مال کمانے کا وظیفہ

406

آج دفتری کام سے فارغ ہونے پر جلد گھر جانے کا پروگرام بنالیا۔ موسم کو دیکھتے ہوئے یہی بہتر تھا کہ جلد سے جلد گھر پہنچ جاؤں۔ لیکن کبھی اس کے برعکس بھی ہوجاتا ہے، شاید میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یعنی دفتر سے نکلتے ہی مجھے میرے دوست کا فون آگیا،جس نے کسی مسئلے پر مجھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ فون پر اُس کی بات سن کر میرے لیے یہی ضروری تھا کہ پہلے اُس سے مل لوں۔ بس پھر کیا تھا، میں اُس کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا اور ہم دونوں ایک ہی گاڑی میں سوار ہوکر نکل پڑے۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں ایسی جگہ بیٹھ کر سکون سے بات کی جائے جہاں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔ ایک طرف ہمارے یہ ارادے تھے تو دوسری جانب موسم کے تیور بدلتے جارہے تھے، ہلکی ہلکی پھوار پڑنا شروع ہوگئی تھی اور ہماری چائے کی طلب بھی بڑھتی جارہی تھی۔ ہم ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ سڑک کے ساتھ بنے ایک ہوٹل میں رش دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ضرور یہاں کی چائے عمدہ ہوگی۔ لہٰذا میں نے گاڑی سڑک کے دائیں جانب لگادی۔ موسمِ برسات میں گرما گرم چائے پینے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ ہوٹل میں داخل ہوتے ہی بیٹھنے کے لیے ہمیں دو کرسیوں کی تلاش تھی، لیکن یہاں کرسی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہوٹل میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ خیر، بڑی مشکل سے بیٹھنے کے لیے جگہ ملی۔ رش دیکھ کر میں اس ہوٹل کے انتخاب کو درست قرار دیتے ہوئے اپنے دوست کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف ہوگیا۔ وہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ سنا رہا تھا کہ باتوں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہمارے سوا یہاں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں وہ خاموش ہیں اور کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ چہروں پر تفکرات کی لکیریں سجائے یہ غریب نہ جانے کس سوچ میں مبتلا تھے؟ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ہوٹل کا ماحول دیکھ کر میرا اضطراب بڑھ رہا تھا، میں سوچ رہا تھا کہ اتنے لوگوں کے درمیان صرف ہم دونوں ہی گفتگو کررہے ہیں، ہمارے سوا کوئی کسی سے بات کیوں نہیں کرتا؟ اس سے پہلے کہ میں اپنے ذہن پر مزید زور ڈالتا، یک دم بھرا ہوٹل خالی ہونے لگا، لوگ قطاروں کی صورت باہر نکلنے لگے۔ درجنوں افراد کا ایک ساتھ ہوٹل چھوڑ کر چلے جانا میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ حیرت تو اس بات پر تھی کہ تھوڑی دیر پہلے جہاں بیٹھنے کے لیے کرسیاں بھی کم پڑ رہی تھیں، اب وہاں ہُو کا عالم تھا، ہوٹل میں اب گنتی کے چند ہی لوگ رہ گئے تھے۔ ہمارے لیے لائی گئی چائے کا ذائقہ بھی کڑوا کسیلا سا تھا۔ اس قدر بدذائقہ چائے اور لوگوں کا رش! اس دوران میرے دوست کی باتیں تو ایک طرف رہیں، میں کاؤنٹر پر بل ادا کرنے گیا تو وہاں بیٹھے شخص سے ہوٹل پر رش اور تیزی سے خالی ہوتی کرسیوں پر سوال کرنے کے بعد اُس وقت خود سوالیہ نشان بن گیا جب ہوٹل کے مالک نے مجھے بتایا کہ ”بھائی یہ لوگ کھلاڑی ہیں، گیم کھیلتے ہیں۔“
”کھلاڑی ہیں…!“ اس کے بتانے پر میں نے بے ساختہ پوچھا…”کون سا گیم کھیلتے ہیں؟‘‘ پہلے وہ اس بارے میں بتانا نہیں چاہ رہا تھا، مگر میرے پُرزور اصرار پر کہنے لگا: ”یہ سب سٹے کے کھلاڑی ہیں، خبر کے لیے یہاں بیٹھتے ہیں، اب خبر آگئی ہے، چناں چہ اب ان کا یہاں کیا کام۔۔۔! یہ تو گیم لگا کر انتظار کرتے ہیں، خبر آتے ہی دوسرا گیم کھیلنے چلے جاتے ہیں۔“
ہوٹل مالک کا بات کرنے کا انداز بڑا اچھا تھا۔ وہ جب بھی کوئی بات کرتا مجھے ”بھائی“ کہہ کر مخاطب کرتا۔ خیر اس دن میں دوست سے ملاقات کرکے اپنے گھر تو آگیا لیکن راستے میں یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اس گیم سے متعلق مزید معلومات ضرور حاصل کروں گا، جس کے کھلاڑیوں کا دیدار میں کچھ دیر پہلے کرچکا ہوں۔ بس اسی وقت سے میری سٹے کے بارے میں دل چسپی بڑھ گئی تھی، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر اس بستی کے غریب مزدور اس گیم کا حصّہ بننے پر کیوں کر مجبور ہیں اور اس سے وہ کیا حاصل کررہے ہیں؟ مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ جن کے چہروں سے عیاں ہوتی غربت چیخ چیخ کر بدحالی کی داستانیں سنا رہی ہو وہ بھلا کھلاڑی کیسے ہوسکتے ہیں؟ اس لیے میں نے اس گیم یعنی سٹے بازی پر معلومات حاصل کرنے کی ٹھان لی۔
دوسرے دن میں ان کھلاڑیوں کی تلاش میں نکلا اور اپنے مقصد میں کچھ کچھ کامیاب ہونے لگا۔ مجھے قدم قدم پر ان لوگوں سے گھل مل کر بات کرنے کا موقع ملا۔ اِن کھلاڑیوں سے بات چیت کرکے مجھے ایسا لگا جیسے یہ گیم شہر کا ہر دوسرا، تیسرا آدمی کھیل رہا ہے۔ میں جہاں بھی گیا، اس گیم سے منسلک کھلاڑیوں کی خاصی بڑی تعداد دیکھنے کو ملی۔ جوں جوں میں ان سے باتیں پوچھتا، میرے سامنے نئی سے نئی کہانی کھلنے لگتی۔ اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سٹہ کھیلنے والے افراد کی اتنی بڑی تعداد شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو، جتنی صرف کراچی میں مجھے دیکھنے کو ملی۔ انتہائی تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ اس بُرائی میں مبتلا افراد کا تعلق شہر کی اُن مضافاتی بستیوں سے ہے جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے سارا سارا دن محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے، جہاں بچے اچھی تعلیم سے صرف اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ غریب والدین تعلیم کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے، جہاں وقت سے پہلے ہی کم عمری میں بچے معاش کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ایسے غریب علاقے، جہاں گھر کے کئی افراد کمائیں تو گھر کا چولہا جلے، وہاں اس قسم کی کسی بھی برائی کا پھیل جانا لمحۂ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے! میں نے جب اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ سٹے بازی کی ابتدا گھاس منڈی سے ہوئی۔ وہاں سٹہ کھیلنے والوں کی زبان میں اسے ’’پہلی گھڑی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، پھر دوسری گھڑی، تیسری گھڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ اکبر اوپن اور کلوز کا کوڈ بھی چلتا ہے، یعنی کھیلنے والے غریب، تحریر کردہ ترتیب کے مطابق ہر مرتبہ نئے سرے سے رقم لگاتے ہیں جس کی تفصیل بتاتے ہوئے ایک شخص نے کہا:
”ہم تو غریب لوگ ہیں۔10روپے،50 روپے ہر گھڑی میں کھیلتے ہیں، کبھی کبھار لگ بھی جاتا ہے، اور اگر ڈبل لگ جائے تو اچھے پیسے مل جاتے ہیں، خالی 100 روپے کا اوپن لگے تو کم از کم 900 روپے ملتے ہیں۔ ڈبل کا مطلب دو ہندسوں کا عدد ہوتا ہے، جب کہ اوپن ایک ہندسہ ہوتا ہے۔ ہمیں ڈبل پر کم سے کم رقم لگانے پر 800 روپے مل جاتے ہیں۔ زیادہ تر رقم اندر ہوجاتی ہے۔ تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ سٹہ ہمیشہ سٹہ چلانے والوں کا ہی ہوتا ہے، ہم تو کھلاڑی ہیں۔“
میں نے کہا: ”بھائی آپ غریب لوگ گھر والوں کا پیٹ کاٹ کر جتنی رقم اس پر لگاتے ہیں اس پر ندامت نہیں ہوتی؟“
میری باتیں سن کر وہ شخص بولا: ”سٹہ کھیلنے کی عادت ہوگئی ہے، کھیلتے ضرور ہیں چاہے اُدھار ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ لالچ بری بلا ہے، ہم کو اس لت نے لالچی بنادیا ہے، اس لیے اگر کبھی نمبر لگ جائے تو مزید کھیلنے کو دل کرتا ہے، کھلاڑیوں کو باقاعدگی سے کھیلنا ہوتا ہے۔ شام ہوتے ہی پرچی ضرور لکھوانی ہوتی ہے۔ سٹے باز مخصوص زبان میں سٹہ لگاتے ہیں، مثلاً میں آج روٹی کھاؤں گا، اس کا مطلب 8 کا عدد ہوگا، میں نے مچھلی کھا کر پانی پیا ہے سے مراد 5 سے 6 کا عدد ہوگا، یا اگر منڈا کہا جائے تو اس کا مطلب صفر ہوگا۔ یہ گیم تین عدد لکھ کر بھی کھیلا جاتا ہے جسے قینچی کہا جاتا ہے۔ قینچی کھیلنے والے کھلاڑی کم ہوتے ہیں۔ اگر یہ لگ جائے تو رقم تین گنا زیادہ ملتی ہے۔“
میں اس قسم کی بولی سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اسی شام میں ایک اور سٹے باز کے ساتھ ایک دوسرے مقام پر پہنچ گیا، جہاں اسے اپنا نمبر لکھوانا تھا۔ میں نے وہاں بھی اَن گنت لوگوں سے ملاقات کی، جو اس برائی کے شکنجے میں بُری طرح جکڑے ہوئے تھے۔ کسی نے مجھے گندے بابا کی حرکات پر عدد لگانے کی ترکیب بتائی، تو کسی نے اپنے تجربے کی داستان سنائی۔ مست بابا کی کھوج میں گھومتے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ”ہم بابا کی ہر حرکت سے اندازہ کرلیتے ہیں کہ آج کون سا نمبر لگے گا، یعنی اگر بابا غصے میں کہے ”دفع ہوجا“،تو اس کا مطلب 2 کا عدد ہوتا ہے۔ مست بابا کی ہر ادا میں کوئی نہ کوئی نمبر چھپا ہوتا ہے۔“ ایک سٹے باز نے تو اُس وقت میرے اوسان خطا کردیے جب اس نے بتایا کہ سٹہ لگانے کے کئی وظائف بھی ہیں، جن میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے اس نے یہ وظیفہ بتایا لاالہ لا دو ال اللّٰہ دکھا دو یا رسول اللہ میری ڈبل لگا دو، رات سوتے ہوئے یہ وظیفہ 313 مرتبہ پڑھنے سے خواب میں پری کا دیدار ہوگا جو آپ کو کسی تختی پر لکھا نمبر دکھائے گی، اس نمبر کا سٹہ لگانے سے لاکھوں روپے کی رقم ہاتھ لگ جائے گی، یہ عمل کرنے سے ہر بار کامیابی ملے گی۔ اُس کے بتائے ہوئے وظیفے پر میں نے توبہ استغفار اور لاحول پڑھی۔ خیر، میں اب یہ جان چکا تھا کہ سٹے بازوں کے نزدیک ایسے وظائف اور معاشرے میں گھومتے مست لوگوں سے خاصا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ میں جب تک ان کے درمیان موجود رہا ان کی سادگی پر حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ ان کی عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے، کم ہے۔ کبھی میرے ذہن میں خیال آتا کہ یہ یقین کا معاملہ ہے، اگر ان لوگوں کا یقین اس بات پر ہے تو کیا کیا جاسکتا ہے!
میں ان لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے سٹے کی پرچیاں بنانے والوں کی جگہ جا پہنچا، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سٹہ لکھنے والے بڑی تیزی سے غریب لوگوں کو پرچیاں بناکر دے رہے تھے۔ لوگوں کا ایک ہجوم ان کے گرد جمع تھا۔ ہر لکھنے والا شخص جلدی جلدی نمبر لکھتا اور کھلاڑیوں سے رقم لے کر اپنی جیبوں میں ڈالتا جاتا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ جو بھی سٹہ لکھوا دیتا، وہ قریبی ہوٹل میں جا بیٹھتا۔ اس مشق کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وقتِ مقررہ پر دی گئی پرچی ہی قابلِ قبول ہوگی، اسی لیے کام میں تیزی دکھائی جارہی تھی۔ ٹائم ختم ہونے پر اب لوگوں کو اس بات کا انتظار تھا کہ کس کا نمبر لگتا ہے۔ بس اس بات کو لیے یا یوں کہیے کہ جیت کی امید لیے یہ لوگ ہوٹلوں میں بیٹھے تھے۔ اب میری سمجھ میں ساری بات آتی جارہی تھی، میں ان کے عمل پر کچھ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا تھا، اگر کچھ کہہ سکتا تھا تو پولیس اور انتظامیہ کو، جن کی ناک کے نیچے ان کی ملی بھگت سے سٹے کا کاروبار کھلے عام جاری تھا۔ بات صاف تھی کہ بدنامِ زمانہ ادارے پولیس کے بغیر کراچی کی ہر بڑی چھوٹی آبادیوں میں اس کاروبار کا ہونا ممکن نہیں، بقول ایک سٹے باز کے ”ہر روز کروڑوں روپے کا یہ جوا پولیس کی نگرانی میں ہی کھیلا جاتا ہے۔“
میرے نزدیک روزانہ کروڑوں روپے کا یہ کاروبار کسی اسٹاک ایکسچینج سے کم نہیں۔ زیر زمین اس کالے کاروبار پر اتنی بڑی رقم معنی خیز ہے۔ اتنی بڑی رقم کا کھیلا جانے والا سٹہ کراچی کی مارکیٹ میں نوٹوں کی سرکولیشن کو کسی بھی وقت ہائی جیک کرکے عدم استحکام پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ بات سیدھی سی ہے، جب پاکستانی کرنسی اتنی زیادہ تعداد میں ہر آنے والے دن کے ساتھ کسی ایسے کاروبار میں لگ جائے جو ناجائز ہو تو اس کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے رقم کس طرح نکالی جاسکتی ہے؟ کروڑوں روپے کے کرنسی نوٹوں کا مارکیٹ سے غائب ہونا کیا گل کھلائے گا؟
کتنے افسوس کی بات ہے کہ غریبوں کو اس دھندے پر لگانے والوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، بلکہ سٹے جیسے جرائم پر حکومتی خاموشی صاف بتا رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ کھلے عام سٹہ لکھتے ایجنٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اُن کے اوپر رکھا گیا ’’ہاتھ‘‘ ہمارے حکمرانوں اور سیکورٹی اداروں سے زیادہ طاقت ور ہے۔
میری اس تحریر کا واحد مقصد پاکستان کے سوئے ہوئے ان اداروں کو جگانا ہے جو کاغذ کے چند ٹکڑوں کی خاطر معصوم اور غریب عوام کی مدد کے بجائے جرائم پیشہ عناصر کے مددگار بنے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر کراچی پولیس، جس نے شہر کے گلی محلّوں میں اس بُرائی کو پھیلا رکھا ہے۔ التجا ہے کہ خدارا، ہوش کیجیے۔ قوم کو معاشی، معاشرتی اور اخلاقی تباہی سے بچائیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسلیں ہم سے ایسا حساب لیں جس سے بچنا ناممکن ہو۔ اپنی نسلوں کے لیے کچھ ایسے کام کرجائیے، جن سے وطن عزیز کا نام دنیا بھر میں روشن ہو۔

حصہ