کیا آپ اکثر آدھے سر کے درد کا شکار رہتے ہیں؟مائیگرین گھر گھر کا درد کیا اس کا کوئی علاج بھی ہے؟

652

مائیگرین یا دردِ شقیقہ ایک اعصابی عارضہ ہے، اور اس کا انگریزی نام مائیگرین یونانی اصطلاح ہیمی کرینیا سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی آدھی کھوپڑی کے ہیں۔ پوری دنیا میں لاکھوں لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً چار کروڑ افراد مائیگرین (آدھے سر کا درد) میں مبتلا ہیں۔ ہر 16 مردوں میں سے ایک، ہر 5 عورتوں میں سے ایک عورت اور ہر 11بچوں میں سے ایک کو مائیگرین کی شکایت ہے اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آدھے سر کا درد 16 سال سے 40 سال تک کی عمر کے لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع کے مطابق مائیگرین کا درد جدید مغربی تحقیقات کے مطابق تقریباً 12فیصد افراد کو ہوتا ہے۔ اس شرح میں مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔ یہ درد خواتین میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ (2سے3گنا) ہے۔ مائیگرین کا دائرہ خاصا وسیع ہے، جس میں عام سر درد سے لے کر جان لیوا سر درد تک شامل ہے۔ لہٰذا ایسے خوش نصیب شاید کم ہی ہوں جنہیں سر درد نہ ہوا ہو۔ عام طور سے سر درد کو معمولی درد سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے اور اس کی تشخیص یا علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے درد مستقل شکل اختیار کرلیتا ہے اور انسان کے معمولاتِ زندگی برے طریقے سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ مائیگرین بہت سے اہم سماجی و معاشی مسائل کو جنم دینے کا باعث ہے۔ امریکی ایسوسی ایشن آف مائیگرین ڈس آرڈر کی ایسوسی ایٹ پروگرام میں ڈائریکٹر کائلی پیٹرار کے مطابق مائیگرین کو عام درد سمجھنا اب پرانی بات ہوچکی ہے، جہاں عام طور پر سردرد کو برداشت کیا جاسکتا ہے وہیں مائیگرین بہت شدید ہوتا ہے اور بعض اوقات جسم میں شدید کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے۔ لبنان کے نیورولوجسٹ ڈاکٹراسٹیورٹ ٹیپر کے مطابق مائیگرین کا درد دماغ کی گہرائی سے شروع ہوتا ہے اور اعصابی نظام کے حصوں کو متاثر کرتا ہے۔ نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے مطابق یہ درد مردوں کے مقابلے میں خواتین میں تقریباً تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔

رٹگرز یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر جوآنا کیمپنر کے مطابق ”ایک طویل عرصے تک دردِ شقیقہ کو جدید لگژری کا نتیجہ تصور کیا جاتا تھا، یعنی ایسی چیز جو اونچے طبقے کے مرد و خواتین پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس ماحول میں پلنے والوں کے بارے میں تصور کیا جاتا تھا کہ وہ نازک اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دردِ شقیقہ انسانی تاریخ میں ریکارڈ کی گئی قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ 1200 قبلِ مسیح کی قدیم کتابوں میں بھی دردِ شقیقہ جیسی تکلیف کا تذکرہ ہے۔ مشہور یونانی طبیب بقراط نے اس بیماری کے ساتھ بینائی کے متاثر ہونے اور الٹیوں کے منسلک ہونے کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ مگر دردِ شقیقہ کی اصل دریافت کا سہرا عموماً قدیم یونانی ڈاکٹر ایریٹائیس کی سر باندھا جاتا ہے جو کیپاڈوچیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے دوسری صدی میں بالکل درست انداز میں اس درد کے یک طرفہ ہونے اور علامات سے خالی اوقات کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ طبی ماہرین دردِ شقیقہ کے علاج کے لیے ٹریپینیشن یعنی کھوپڑی میں سوراخ کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ یہ خوفناک عمل ان لوگوں کے اندر سے بدروحیں نکالنے کے لیے کیا جاتا جو ممکنہ طور پر جنات کے اثرات کے بجائے کسی ذہنی بیماری سے متاثر ہوتے، اور یہی دردِ شقیقہ اور ذہن کے درمیان پہلے تعلق میں سے ایک ہے۔ ڈاکٹروں نے ابتدائی طور پر 19ویں صدی میں نوٹ کیا تھا کہ خواتین میں دردِ شقیقہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس بیماری کا تعلق ذہن سے ہے اور انھوں نے اسے نچلے طبقوں کی ماؤں کی بیماری قرار دیا جن کے ذہن اُن کے مطابق روزمرّہ کے کام، کم نیند، بار بار دودھ پلانے اور غذائی قلت کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔

شقیقہ کے درد کی کیا وجہ ہے؟
شقیقہ کا درد متعدد عوامل کی وجہ سے ہوسکتا ہے، جیسے ہارمون کی سطح میں تبدیلی، بعض دوائیں جن میں کئی اینٹی بایوٹک بھی شامل ہیں، اس درد کو متحرک کرسکتی ہیں۔ اسی طرح ماحولیاتی محرکات بھی دردِ شقیقہ کی عام وجوہات ہیں، اور ان میں چمک دار روشنیاں، تیز آوازیں، تیز بو، اور مخصوص قسم کے کھانے جیسی چیزیں شامل ہوسکتی ہیں۔ جینیات شقیقہ کے درد کی نشوونما میں کردار ادا کرسکتی ہیں، کیونکہ بعض جینز کا دردِ شقیقہ کی علامات پیدا کرنے سے تعلق بتایا جاتا ہے۔ لیکن عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ اس کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔ تاہم اپریل 2018ء میں ایریزونا یونیورسٹی میں کی گئی مادہ اور نر چوہوں پر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ شاید اس کی وجہ ایسٹروجن کی سطح اور سوڈیم پروٹون ایکسچینجر کی نچلی سطح کے مابین تعلق ہوسکتی ہے۔

دردِ شقیقہ کی علامات کیا ہیں؟
آدھے سر کے درد کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں، اور اس کی علامات ہر شخص میں مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن عام طور پر شدید اور بے چین کرنے والا سر درد اس کی علامت ہوتی ہے۔

پروفیسر عارف ہریکار کے مطابق ”ذہنی دباؤ، نیند کی کمی، نظام ہاضمہ میں خرابی سے یہ بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ جبکہ عام طور پر پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن) اور کھانا نہ کھانے سے بھی آدھے سر کے درد کی شکایت ہوجاتی ہے۔ خواتین ابتدا میں اس درد کی جانب توجہ نہیں دے پاتیں جس کے باعث درد کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتا ہے جو بعد میں صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔“

دیگر عام علامات میں روشنی اور آواز کی حساسیت کے ساتھ ساتھ عام بے چینی یا تھکاوٹ کا احساس بھی شامل ہے۔ کچھ لوگوں کو بصری خلل کا بھی سامنا ہوسکتا ہے، جیسے چمکتی ہوئی روشنیوں یا زگ زگ کے نمونوں کو دیکھنا، نیز چہرے، بازوؤں یا ٹانگوں میں بے حسی یا جھنجھلاہٹ۔ بعض صورتوں میں سر درد کئی گھنٹے یا دن تک جاری رہ سکتا ہے۔

بہت سے لوگ مستقل بنیادوں پر دردِ شقیقہ سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ دردِ شقیقہ کا دورانیہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوسکتا ہے۔ بعض افراد تھوڑی دیر کی تکلیف میں ہی مبتلا رہتے ہیں، جبکہ کچھ افراد کو یہ درد گھنٹوں تک رہتا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2018ء کے مطالعے کے مطابق مائیگرین کے سبب 50 سال سے کم عمر لوگ کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔ کئی لوگ مائیگرین کی سنگینی کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے جس کی وجہ سے انہیں مستقبل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دردِ شقیقہ کے لیے علاج و حکمتِ عملی:
اگرچہ دردِ شقیقہ کا کوئی علاج نہیں ہے اور ڈاکٹر ازخود علاج یعنی سیلف میڈیکیشن سے منع کرتے ہیں، لیکن کئی حکمتِ عملیاں ہیں جو علامات کو سنبھالنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں، اور اس کا علاج علامات کی شدت پر منحصر ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو دماغ میں درد کے سگنلز کو روکنے کے لیے بنائی گئی دواوں سے شقیقہ کے درد سے فوری ریلیف مل جاتا ہے۔

اس ضمن میں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کام اور مصروفیات کو ذہن پر زیادہ سوار نہ کریں، اس کے ساتھ ساتھ کم سے کم 30 منٹ تک چہل قدمی ضرور کریں اور مختلف قسم کی ورزشوں کو معمولاتِ زندگی میں شامل کریں، کیونکہ یہ تمام طریقے ذہنی دباؤ اور اضطراب سے نجات کے لیے بہت اہم ہیں۔ اسی طرح امریکن اکیڈمی آف نیورولوجی کے جریدے میں بھی ایک نئی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ سر درد اور مائیگرین کا تعلق نیند سے ہے جسے بائیولوجیکل اصطلاح میں سرکیڈین سسٹم (circadian systems)کہتے ہیں۔ اسی لیے معالج یا ڈاکٹر کہتے ہیں کہ جو لوگ نیند پوری نہیں کرتے یا حد سے زیادہ سوتے ہیں وہ اکثر آدھے سر کے درد کا شکار ہوجاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ نیند پوری کرنے کی کوشش کریں۔

نیورولوجی اویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالمالک نیورولوجی (دماغ و اعصاب) میں معاون پروفیسر ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف کوپن ہیگن سے ’ہیڈ ایک ڈس آرڈرز‘ دردِ سر اور اس سے وابستہ امراض کے شعبے میں ماسٹرز بھی کیا ہوا ہے، اور اس طرح وہ دردِ سر کے علاج سے متعلق پہلے مستند ڈگری یافتہ ماہر ڈاکٹر ہیں۔ اس ضمن ان کا کہنا ہے کہ ”مائیگرین سے نمٹنے کے لیے آپ اپنے پاس ایک ڈائری رکھیں جس میں نہ صرف درد شروع ہونے کے اوقات، دورانیہ اور ہر وہ اہم بات جو اِس سر درد کے ساتھ منسلک ہو، درج کریں۔ اپنے معمولات اور درد کے ساتھ جُڑی چیزیں نوٹ کریں (مثلاً کچھ لوگ معمول سے زیادہ سونے کی وجہ سے مائیگرین میں مبتلا ہوجاتے ہیں)۔ ان تفصیلات کو کچھ عرصہ نوٹ کرتے رہنے سے آپ کو درد کی کیفیت اور مزاج سے آگاہی ہوجائے گی جس سے اِس کے اسباب جاننے میں مدد ملے گی۔ مثال کے طور پر ہوسکتا ہے کہ آپ کے کام کی رفتار تھکاوٹ اور درد کا باعث بنتی ہو، لہٰذا اس بناء پر روزمرہ کو منظم کریں تاکہ اس درد کی بنیادی وجہ کو دور کرکے مائیگرین پر قابو پاسکیں۔
ڈاکٹر مالک یہ بھی کہتے ہیں کہ” آدھے سر کا درد ایک دردناک سچائی ہے، اس کے باوجود اکثر لوگ مائیگرین کو عام سر درد سمجھ کر علاج کرنا شروع کردیتے ہیں جو اس مرض کو پیچیدہ بنادیتا ہے“۔ وہ کہتے ہیں کہ ”تین ہفتوں کے دوران ہر ہفتے دو سے زائد مرتبہ سر درد کی صورت میں اُسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ مریض کو طویل عرصے تک درد کُش ادویہ نہیں لینی چاہئیں کیونکہ ان ادویہ کا زیادہ استعمال سر درد سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دردکُش ادویہ کا زیادہ استعمال دیگر امراض کا باعث بن سکتا ہے جب کہ یہ گردوں اور جگر کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس لیے سر درد کی صورت میں فوری طور پر ماہر نیورولوجسٹ سے مشورہ کریں تاکہ ابتدا میں ہی اس کا تدارک کیا جاسکے۔“

حصہ