یہ جگہ میری ہے

285

کسی شخص کی ذاتی زندگی میں دخل دینا اچھی بات نہیں۔ ہر کسی کو اپنی زندگی جینے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ میرا تعلق چونکہ لکھنے لکھانے سے ہے، اس لیے میں کسی نہ کسی خبر کی تلاش میں لگا رہتا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُس روز میں حنیف کے کام کی کھوج لگانے اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ میں سائے کی طرح اُس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ تقریباً دو سے تین کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد حنیف ایک ایسی جگہ داخل ہوا جہاں ہر طرف کچرے کے ڈھیر اور ٹوٹی ہوئی دیواروں کا ملبہ تھا۔ وہ جگہ کسی بھی صورت آثارِ قدیمہ سے کم نہ تھی۔ حنیف کچرے کے ڈھیروں اور تعمیراتی ملبے کو پھلانگتا ہوا ایک چارپائی پر جا بیٹھا۔ چاروں طرف سناٹا، اس پر اڑتی دھول کے درمیان بیٹھا حنیف آخر کیا کررہا ہے؟ بس اسی سوال کا جواب لینے کے لیے میں اس کے قریب جا پہنچا۔ مجھے وہاں دیکھتے ہی اس کے اوسان خطا ہوگئے، میرے چہرے پر گڑی نظریں اس کے دل کی کیفیت بیان کررہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، میں نے اس کے ذہن میں ابھرتے خیالات کا رخ موڑتے ہوئے کہا:
’’یہاں سے گزر رہا تھا، تمہیں اس طرف جاتے دیکھ کر پریشان ہوگیا، سوچا کوئی مسئلہ تو نہیں، اسی لیے یہاں چلا آیا، ویسے خیریت تو ہے؟ یہاں کیوں آئے ہو، کوئی پریشانی وغیرہ تو نہیں، سب ٹھیک ہے ناں؟‘‘
’’نہیں نہیں کوئی مسئلہ نہیں، میں تو ہر روز یہاں آتا ہوں، دراصل یہ جگہ میری ہے۔‘‘
’’یہ تمہاری جگہ ہے، کیا مطلب؟یہاں تو ایک مشہور شادی ہال ہوا کرتا تھا جسے غیر قانونی تعمیر کی وجہ سے گرا دیا گیا ہے، یہ جگہ تو سرکاری ملکیت ہے، تم کس بنیاد پر کہہ رہے ہو کہ تمہاری ہے؟‘‘
’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، کبھی یہاں شادی ہال ہوا کرتا تھا جسے ناجائز تعمیرات کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کے دوران مسمار کردیا گیا۔ جس دن شادی ہال مسمار کیا گیا، بس اُسی دن سے یہ جگہ میری ہوچکی ہے، اس لیے زمین کا پہرہ دینے آنا پڑتا ہے۔‘‘
’’تمہاری باتیں سن کر میں نہ صرف حیران ہورہا ہوں بلکہ تمہاری عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، کیوں کہ سامنے لگے بورڈ پر لکھی تحریر تو کچھ اور بتارہی ہے، اس میں صاف طور پر متنبہ کیاگیا ہے کہ یہ زمین صرف اور صرف سرکار کی ملکیت ہے۔‘‘
’’ایسی تحریروں کو کون مانتا ہے، اور کون سنتا ہے ایسے احکامات؟ جو اُن کا کام تھا انہوں نے کیا، جو ہمارا کام ہے ہم کررہے ہیں۔ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا، وقت بدلنے کا انتظار ہے، سب کچھ پہلے جیسا ہی ہوجائے گا۔ اس طرح تعمیرات مسمار کرنے سے کیا حاصل ہوگا! پورے شہر میں گرائے گئے شادی ہالوں کی زمینوں، خالی کرائے گئے کھیل کے میدانوں اور رفاہی پلاٹوں پر آج بھی ہم جیسوں کا ہی قبضہ ہے، یہ آج بھی ہمارے کسی بھائی کی ہی ملکیت ہیں۔ اور ویسے بھی ان جگہوں پر دوبارہ تعمیرات کے لیے کون سے ہل بیل جوتنے پڑتے ہیں! یہ تو فقط ایک سے دو دن کا کام ہے، عدالتی حکم نامے کی تعمیل کروانی تھی سو وہ ہوچکی۔ جہاں تک اس پر مکمل عمل درآمد کا تعلق ہے تواس کے لیے اتنا ہی کہوں گا کہ ہر جگہ ’’ضرورت مند‘‘ لوگ ہوتے ہیں، جن کی خواہش ہوتی ہے کہ غیر قانونی کام ہوتے رہیں۔ ایسے کاموں سے ہی ان کے گھروں کا دال دلیا چلتا ہے۔ بس ان کی ضروریات پوری کرتے رہو اور فائدہ اٹھاتے رہو۔ پیسے میں بڑی طاقت ہوتی ہے، سارے کام سیدھے کروا دیتا ہے، اور پھر میں نے کیا غلط کیا ہے! سرکاری زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ تو بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل جاری ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں ایسی تعمیرات کے خلاف کارروائی کرنا تو دور کی بات، ان کی جانب دیکھا تک نہیں گیا۔ میں بھی اوپر والوں کے اشارے کا منتظر ہوں، جس دن اجازت ملی یہ جگہ فروخت کردوں گا۔‘‘
’’حنیف! یہ ظلم ہے، جو نہ صرف تم اپنے ساتھ کررہے ہو بلکہ آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی کررہے ہو۔ تم جیسے لوگوں نے ہی شہر کا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے۔ کل تک اس شہر کی وجۂ شہرت خوبصورت پارک، کشادہ سڑکیں اور روشنیاں تھیں، تم جیسوں کی وجہ سے آج یہ کچرے کے ڈھیروں اور بدنام زمانہ چائنا کٹنگ کے تحت بنائی جانے والی بستیوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ خدا کا خوف کرو، اس سے پہلے بھی تم محلے کا ایک رفاہی پلاٹ فروخت کرچکے ہو، اس اقدام کے نتیجے میں تم نے تو ناجائز طور پر پیسے بنالیے لیکن تمہیں کیا خبر کہ اس رفاہی پلاٹ پر تعمیر ہونے والے مکانات کی وجہ سے کتنے مسائل نے جنم لیا ہے۔ نکاسی آب ہو یا پینے کا صاف پانی، بجلی کی ترسیل کا نظام ہو یا سوئی سدرن گیس کی سپلائی… سب پر اضافی بوجھ پڑا ہے۔ ظاہر ہے ناجائز طور پر تعمیر کیے جانے والے مکانات کو دیے جانے والے پانی، بجلی اور گیس کے کنکشنوں کے باعث ترسیلی نظام میں خرابی یقینی ہے۔ دیکھو سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا قومی جرم ہے، لہٰذا اس دھندے سے دور رہو۔‘‘
’’تم اپنا فلسفہ اور نصیحتیں اپنے پاس رکھو، میں اپنے کام سے اچھی طرح واقف ہوں، یہاں کے جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، سیاست دانوں سمیت اعلیٰ منصب پر فائز افسر شاہی نے سارا ملک بیچ کھایا ہے، ملک کی ہزاروں ایکڑ اراضی طاقت وروں کے قبضے میں ہے۔ وہاں قانون حرکت میں نہیں آتا۔ ان کے سامنے تو حکومتی ادارے بے بس اور لاچار ہیں۔ ان کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہوتی؟ کیا سارا زور ہم پر ہی چلتا ہے؟ جہاں ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضہ کرنے والے دندناتے پھر رہے ہوں وہاں ہم جیسے لوگ اگر دو چار مرلے کا سرکاری پلاٹ فروخت کردیں تو کون پوچھتا ہے!‘‘
………
کراچی میں زمینوں پر قبضے کی تاریخ نئی نہیں۔ کبھی کچی آبادیوں کے نام پر، تو کبھی تھلوں اور بھینسوں کے باڑوں کی صورت، ہمیشہ یہاں لینڈ مافیا سرگرم رہا ہے۔ لیکن ماضی میں جب جب کراچی کے میدانوں، محلوں اور سروس روڈ کے کنارے دودھ فروشوں اور بلاک بنانے والوں کی جانب سے قبضے کیے گئے اُس وقت کی حکومتوں نے ان قبضہ گروپوں کو بھینس کالونی لانڈھی اور بلال کالونی کورنگی میں متبادل جگہ دے کرنہ صرف سرکاری زمینوں سے قبضے ختم کروائے، بلکہ واگزار کی گئی سرکاری زمینوں پر کھیلوں کے میدان اور پارک بناکر انہیں محفوظ بھی کیا، لیکن رفتہ رفتہ حالات بدلے، اور سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت بڑھنے لگی، سیاسی رشوت کے طور پر اداروں میں نااہل اور کرپٹ افراد تعینات کیے جانے لگے۔ یوں محکمے ریاست سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے وفادار بن گئے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ماضیِ قریب میں یہ سارا کام نہ صرف سرکاری سرپرستی میں کیا جاتا رہا بلکہ قبضہ کی گئی زمینوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قوانین بھی بنائے جاتے رہے، جس کے نتیجے میں اس مافیا کے حوصلے بلند ہوئے، اور تھوڑے ہی عرصے کی خاموشی کے بعد یہ مافیا دوبارہ سرگرم دکھائی دینے لگا ہے۔ اِس مرتبہ قبضہ مافیا کی جانب سے شروع کی جانے والی کارروائیاں رفاہی پلاٹوں اور کھیل کے میدانوں تک محدود نہیں، بلکہ شہر کی مصروف ترین شاہراہوں کے ساتھ بنائی جانے والی گرین بیلٹ تک آن پہنچی ہیں جو نیا پاکستان بنانے والوں کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔ آپ کراچی کی مختلف شاہراہوں کا سروے کر کے دیکھ لیجیے، قبضہ مافیا کی جانب سے سرکاری زمینوں پر کی جانے والی تعمیرات دور سے ہی دکھائی دیں گی، مثلا ًکورنگی نمبر چار گورنمنٹ گرلز کالج کے ساتھ بنائی جانے والی عمارت کراچی میں ایک مرتبہ پھر لینڈ مافیا کے سرگرم ہونے کی گواہی دے گی، اسی طرح قیوم آباد چورنگی سے ڈیفنس کی جانب جاتی ہوئی سڑک کے کنارے تیزی سے تعمیر ہوتی کئی منزلہ عمارت ناجائز تعمیرات کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لینڈ مافیا تازہ دم ہو کر ایک مرتبہ پھر کراچی کے میدانوں اور رفاہی پلاٹوں پر اپنے پنجے گاڑنے میں مصروف ہے۔ شہر کراچی میں ایک مرتبہ پھر جس طرح لینڈ مافیا سرگرم ہوا ہے حالات بتا رہے ہیں کہ یہ سلسلہ مزید آگے ہی بڑھے گا، اور یہ گروہ پھر سے قوت پکڑ لیں گے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کراچی میں قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لینڈ مافیا کی جانب سے سرکاری زمینوں پر قبضے کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پرکیا جانے والا آپریشن بھی کراچی کی زمینوں کو قبضہ مافیا سے واگزار کرانے میں ناکام رہا، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لینڈ مافیا کے پیچھے نہ صرف طاقتور لوگ ہیں بلکہ ایسے پردہ نشین بھی ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا انتظامیہ کے بس کی بات نہیں۔ اس صورتِ حال میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

حصہ