سردیوں کے مزے

229

ہمارے شہر کا موسم بھی بڑا عجیب ہوتا جارہا ہے۔سڑکوں پر اڑتی خاک اپنی جگہ اب تو موسموں کے مزاج بھی نہیں ملتے میرا مطلب ہے کہ موسم سرما کی آمد ہی کو لیجیے،اگر سردی کا مزا لینا ہو تو پہلے کمرے میں تیز پنکھا چلا کر کمبل اور بستر کو اچھی طرح ٹھنڈا کریں،جب کمرے کا ماحول سرد ہو جائے تو کمبل لے کر سونے سے آپ کو موسم سرما کا مزا مل سکتا ہے،ورنہ سردی کسے کہتے ہیں،یہاں کے رہنے والے کیا جانیں؟ہم نے تو جب سے سردیوں کو دیکھا ایسے ہی دیکھا۔۔۔ ہاں البتہ یہ سنا ضرور ہے کہ ایک زمانہ تھا جب اہلِ کراچی ٹھنڈی ٹھنڈی راتوں اور چمکتے دمکتے سورج سے روشن دنوں میں گرم شال اور سوئیٹزر پہنا کرتے اورچائے،کافی،انڈوں اور خشک میوں کی سوغات سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے،لیکن اب یہ باتیں کتابی سی لگتی ہیں۔اب تو وہ وقت آ گیا ہے کہ سردیوں کا لطف لینے کے لیے بھی موسم گرما کی طرح دوسرے علاقوں میں جانا پڑےگا۔یہاں کے رہنے والوں پر لازم ہے کہ اگر برف باری کا مزا لینا ہو تو شمالی علاقہ جات کا رُخ کریں۔اور اگر موسم سرما انجوائے کرنا ہو تو میدانی علاقوں کی طرف کوچ کرنا پڑتا ہے،موسم کی اس بدلتی صورتِ حال پر سوچا جائے تو ہر وہ شخص جو موسمی تغیّرات سے شدبد رکھتا ہے،جان لے گا کہ یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہوا۔میرا مطلب ہے کہ موسم کے دورانیے میں تبدیلی کوئی ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق گلوبل وارمنگ ہے،جو گرین ہاؤس گیسوں کا توازن بگڑنے سے وجود میں آئی۔قدرت نے ہمیں اچھا اور متوازن ماحول دیا تھا،مگر انسان نے اسے خود تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔صنعتی انقلاب کے نام پر کارخانے،فیکٹریاں لگائی جاتی رہیں،جن کی چمنیوں سے اگلتی آگ نے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ کردیا۔اس کے علاوہ بھی دیگر انسانی سرگرمیوں مثلاً جنگلات کی بے دریغ کٹائی،کوئلے، تیل،گیس اور دیگر ایندھن کا جلایا جانا،بڑی بڑی سڑکوں کی تعمیر،ٹرانسپورٹ کا انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ اور شہروں کی آبادیوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کا سبب ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساحلی علاقوں کے درجۂ حرارت میں نمایاں تبدیلی ہوتی جارہی ہے۔ماہرین کے مطابق زمین کا اوسط درجۂ حرارت صنعتی انقلاب کے بعد15 سے 16 سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے اور مزید بڑھ سکتا ہے،جس کے نتیجے میں کرۂ ارض پر وسیع پیمانے پر بتدریج موسمیاتی تبدیلیاں مشاہدے میں آرہی ہیں۔ان تبدیلیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے،خاص طور پر یہ تبدیلی کراچی میں زیادہ محسوس ہورہی ہے۔لیکن ملک کے دوسرے حصوں میں،جہاں صنعتی ترقی کی شرح کم ہے،موسم گرما اور سرما کے مزے لیے جا سکتے ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ موسم کی تبدیلی صرف سردیوں تک محدود نہیں بلکہ اس تبدیلی کا اثر موسم گرما پر زیادہ ہوا ہے۔جب دنیا میں درجۂ حرارت میں اضافہ ہوگا تو لازماً اس تبدیلی کو ہر موسم میں محسوس کیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ یہ تبدیلیاں خاص طور پر ہمارے شہر میں زیادہ محسوس کی جارہی ہیں۔موسم کس حد تک بدل رہا ہے،اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ہجرت کرکے لاکھوں پرندے پاکستان میں آیا کرتے تھے۔لیکن اب خاص طور پرسائبیریا اور دیگر علاقوں سے آنے والے ان پرندوں کی آمد و رفت میں واضح کمی آچکی ہے۔ماضی کے مقابلے میں اب ان مہمان پرندوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے،جب کہ فصلوں کی بوائی اور کٹائی میں بھی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔دوسری طرف،گرمی کی شدت کی وجہ سے گلیشیر پگھلتے جا رہے ہیں اور دریاؤں میں پانی کا بہاؤ تیز اور سمندروں کی سطح بلند ہورہی ہے،جس سے ساحلی علاقوں میں موسمی خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ بہرحال،یہ بالکل واضح ہے کہ زمین پر موسم گرما اور موسم سرما کے دورانیے میں نمایاں فرق پڑا ہے،یعنی ان دونوں موسموں کے درمیان درجۂ حرارت بڑھنے سے وقفہ کم ہوتا جارہا ہے۔ موسم سرما میں درجۂ حرارت گرمیوں کے مقابلے میں بڑی تیزی کے ساتھ بڑھا ہے اور فرق کم ہونے کی وجہ سے سردیاں جلد رخصت ہوجاتی ہیں۔

کراچی میں بسنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئٹہ سے آنے والی ہوائیں سردی ساتھ لاتی ہیں،یعنی جب کوئٹہ میں سرد ہوائیں چلتی ہیں تو کراچی میں کچھ دنوں کے لیے موسم ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ماہِ دسمبر بھی جارہا ہے لیکن ابھی تک کوئٹہ میں سرد ہوائیں نہیں چلیں ممکن ہے رواں ماہ سردی کی ایک لہر آئے۔تاہم،ایسا ہو بھی گیا تو جس سردی کو نومبر میں آنا تھا،وہ انتہائی کم وقت کے لیے آئے گی۔جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے برسوں میں موسم سرما بہت کم وقت کے لیے آیا کرے گا۔

موسم میں یہ تبدیلی کیوں کر آ رہی ہے اسے سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ذرا سا ذہن لگانے سے معلوم ہو جائے کہ صنعتی آلودگی اور دیگر سرگرمیوں کے باعث پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک تہائی مقدار سمندر میں چلی جاتی ہے اور اس کے پانی میں حل ہونے سے نقصان دہ تیزاب پیدا ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمندر میں شامل ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے سے سمندری پانیوں میں اس قدر کیمیائی تبدیلی رونما ہوگی جس کی مثال گزشتہ کروڑوں برس میں بھی نہیں ملی ہوگی۔اگر یہ تبدیلیاں اسی طرح جاری رہیں تو بنی نوع انسان کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ان فضائی تبدیلیوں کی وجہ سے سرد موسم ساحلی علاقوں سے روٹھ رہے ہیں اور برکھا رُت خواب بنتی جارہی ہے،جو نہ صرف انسانی صحت کو متاثر کررہی ہے بلکہ بتدریج درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی دوسری خطرناک صورتِ حال خشک سالی بھی ہے۔گرمی بڑھنے اور موسم سرما کے گھٹنے کی وجہ سے لوگوں کے رہن سہن کے انداز بھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

دنیا کی اس بدلتی صورت حال میں ملک کو موسموں کے رُوٹھنے سے بچانا ہوگااور ہر آنے والے دن کی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے مثبت اقدامات کرنا ہوں گے۔ملکی سطح تو اس مسئلے پر کام کرنے کی بڑی سخت ضرورت محسوس ہورہی ہے،خاص طور پر کراچی میں،جو ایک ساحلی شہر ہے۔اس شہر کے بہت سے مسائل آخر میں ان ہی عوامل کی طرف جانکلتے ہیں، جو موسموں کی گردش میں بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔حکمرانوں کو اس سلسلے میں فوری اقدامات اُٹھانے ہوں گے اور شہریوں کو بھی اپنی جگہ اس بگڑتی ہوئی صورت حال پر کام کرنا ہوگا۔شہر میں لاکھوں درخت لگانے سے بہت حد تک موسم کے توازن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی دے۔اس حوالے سے حکومت اور عوام دونوں ہی کو اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے احسن اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ مستقبل قریب میں موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں ہونے والے حادثات سے بچا جاسکے۔حکومت اس سلسلے میں واضح حکمت عملی اپنائے اور سب سے پہلے صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے قوانین پر عمل درآمد کروائے۔اسی طرح آبادی میں ہوش ربا اضافے کو روکنے کے لیے مربوط پالیسیاں ترتیب دے۔ایندھن اور دیگر حرارتی امور کے حوالے سے شمسی توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے منصوبے پر کام کرے۔درخت کاٹنے سے بھی گریز کرنا ہوگا اور ان کی حفاظت کو قومی فریضہ سمجھنا ہوگا۔خاص طور پر زرعی زمینوں پر بنائے جانے والے غیر قانونی رہائشی منصوبوں کے خلاف کاروائی کرنی ہو گی اسی طرح فلاحی تنظیموں کو گرین ایریاز بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔سب سے بڑھ کر قدرت کی نعمت پانی کی قدر کرنا ہوگی اور اس کا ضیاع روکنا ہوگا۔اگر ہر فرد اپنی ذمے داری سمجھ کر کام کرے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو سرسبز پاکستان دے سکتے ہیں۔

حصہ