“جلالی سرکار کا جلال”

356

’’دیکھو بھائی سامنے والی دیوارکے ساتھ جو شخصیت ٹیک لگائے بیٹھی ہے، وہی جلالی سرکار ہیں۔ ویسے تو اِس وقت سرکار ہمیں اپنی والدہ کے انتقال پر دیوار سے ٹیک لگائے کسی سوچ میں گم انتہائی رنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ ایسا ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہا، یعنی ہم پر عیاں نہیں ہوسکتا، یہ صرف جلالی سرکار کی آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے۔ جلالی سرکار بظاہر دیوار سے ٹیک لگائے نظر آرہے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سرکار دیوار کے ساتھ نہیں بلکہ انتہائی خوبصورت باغ میں دنیا سے پردہ فرما جانے والی نامور روحانی ہستیوں کے ساتھ ایک گھنے درخت کے نیچے تشریف فرما ہیں، جبکہ ان کے سامنے دور تک مختلف اقسام کے پودوں پر لگے پھولوں کی خوشبو سے سارا باغ مہک رہا ہے۔ یہ مرتبہ برسوں کی عبادت و ریاضت کے بعد خاص لوگوں کو ملتا ہے، سرکار بھی انہی میں سے ایک ہیں، تبھی تو آپ کی دعاؤں میں اثر ہے، روزانہ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے پریشان حال لوگ ان کے آستانے سے فیض یاب ہوکر جاتے ہیں، ان کی جانب سے ملنے والے تعویذ سے تمام رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔ سرکار روحانی شخصیت کے ساتھ ساتھ ماہرِ عملیات بھی ہیں، اور جلالی اس قدر کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ سرکار کے جلال کو بیان کرتے ہوئے شبیر کے بڑے بھائی ناصر بتا رہے تھے کہ ایک دن جلالی سرکار اپنی سائیکل پر سوار ہوکر صدر جارہے تھے، سائیکل کی رفتار غیبی مدد سے اس قدر تیز تھی کہ کوئی گاڑی سرکار سے آگے نہ رہی۔ جس وقت آپ کی سائیکل نے تمام گاڑیوں کو کراس کرلیا عین اسی لمحے آپ کی تیز رفتاری کو دیکھ کر ایک ٹرک ڈرائیور نے ہارن بجایا جو سرکار کو ناگوار گزرا۔ ٹرک ڈرائیور کی اس حرکت پر آپ نے جلال میں آکر جوں ہی ٹرک کی جانب دیکھا اُس کا انجن بند ہوگیا۔ ویسے تو سرکار کبھی جلال میں نہیں آتے، مگر آجانے پر چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتے ہیں۔ تم بھی سرکار سے ملاقات کرکے بیعت ہوجانا۔ ہمارا تو سارا خاندان جلالی سرکار کا مرید ہے۔ مرید ہوتے ہی تمہاری زندگی میں تبدیلی آنے لگے گی۔ نہ صرف تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی بلکہ چند دن میں ہی خوشحالی تمہارے دروازے پر دستک دے گی۔‘‘
’’شاکر! ان لمبی اور جھوٹی داستانوں کو چھوڑو، دیکھو تم یہاں تعزیت کے لیے آئے ہو، اس لیے میں بھی تمہارے ساتھ آگیا ہوں، لہٰذا جو لواحقین ہیں اُن کے ساتھ تعزیت کرو اور مرحومہ کے حق میں دعائے خیر کرو۔‘‘
’’ہاں تم تو یہی کہو گے، تمہارا اعتقاد جو نہیں۔ عقیدہ مضبوط ہو تو پتھر سے مانگنے سے بھی ملتا ہے۔ تمہارے نزدیک پیری مریدی کی کوئی حقیقت نہ ہو، مگر ہم تو مانتے ہیں۔ عملیات، روحانیت، تعویذ گنڈا، جادو ٹونہ… ہر چیز کا وجود ہے۔ ابھی تم جلالی بابا سے ملے نہیں ہو، اس لیے ایسی باتیں کررہے ہو۔ ایک مرتبہ ان سے مل لو، پھر تم بھی میری ہی زبان بولو گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کسی نہ کسی پیر کی بیعت ضروری ہے۔‘‘
’’شاکر! تم اس قدر جاہل اور بے وقوف ہوسکتے ہو، حیرت ہے۔ خدا کا خوف کرو، سب سامنے ہونے کے باوجود تم ایسی باتیں کررہے ہو! ہوش کے ناخن لو اور آنکھیں کھول کر دیکھو، تمہارے جلالی سرکار کسی باغ میں درخت کے نیچے نہیں بلکہ اپنے گھر کی سیم زدہ خستہ حال دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جو کسی وقت بھی زمیں بوس ہوسکتی ہے۔ ان کے سامنے پھولوں کے بجائے گندگی کے ڈھیر ہیں۔ گلی میں بہتا سیوریج کا پانی تمہارے سرکار کے رہن سہن کی خوب خبر دے رہا ہے۔ جو شخص اپنے گھر کی گرتی ہوئی دیوار مرمت نہ کروا سکے وہ دوسروں کے مالی حالات کیا درست کرے گا! اگلی مرتبہ جب بھی آنا، لازمی طور پر اپنے سرکار سے اتنا ضرور کہہ دینا کہ وہ اپنے حالات درست کرنے کے لیے بھی تعویذ بنا لیں، کیونکہ ان کے گھر کی حالت گھر میں ہونے والے فاقوں کی کہانی بیان کررہی ہے، اور اپنے پیر سے یہ بھی کہنا کہ محنت کے عوض ملنے والے پیسے میں برکت ہوتی ہے، لہٰذا اسی راستے کا انتخاب کریں۔‘‘
’’تم جو بھی کہو، یہ ہمارے مرشد ہیں اور ہمیں انہی کے در سے فیض بھی ملتا ہے۔‘‘
…………
میں لاکھ کوشش کے باوجود شاکر کو سمجھانے میں مکمل طور پر ناکام رہا، اس لیے کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد مرحومہ کے حق میں دعائے خیر کرکے چلا آیا، اور خاصی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بدقسمتی سے21ویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں بھی نہ جانے کتنے شاکر پتھروں کے زمانے میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں، نہ جانے کتنے گھرانے اپنے اجداد کی پیروی کرتے ہوئے آج بھی توہم پرستی کا شکار ہیں۔ میرے نزدیک درحقیقت یہ سب قدیم دور کے ایسے تصورات ہیں جو فطری ماحول کی پیداوار ہیں، جنہیں جدید انسان نے اپنے آبا و اجداد سے ورثے میں پایا ہے جو انسانی نفسیات کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا میں بعض افراد جنترمنتر، جادو ٹونہ، تعویذ گنڈے وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے ان لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ پرانے خالی گھروں میں جنات بسیرا کرتے ہیں، کالی بلی اگر راستہ کاٹے تو بدشگونی ہوتی ہے، پری اور چڑیل انسان کے جسم میں داخل ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ… اس لیے اس سارے چکر کو حقیقت سمجھنے والے لوگوں کی اکثریت عام طور پر اپنے روزمرہ کے مسائل مثلاً روزگار کے حصول، پسند کی شادی، اولاد کے نہ ہونے، بیماریوں کے علاج، امتحان میں کامیابی، دشمنوں کو مات دینے اور دیگر گھریلو پریشانیوں اور نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے جادوگروں، ستارہ شناسوں، عاملوں،نجومیوں اور خوابوں کی تعبیر بتانے والوں کے در پر حاضری دیتی رہتی ہے،یا یوں کہیے کہ ایسوں کے پاس چکر لگاتی رہتی ہے جنہوں نے توہمات کے کاروبار کو جدید انداز میں قائم کر رکھا ہے، ان میں بعض عامل تو ایسے ہیں جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اپنے جادوئی کمالات کی کھلی تشہیر کرتے ہیں،جبکہ کچھ عامل اور پیر حضرات جنات پر قابو پانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ان کے مریدوں میں امیر اور غریب دونوں طبقوں کے افراد شامل ہوتے ہیں۔
توہم پرستی پر ایمان رکھنے والوں کی کم عقلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بسا اوقات موذی امراض کی صورت میں بھی یہ لوگ عاملوں کے جھانسے میں آ کر بروقت علاج نہیں کرواتے، جس کے نتیجے میں ہزاروں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں حکومت کی طرف سے توہمات کا کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی جاتی، اس لیے جادو ٹونے کے کاروبار سے منسلک لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، نتیجتاً روزانہ سیکڑوں افراد ان عامل حضرات کے سحر میں آکر اپنی جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ جب قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو وہ توہمات کی دنیا میں اپنا مستقبل تلاش کرنا شروع کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے آج بھی ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت سائنسی علوم سے زیادہ توہمات اور عامل حضرات کے کرشمات اور قسمت کا حال بتانے والے طوطوں پر یقین رکھتی ہے۔ اپنے اجداد سے ورثے میں توہم پرستی ملنے پر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ آج کے زمانے میں کوئی پوتا اپنے دادا کے کپڑے شاید مشکل سے ہی پہنتا ہو، لیکن خیالات کی دنیا میں پرانے خیالات آج بھی بطور فیشن چل رہے ہیں۔ اس لیے کسی بھی معاشرے میں ترقی کی راہ میں حائل پرانی رکاوٹیں ہٹانے سے ہی نئی سماجی تبدیلیاں ممکن ہیں۔ لہٰذا فکری نشوونما کے لیے توہمات کا سدباب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

حصہ