اللہ کے نام پے بابا!

300

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

جس طرح سرکاری محکمے میں گریڈ کا تعیّن کیا جاتا ہے اُسی طرح فقیروں کے بھی گریڈ ہوتے ہیں اعلیٰ گریڈ کے فقیروں کا ذکرِ خیر بعد میں کروں گا پہلے اُن سے نیچے کے گریڈ کے فقیروں کا ذکر ہو جائے۔ اس گریڈ کے فقیر آبائی ہوتے ہیں یعنی ان کے آبا و اجداد بھی فقیر تھے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو بڑی شان سے ’’خاندانی فقیر‘‘ کہتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ ’’ہم لوگ کوئی معمولی فقیر تھوڑی ہیں… خاندانی ہیں خاندانی… اپنی محنت کی کھاتے ہیں عزت سے گزارہ کرتے ہیں۔‘‘

ہم نے اسی طرح کے ایک فقیر ِبے ننگ و نام سے کہا کہ ’’بھیا! کوئی کام کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘

کہنے لگا ’’یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں کیا یہ کام نہیں ہے؟ یہ کام تو ہمارے ملک کے اعلیٰ گریڈ کے فقیر بھی کر رہے ہیں جو ہمارے بڑے بھائی ہیں‘ اگر ہم کر رہے ہیں تو کون سا جرم ہے اور پھر ہم تو محنت کرتے ہیں‘ سردی ہو یا گرمی سارا دن سڑکوں اور گلیوں میں مارے مارے پھرتے ہں تب کہیں جا کر ان لوگوں کی جیب سے اتنا نکال پاتے ہیں کہ جس سے ہم گیارہ افراد کا خرچا پورا ہوسکے۔ نو بچے اور ایک بیوی یعنی کُل گیارہ افراد ہیں۔ اللہ کا شکر ہے سب خوش حال ہیں ہم نہ تو کسی کے قرض دار ہیں اور نہ ہی ہمیں ہر مہینے قرض کی قسط ادا کرنے کی ٹینشن رہتی ہے‘ عزت دار لوگ ہیں کوئی ایسے ویسے تھوڑی ہیں… خاندانی ہیں خاندانی۔‘‘

اُس کے جانے کے بعد بہت دیر تک اس کا کہا ہوا جملہ میرے کانوں میں گونجتا رہا کہ ’’نہ تو ہم کسی کے قرض دار ہیں اور نہ ہی ہمیں…’’ مجھے علامہ اقبال کا ایک مصرعہ یاد آ گیا تھوڑی سی تحریف کے ساتھ۔

’’پانی پانی کر گئی مجھ کو ’’گداگر‘‘ کی یہ بات‘‘

حیرت اس بات کی ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک ادنیٰ سا انسان‘ جسے ہم بھیک منگا یا گداگر کہتے ہیں‘ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم کسی کے قرض دار تھوڑی ہیں اور ایک ہم ہیں اعلیٰ و ارفع جس کا رواں رواں قرض سے جکڑا ہوا ہے‘ ہم قرض کی دلدل میں اس بری طرح سے پھنسے ہیں کہ نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی۔ حضرات آئی ایم ایف سے لیا ہوا یہ وہی قرض ہے جسے’’کھاتے خواص اور چکاتے عوام ہیں۔‘‘

گزشتہ دنوں ہمارے ملک میں سیلاب آیا تھا جس نے کافی تباہی مچا دی۔ غریب کسانوں کے کھیت‘ مکانات سب سیلاب کی نذر ہو گئے اب یہ حکومتِ وقت کی ذمے داری تھی کہ ان غریبوں کی مدد کرتی اور انہیں پھر سے آباد کرتی مگر ہماری حکومت کو ایک ’’سنہرا موقع‘‘ مل گیا دنیا والوں سے سیلاب کے نام پر امداد طلب کرنے کا۔ گداگر بھی لوگوں سے امداد کا ہی طلب گار ہوتا ہے بس اس کا ایک ہی نعرہ ہے ’’اللہ کے نام پہ بابا! جو دے اُس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا…‘‘

کاش ہمارے حکمرانوں نے کبھی ڈیم بنانے کی بھی فکر کی ہوتی تو شاید ہم سیلاب کی اس خوف ناک مصیبت سے محفوظ رہتے مگر ہمارے سیاسی رہنما آپسی جنگ میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں فرصت ہی نہیں ان کاموں کے لیے یا پھر ان کا اعتقاد اللہ میاں پر بہت مضبوط ہے‘ اُن کا ایمان ہے کہ ’’اللہ جب بھی دیتا ہے چھپر پھاڑ کر دیتا ہے‘‘ چاہے وہ سیلاب کی ہی شکل میں کیوں نہ ہو۔ خاکسار سے ایک تُک بندی سرزد ہوئی ہے ملاحظہ کیجیے:

زلزلہ آئے‘ طوفان آئے یا کہ سیلاب آئے
بس مرے مولا دیس میں ڈالر بے حساب آئے

دوسری طرف خزانہ خالی ہونے کے قریب ہے‘ ملک چلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور اخبار میں ایک رنگین یا شاید سنگین خبر پڑھنے کو ملی کہ حکومت لگژری گاڑیاں درآمد کر رہی ہے۔ پرانی مثل ہے ’’گھر میں نہیں دانے بی بی چلی بھنانے۔‘‘

خزانہ خالی کیسے ہوا دیکھتے ہیں خالد عرفان اپنے قطعہ میں کیا فرما رہے ہیں:
کبھی وطن میں ہمارا بھی آب و دانہ تھا
یہ تب کی بات ہے جب ملک میں خزانہ تھا
تمام ملک لٹیروں نے مل کے لوٹ لیا
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا

بقول حکمرانِ وقت صورتِ حال ایسی سنگین ہے کہ ’’بنتی نہیں ہے بات قرضہ لیے بغیر‘‘ قرض کے لیے آئی ایم ایف کے سنگ ِآستاں پر سجدہ ریزی کرتے ہیں اور اس کی کڑی سے کڑی شرط بھی ماننے کے لیے تیار ہیں۔ ایک بار پھر خالد عرفان یاد آگئے۔

امداد کے پیکیج میں شرائط کا پلندہ
گورے سے ملا ہے کبھی کالے سے ملا ہے
کشکول میں سوراخ ہے سوراخ میں پائپ
پائپ کا سرا گھر کی تجوری سے ملا ہے

ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے جتنی تگ و دو کرتے ہیں اگر اس سے بہت کم تگ و دو اللہ میاں کو راضی کرنے میں کر لیتے تو ذلت و رسوائی سے بھی بچ جاتے اور عوام بھی سکون اور چین کی نیند سوتے… اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:

خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبر!
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد

مگر اللہ میاں کو راضی کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرلے پھر اللہ سے مانگے تو اللہ ضرور سنے گا ورنہ دُعا کی عرضی ڈسٹ بن کی نذر ہو جاتی ہے۔ قرض لینے کے بعد سود سمیت اس کی ادائی ایک جان لیوا عمل ہے جو عوام کو جھیلنی پڑتی ہے۔ پیٹرول پھر مہنگا ہو گیا یعنی ’’پھر وہی پاؤں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے‘‘ بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ… عوام کا خون اس طرح سے چوساجا رہا ہے کہ اگر ڈریکولا بھی اس وقت ہوتا تو اسے بھی صدمہ ہوتا۔ فنا نظامی بڑے موقع سے یاد آئے:

اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں
اے فناؔ رہزن کو بھی صدمہ ہوا

ہمارے جن قارئین نے پریم چند کا افسانہ ‘‘سوا سیر گیہوں’’ پڑھا ہے انہیں معلوم ہو گا کہ قرض اور اس کا سود کتنے دنوں میں اور کس طرح ادا ہوتا ہے بس وہ یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ انجام کیا ہونے والا ہے۔ انجام وہی ہو گا جو چچا غالب فرما گئے:

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

آئی ایم ایف سے جب کبھی امداد ملنے کا صرف اعلان ہوتا ہے یہ آفتِ جاں تمام اخبارات کی سرخی بن جاتی ہے خاص طور پر ہمارے حکمرانی ٹولے کے چہروں پر خوشیاں رقص کرنے لگتی ہیں ایسا لگتا ہے پاکستان میں ایک ایسا کنواں دریافت ہو گیا ہے جس میں جب کبھی ڈول ڈالو گے ہر مرتبہ ڈول ڈالر سے بھرا ہوا ہی نکلے گا مگر ڈول وہی شخص ڈال سکتا ہے جو مسند ِ حکمرانی پر فائز ہوگا۔عام آدمی نہیں۔ کاش ہمارے حکمران ِذی شان اقبال کے اس شعر کا مفہوم سمجھ لیتے:

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

علامہ کے اس شعر کے بعد مزید کچھ لکھنے کی گنجائش قطعی نہیں ہے۔ بس اللہ تعالیٰ اس ملکِ خداداد پر اپنا رحم فرمائے۔

حصہ