں آپ کا پیارا چہرہ نہیں دیکھ سکوں گی جسے دیکھنے میں بھاگ بھاگ کر آتی تھی، جسے دیکھ کر چومنے کو جی چاہتا تھا۔ پتا نہیں صبر کیسے آتا ہے! مگر ماں باپ کے چلے جانے سے جو نقصان ہوتا ہے اس کا کوئی مداوا نہیں ہوسکتا۔ اللہ آپ کو اور ابو جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔

حصہ