یہ کام ہم کروارہے ہیں

468

آج نذیر بھائی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں، انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی دلی مراد پوری ہوگئی ہو۔ چہرے سے مطمئن، ہشاش بشاش نظر آتے نذیر بھائی گنگناتے ہوئے جوں ہی میرے قریب سے گزرے، میں نے پوچھا ”بڑے خوش نظر آرہے ہو۔“
کہنے لگے ”بات ہی خوشی کی ہے۔“
”کیسی خوشی! کیا لاٹری نکل آئی ہے؟“
”یہی سمجھ لو، ابھی میں جلدی میں ہوں، پھر بتاؤں گا۔“
اس سے پہلے کہ میں مزید کھوج لگاتا، نذیر بھائی ہوا کے گھوڑے پر سوار ایسے نکلے جیسے ٹھیرے ہی نہ تھے۔
میری بھی عجیب عادت ہے، جس بات کی کھوج میں لگ جاؤں اُسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہوں۔ ایسے مزاج کا مالک، نذیر بھائی کی خوشی کا راز جانے بغیر بھلا کیسے چین سے بیٹھ سکتا تھا! بس اسی گتھی کو سلجھانے کے لیے میں اکبر بھائی کے پاس جا پہنچا۔ اکبر بھائی اور نذیر بھائی چونکہ دہائیوں کے دوست ہیں اس لیے میں نے نذیر بھائی کی تمام کیفیت اُن کے سامنے رکھ دی۔ میری باتیں سن کر بلکہ یوں کہیے کہ میرا اتائولا پن دیکھ وہ مسکراتے ہوئے بولے ”وہ صرف خوش ہی نہیں بلکہ خوشی میں لڈیاں ڈال رہا ہے۔“
”اسی لیے تو میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ جان سکوں کہ ایسا کیا ہواہے جس کی وجہ سے اُن کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے؟“
”ارے نہیں ایسی کوئی خاص بات نہیں، اُن کے محلے کی سیوریج لائن بند تھی، سیوریج کا گندا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے سارا علاقہ تالاب کا منظر پیش کررہا تھا، شدید بدبو اور تعفن کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار تھا، ہر طرف گندگی کی وجہ سے علاقہ مکین مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے جارہے تھے، خاص طور پر چھوٹے بچوں میں دست اور الٹیوں کی شکایت عام تھی۔ کل چونکہ بند سیوریج لائن کھول دی گئی ہے، بس اسی لیے نذیر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔“
”اوہو، اچھا، تو یہ چکر ہے۔ لیکن بند گٹر لائن کھلنے پر دھمال ڈالنے کی کیا ضرورت ہے! ایک مسئلہ تھا، حل ہوگیا، اس پر یوں جشن منانا سمجھ سے بالاتر ہے۔“
”تم اپنے دماغ پر زور کیوں دے رہے ہو! جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ جو علاقہ تین ماہ سے سیوریج کے گندے پانی میں گھرا ہوا ہو اور کوئی پرسانِ حال نہ ہو، ایسے علاقے کے مکین نکاسیِ آب کی ابتر صورتِ حال کی درستی کے لیے کی جانے والی کارروائی پر بھی خوشیاں منانے لگتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی جانب سے کیے جانے والے ایسے چھوٹے چھوٹے کام بھی اُن کے لیے راحت کا باعث ہوا کرتے ہیں۔ مسئلہ وہ نہیں جو حل ہوگیا، اور کتنے دن کے لیے ہوا یہ بھی ایک سوال اپنی جگہ ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ میرا دوست نذیر سیوریج لائن کی درستی پر آخر کس کس کا شکریہ ادا کرے؟ بند گٹر کھلوانے کا سہرا کس کے سر سجائے؟ کل سے اب تک نہ جانے کتنے ”بھائی“، نہ جانے کتنے پارٹی ذمہ داران محض یہ بتانے یا باور کرانے کے لیے نذیر کے گھر کا طواف کرچکے ہیں کہ یہ کارنامہ ان کا ہے، سیوریج لائن کی درستی انہی کی شب وروز محنت کا نتیجہ ہے۔ کل جب سیوریج کی بند لائن کھولی جارہی تھی اُس وقت اتفاق سے میں وہیں موجود تھا، یعنی یہ سارا تماشا میرے سامنے کا ہی ہے۔ کوئی گندے پانی میں کھڑے ہوکر تصویریں بنانے میں مصروف تھا، تو کوئی کام کرتے بلدیاتی عملے کی مووی بنارہا تھا، ایک ٹولی نے تو پانی کھینچنے والی مشینوں پر اپنی جماعت کے جھنڈے تک لگا رکھے تھے۔ اس ساری گہما گہمی میں اہلِ محلہ کے لیے یہ سمجھنا بلکہ اس کی شناخت کرنا انتہائی مشکل تھا کہ آخر یہ کام کروا کون رہا ہے؟ اور ویسے بھی اتنے بڑے پراجیکٹ پر کام کرنے والے مسیحاؤں میں سے حقیقی مسیحا کی تلاش ناممکن ہوتی ہے۔ اُس وقت ان کی حرکتوں کو دیکھ کر میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ خیر اپنی اپنی پارٹیوں کی تشہیر کرتے افراد میں سے ایک شخص اسی دوران میرے قریب آیا اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا ”بھائی صاحب دیکھ رہے ہیں آپ، یہ کوئی ایک دن کا مسئلہ نہیں، یہاں مہینوں سے گندا پانی بہہ رہا ہے، یہ تو ہماری پارٹی کی کوشش ہے جس کی وجہ سے کام ہورہا ہے، ورنہ انہوں نے جو اِس وقت کریڈٹ لینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں، اپنے بلدیاتی دور میں ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کیا، صرف پیسہ ہی کھایا ہے، سرکاری فنڈز کو اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتے تھے، دیکھو اب کس طرح علاقہ مکینوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے امنڈ آئے ہیں، کیسے عوام کے سامنے ہیرو بننے کی ناکام کوشش کررہے ہیں! بے وقوف اتنا بھی نہیں جانتے کہ اب ان کا کوئی بازار نہیں، لوگ اب ان کی باتوں میں آنے والے نہیں، کیونکہ سب نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اِس بار ان کے جھانسے میں آنے کے بجائے ہمیں ووٹ دیں گے۔ عوام جان چکے ہیں کہ ہمارا لیڈر وہ واحد لیڈر ہے جس نے اپنی قوم کے بہترین مستقبل کے حصول کی خاطر سب سے پہلے اُس وقت اس پارٹی کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا جب یہ انتہائی طاقتور تصور کیے جاتے تھے، ان کی مرضی کے بغیر نہ صرف کراچی بلکہ پورے صوبہ سندھ میں ایک پتّا تک نہیں ہل سکتا تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، ہمارے لیڈر نے صرف اپنی قوم ہی کی بات کی ہے“۔ وہ شخص اپنی پارٹی کی محبت میں لمبا چوڑا بھاشن دے کر گیا ہی تھا کہ دوسرا مسلط ہوگیا، اور آتے ہی وکھرے انداز میں کہنے لگا بلکہ پوچھنے لگا ”کیا کہہ رہا تھا یہ؟ اپنا منجن بیچ رہا ہوگا، گھر میں کوئی پوچھتا نہیں اور چلا ہے سیاست دان بننے۔ یہ کام ہم کروا رہے ہیں، ساری قوم جانتی ہے ہم ہی اس شہر کے اسٹیک ہولڈر ہیں، ہمارا میئر اور یوسی چیئرمین چلے گئے تو کیا ہوا؟ بلدیاتی انتخابات ہوتے ہی ایک مرتبہ پھر ہمیں ہی کامیاب ہونا ہے، ہم ہی شہر کے مسائل کو جانتے ہیں، اور ہمارے پاس ہی ان کا حل بھی ہے، تبھی تو اب تک بلدیاتی عملہ بھی ہماری بتائی ہوئی جگہوں اور ہدایات پر ہی کام کررہا ہے۔ بے فکر رہیں، آج یہ علاقہ بالکل صاف ہوجائے گا۔“ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک علاقے کے چند گٹروں کی صفائی پر اس قدر سیاست کی جارہی ہے، کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنے کارکنان کے ذریعے پہلے خود ہی گٹروں میں ریتی سے بھری بوریاں ڈلواتی ہیں، بعد ازاں علاقوں میں بہتے سیوریج کے گندے پانی کو ہدف بناکر سیاسی دکان چمکانے لگتی ہیں۔ یہی کچھ اس شہر کے باسی برسوں سے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔“
میرا دوست نذیر جس محلے میں رہائش پذیر ہے، وہاں گندگی کے ڈھیر اور تباہ حال سیوریج سسٹم بلدیہ کراچی کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس محلے کے رہنے والے خوب جانتے ہیں کہ عارضی طور پر کیے جانے والے اقدامات عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ جنہوں نے اپنے بلدیاتی دور میں اختیارات ہونے کے باوجود بے اختیاری کا رونا رویا وہ کسی طرح بھی ان کے مسیحا نہیں ہوسکتے۔ اب صرف نذیر کا علاقہ ہی نہیں بلکہ سارا کراچی ہی ایسے لوگوں سے اعلانِ لاتعلقی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ شہریوں کو اب ایک ایسا وفادار شخص نظر آنے لگا ہے جو نہ صرف اپنے قول کا پکا ہے بلکہ اس کی جماعت وہ واحد جماعت ہے جس نے کراچی شہر کی مظلومیت اور اس کو حقوق دلانے کا مقدمہ پورے پاکستان کے سامنے رکھ دیا ہے۔ کراچی والے یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ یہی جماعت شہر کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور اس کے حقوق کے لیے حقیقی جدوجہد کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

حصہ