حلف

420

رات کا نصف سے ذرا اوپر کا پہر… سحری میں مرغ نے بانگ بھی دے دی تھی۔ آدھے سے زیادہ شہر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ کہیں کہیں جھینگروں کی آواز رات کے سکوت کو توڑنے کی کوشش کرتی۔

مجید حسین کے صحن سے کسی کی دبی دبی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ رات کے اس پہر خدیجہ زوجہ مجید حسین دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھی، اس کے آگے جو مہربان تھا اس کا، جو اس کے درد کو سمجھ سکتا تھا تو کیوں نا اُس سے فریاد کرتی۔ ’’رب سوہنا اس جھلی کی مراد پوری کردے نا۔ بچپن سے لے کر آج تک اس حدیث پہ عمل کیا ہے کہ جوتے کا تسمہ بھی مانگنا ہے تو بس تجھ سے مانگنا ہے اور میں نے ایسا ہی تو کیا، اور تُو نے دیا بھی جو مانگا تجھ سے۔ پھر اب کیوں مجھ سے روٹھ گیا ہے، کیوں نہیں سنتا اس فقیرنی کی…؟ اک تو ہی تو دے سکتا ہے، کسی اور کی کیا اوقات؟

تُو دے دے گا نا، تیرے خزانے میں کوئی کمی نہ آئے گی میرے رب…! آج میرے مانگے کی لاج رکھ لے… بھر دے میری جھولی… تُو ہی تو ہے جس نے بڑھاپے میں بھی اپنے نبی کو وارث دیا تھا، مجھے بھی دے دے… میں فریاد کرتی ہوں، مجھ کمزور پہ رحم کر۔‘‘

اس کا سجدے میں پڑا وجود مسلسل ہل رہا تھا، سسکیاں بلند ہورہی تھیں۔ ’’اللہ اکبر…اللہ اکبر…’‘‘ مؤذن نے اذان دی اورایسا لگا کہ جھولی بھر دی گئی… فقیرنی کی صدا سن لی گئی۔

مجید حسین کی آنکھ کھلی تو اسے ڈھونڈتے ہوئے صحن میں آنکلے۔ اس کا وجود اب نہیں ہل رہا تھا۔ وہ سجدے میں ہی گری ہوئی تھی۔

مجید حسین نے اسے ہلایا تو وہ ایک طرف کو لڑھک گئی۔ اُن کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ فوراً ایمبولینس بلائی اور اسپتال لے گئے۔

ڈاکٹر صاحبہ جو کہہ رہی تھیں انھیں اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا… شادی کے پندرہ سال بعد اولاد کی خوش خبری…! وہ اسپتال کے کوریڈور کے ننگے فرش پہ ہی سجدے میں گر گئے۔ کیسا احسان ہے نا ہم مسلمانوں پہ کہ جہاں بھی رب کے آگے سجدہ کرنے کو دل چاہے، اللہ کی زمین پاک ہے اور رب سوہنا شہ رگ سے بھی قریب، سو جھک جاتے ہیں اس کے آگے…کہیں مخصوص جگہ کی شرط ہی نہیں۔

خدیجہ کا بس نہ چلتا تھا کہ مہینے پَر لگا کے اُڑ جائیں اور ننھا منا سا وجود اس کی گود میں آجائے۔ مجید حسین اسے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھے ہوئے تھے، صبح شام اس کی خدمت میں مصروف۔ آخر اتنی بڑی خوشی دینے جا رہی تھی۔

اور پھر وہ دن بھی آگیا جب خدیجہ نے ننھے حذیفہ کو جنم دیا۔ گول مٹول، سرخ و سپید، پکا کشمیری۔ مجید حسین نے اس کے کان میں اذان دی اور ساتھ ہی سرگوشی میں یہ حلف بھی لے لیا کہ تم مجاہد ہو، تم نے اس سرزمین پہ آنکھ کھولی ہے جسے انتظار ہے اُس مسیحا کا جو غلامی کی ان زنجیروں سے اسے آزاد کروائے، جو بھارتی فوجیوں کو اُن کے گندے بوٹوں سمیت اٹھا کر اس سرزمین سے باہر پھینک دے۔

خدیجہ دل و جان سے اپنے شہزادے کی پرورش میں مگن ہوگئی۔ دن، ماہ و سال گزرتے گئے اور حذیفہ مجید حسین جموں وکشمیر کا کڑیل جوان نکلا…آزادی کا متوالا۔ ایسا سجیلا کہ ہندو لڑکیاں بھی چھپ چھپ کر دیکھتیں۔ مگر وہ بلند افکار رکھنے والا منزل کی دھن میں مگن کبھی نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ ماں دن رات نظر اتارتی، اس کی عمر کی گنتی بھی نہ کرتی۔ لوگ لڑکیوں کی نہیں گنتے کہ جوان بچیوں کی عمریں لڑاکا طیاروں کی سی تیزی سے بڑھتی ہیں، مگر وہ جوان بیٹے کو نظر بھر نہ دیکھتی کہ کہیں اپنی ہی نظر نہ لگ جائے… اور مجید حسین اسے جب دیکھتے اُن کا سر فخر سے بلند ہو جاتا، جانے کیوں؟ مگر ماں کا دل کانپ سا جاتا۔

آج پھر بھارتی درندے بھوکے کتوں کی طرح سری نگر کی گلیوں میں دندناتے پھر رہے تھے۔ حذیفہ کل سے گھر نہ آیا تھا، کچھ عرصے سے اس کا معمول ایسا ہی تھا۔ مجید حسین سب سمجھ رہے تھے، انہوں نے حذیفہ کے کان میں وقتِ پیدائش جو بات ڈالی تھی، جو عہد اُس سے لیا تھا، اُسے پورا کرنے کا وقت آچکا تھا… اور خدیجہ… کوئی ماں کے دل سے پوچھے، اس کی حالت اُس چڑیا جیسی ہوتی ہے جو طوفان کی آمد پہ سہم کر بس خوف سے لرزتی رہتی ہے۔

خدیجہ اب حذیفہ کے سر پہ سہرا سجانا چاہتی تھی اور سارہ کو جو اس کی بھانجی تھی، دل سے اپنی بہو مان بھی چکی تھی، کیوں کہ سارہ کی آنکھوں میں حذیفہ کا رنگ جو دیکھ چکی تھی۔ مگر حذیفہ؟ اُس کا عشق… اُس کا جنون… اُس کی منزل وہی تھی جو اس وادی کے آزادی کی تحریک سے جڑے ہر مجاہد کی تھی۔ اس نے سارہ کو بھی سمجھایا تھا کہ ماں اور تم جو سوچ رہی ہو شاید ممکن نہ ہوسکے، میں ایسی منزل کا مسافر ہوں جو نہ جانے کب ملے… تم تھک جاؤ گی۔ مگر سارہ اپنی زندگی اس کے نام کرچکی تھی۔

وادی میں پھر ایک لعل خون میں نہلایا گیا… پھر ایک شہید کا جنازہ کاندھے پہ اٹھائے احتجاج کیا جا رہا تھا۔ کوئی تو آئے جو ان کے رستے زخموں پہ مرہم رکھ سکے۔ ان کی آہیں، فریادیں… کچھ بھی انسانی حقوق کی ان عَلم بردار تنظیموں پہ اثر نہیں کرتا تھا… ماؤں کے لعل چھین لیے جاتے، بہنوں کی عصمتیں لوٹ لی جاتیں، بیویوں کے سہاگ لٹ جاتے، اور تو اور معصوم بچوں تک کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا، مگر انصاف کے ٹھیکے داروں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔

ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے، مگر کون جانے کہ اس ایک دن کی کتنی بھاری قیمت کشمیری بہن بھائی ادا کرتے ہیں… وہ ہمارے ساتھ ہیں اور بھارت اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔

دروازے کو بری طرح پیٹا جا رہا تھا اور بھارتی درندے دھاڑ رہے تھے… ’’باہر نکالو اس اُگروادی کو… سالا آج نہیں بچ سکتا… نکالو باہر…‘‘اگلی ٹھوکر پہ دروازے کی کنڈی ٹوٹ چکی تھی۔ مجید حسین کو لاتوں گھونسوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ سارے گھر کی تلاشی لی گئی، کچھ نہ ملا تو بوڑھی خدیجہ کے سر سے دوپٹہ نوچ کر پھینک دیا اور اس کے چہرے پہ تھوک دیا…
’’اوہ خدا کیا پُرنور چہرہ تھا تیری اس نیک بندی کا…‘‘ مجید حسین نے درد سے کراہتے ہوئے اسے دیکھا۔
رات کا آخری پہر تھا۔ خدیجہ کا وجود سجدے میں گرا خدا سے التجائیں کررہا تھا… ’’میرا چاند… میرے رب… میرا لعل…‘‘ اس سے آگے تو کشمیری ماؤں کو کوئی لفظ ہی نہیں سوجھتا۔
ایک اور شہید کا جنازہ تیار تھا… ماں نے صبر کا پیالہ پی لیا تھا کہ مانگا تھا تو اسی لیے… باپ نے جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دیا تو بڑی شان سے کہ ’’راہِ خدا کا تھا مجاہد۔‘‘
اس کا جنازہ بھی دھوم سے نکلا کہ وادی کا ایک ایک ذرہ نوحہ خواں تھا… وہ تو سب کی آنکھ کا تارا تھا… پکا کشمیری… سجیلا جوان… کسی معصوم کی آنکھوں کا خواب… جو انتظار میں تھی۔ مگر یہ انتظار کبھی ختم نہیں ہونا تھا… سجدے میں گرا خدیجہ کا وجود بے جان ہوچکا تھا۔

حصہ