سیب کھایئے

523

پھلوں کی دنیا میں ویسے تو ہر قسم کے پھل مفید ہیں لیکن سیب ان سب میں منفرد ہے۔ سیب ایک ایسا پھل ہے جو صحت بخش بھی ہے اور خوش خوراک افراد کا پسندیدہ بھی۔ اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ کم کیلوری والا پھل ہے۔ یہ پھل اپنی صحت مند غذا کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے مثالی ہے۔ یہ نہ صرف کئی وٹامن دیتا ہے بلکہ آپ کے سسٹم کے کام کاج کے لیے معدنیات کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ عمومی طور پر سرخ، سبز اور پیلے رنگ کے ہوتے ہیں جو قدرتی طور پر چربی، نمکیات کے اجزا اور کولیسٹرول کی آمیزش سے مبرا ہوتے ہیں۔ ایک درمیانے سیب میں تقریباً 80 کیلوریز، 1/4 ملی گرام آئرن، 10 ملی گرام کیلشیم، 21 گرام کاربو ہائیڈریٹ اور وٹامن اے اور سی ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صحت مند رہنے کے لیے مردوں کو اوسطاً 2500 کیلوریز روزانہ جبکہ خواتین کو 2000 کیلوریز روزانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سیب دل کی صحت کو اسی طرح تقویت پہنچاتا ہے جس طرح اسٹیٹن گروپ سے تعلق رکھنے والی کولیسٹرول کم کرنے والی عام ادویات (ان ادویات میں لپی ٹور اور کرسٹور شامل ہیں)۔ صرف فرق اتنا ہے کہ دواؤں کے مضر اثرات ہوتے ہیں جبکہ پھلوں میں مضر اثرات نہیں ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شخص کی روزانہ کی خوراک میں پانچ حصہ پھل اور سبزیوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری خوراک میں ذرا سی تبدیلی کتنی مؤثر ہوسکتی ہے اور زندگی خوب صورت بھی ہوسکتی ہے۔
سیب غذائیت سے بھرپور پھل ہے۔ سوزش اور کولیسٹرول کی تعمیر کے لیے اینٹی آکسیڈنٹ، سلوبر فائبر اور سیب طاقتور تریاق ہیں ۔ سوزش اور ہائی کولیسٹرول دونوں دل کے امراض میں اضافہ کرتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں صحت میں اضافے کے لیے کام کرنے والے شعبے برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر ایڈم برگز اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ دس میں سے نو افراد روزانہ مجوزہ مقدار میں سے ایک حصہ ہی پھل اور سبزی کھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ان کے تخمینوں کے مطابق اگر تمام عمر کے بالغ افراد پھل اور سبزی کے ایک حصے کا اپنی روزانہ کی خوراک میں اضافہ کرلیں تو ہر سال دل کے امراض سے مرنے والوں کی تعداد میں تقریباً 11 ہزار کی کمی ہو جائے گی۔ محققین کا کہنا ہے کہ وکٹورین کہاوت ’’روزانہ ایک سیب سے، رہے ڈاکٹر دور‘‘ 50 سال کی عمر کے افراد پر زیادہ صادق آتی ہے جنہیں دل کے امراض کا زیادہ خطرہ ہے۔
دراصل صحت مند رہنے کے لیے صرف ایک سیب کافی نہیں، لیکن تندرست رہنے کے لیے یہ ایک اچھی عادت ضرور ہے۔ سیب ایک ہی وقت میں دونوں قسم کے تحلیل ہونے والے اور حل نہ ہونے والے فائبر حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ تحلیل ہونے والے فائبر خون میں کولیسٹرول کی مقدار کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، جس سے دل کی بیماریوں کی روک تھام ممکن ہے۔ سیب میں موجود حل نہ ہونے والے فائبر تیزی سے خوراک کو ہضم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ تقریباً نصف سے زیادہ وٹامن ’سی‘ سیب کے چھلکے کے گرد ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ سیب کو چھلکے کے ساتھ کھایا جائے۔ غذائی ریشے ہموار عملِ انہضام کے لیے ضروری ہے۔ سیب قبض اور اسہال کے لیے ایک علاج کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی تحقیقی مطالعوں سے پتا چلتا ہے کہ سیب بہترین انتخاب ہے اُن لوگوں کے لیے جو قدرتی توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مشروبات اور کیفین پینا بھول جائیں۔ اگر آپ ورزش کرنا شروع کر رہے ہیں تو سیب آپ کو طویل مدت کے لیے اس کی تیاری میں مدد کرتا ہے۔ سیب کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ ہر فن مولا پھل ہے تو غلط نہیں ہوگا، لیکن کھانے میں اس بات کا خیال رہے کہ تازہ کھایا جائے- ذائقے کے لیے سیب سلاد میں بھی شامل کرسکتے ہیں۔ دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے سیب کی چٹنی استعمال کی جاسکتی ہے۔ منہ میں میٹھے پانی کے ذائقے کے لیے سیب کے ٹکڑے یا اس کو پیس کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سیب اپنی قدرتی صلاحیت کی بنا پر پاور ہاؤس کہلانے کا حق رکھتا ہے۔
سیب کا درخت چار سے پانچ سال میں پھل دار بنتا ہے اور بنیادی طور پر یہ گلاب کے پودے سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا میں سیب کی تقریباً 7500 اقسام ہیں، جبکہ امریکا میں 2500 اقسام اگائی جاتی ہیں۔ امریکا کی تقریبا تمام ریاستوں میں سیب کے باغات ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سیب فرانس، چلی، بیلجیم، چین، ترکی، امریکا اور ہالینڈ میں پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان دنیا کے کچھ ملکوں سے سیب درآمد بھی کرتا ہے جن میں نیوزی لینڈ، ایران، افغانستان اورچین شامل ہیں۔ پاکستان کے کچھ بڑے اسٹورز پر امریکی اور یورپی سیب بھی دستیاب ہوتے ہیں کیوں کہ سیب خالص ٹھنڈے علاقے کا پھل ہے، اس کی کثیر اقسام 1350 میٹر سے 2250 میٹر کی بلندی تک کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہیں- ایسا علاقہ جہاں موسم سرما میں شدید سردی، موسم گرما میں کم گرمی مگر وافر مقدار میں سورج کی روشنی میسر ہو اور درجہ حرارت میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ نہ ہو، موسم بہار کہر سے پاک ہو، موسم بہار (وسط دسمبر سے وسط مارچ) سے قبل خوابیدگی توڑنے اور پھول لانے کے لیے اس پودے کو 7 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت کے 1000 سے 1500گھنٹے (Chilling hours ) درکار ہوتے ہیں۔ کم بلندی پر سردی کا مطلوبہ دورانیہ ممکن نہ ہونے کی وجہ سے پھول نہیں آتے لہٰذا پھل بھی نہیں بنتا۔ اَنا اور این شیمر سیب کی ایسی اقسام ہیں جن کو کم بلندی پر کاشت کیا جاتاہے،جن کو لو چلنگ ورائٹی (Low chilling varieties ) کہا جاتا ہے۔ سیب کو مجموعی طور پر100 سے 125 سم سالانہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر بارشوں کا سلسلہ اگر پھول آنے، بار آوری کے دوران اور پھل پک جانے کے بعد جاری رہے تو پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بار آوری کے دوران تیز ہوائیں، ابر آلود موسم، سردی کی اچانک لہر اور لمبے عرصے تک خشک سالی پھل کی پیداوار کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ پیداوار میں کمی کا ایک اور اہم عنصر ژالہ باری بھی ہے جس سے نہ صرف پھول اور پھل بلکہ پودوں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ سوات سیب کے لیے پہلے ہی مشہور ہے اور ہم نے حال ہی میں سوات کے سفر کے دوران راستے سے تازہ اور لذیذ سیب درختوں سے توڑ کر بھی کھائے، لیکن سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے محض 38 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع گائوں گوالیری، سوات کے چند گنے چنے دیہات میں سے ایک ہے جو موسم گرما میں اپنے معتدل موسم کی بدولت اٹھارہ اقسام کے سیب پیدا کرتا ہے۔ یہاں کا سیب ذائقے میں نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی یکساں مقبول ہے اور ہر جگہ یہ سوات کے سیب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سیب ایک بار کھائیں تو آپ کو بار بار کھانے کی خواہش ہوگی۔ بلوچستان کا موسم بھی متعدد اقسام کے پھلوں کی پیداوار کے لحاظ سے انتہائی مفید ہے اور دیگر پھلوں کے علاوہ سیب کی مجموعی پیداوار کا 34 فیصد پیدا کرتا ہے۔
سیب کی عالمی تجارت کا حجم بھی ساڑھے 6 ملین ٹن سے تجاوز کر گیا ہے، لہٰذا اگر حکومت سیب کے باغبانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی سمیت سیب کے برآمد کنندگان کو جدید سہولیات فراہم کرے اور نئی منڈیاں تلاش کرے تو ملکی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ دنیا بھر میں پاکستانی سیب کو عالمی منڈیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ کاروبار سے منسلک ماہرین کا خیال ہے کہ معمولی کوشش سے سیب کی پیداوار میں 2 ٹن فی ایکڑ کا بآآسانی اضافہ کر کے 30 ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کے ساتھ ایک آدمی کو صحت مند رہنے کے لیے سستا پھل بھی حکومت اگر چاہے تو فراہم کرسکتی ہے۔

حصہ