تمام نظریں وزیراعظم کی جانب

350

۔’’افتخار بھائی! پھر بجٹ آگیا۔ اِس مرتبہ بھی گزشتہ سال کی طرح بجٹ میں عوام کے لیے کچھ نہیں۔‘‘
’’یار کیوں کچھ نہیں ہے! تعصب کی عینک اتار کر دیکھو، سب کچھ صاف صاف دکھائی دے گا۔ تمہارا کام تو تنقید برائے تنقید کرنا ہے۔ اس ملک کو ستّر سال سے لوٹا گیا ہے، اگر کوئی ملکی مفاد میں کام کررہا ہے تو وہ تمہیں برا لگ رہا ہے۔ بجٹ متوازن ہے، بلکہ یہ غریب کا بجٹ ہے۔‘‘
’’ہوش میں ہو یا نیند میں باتیں کیے جارہے ہو! کس غریب کا تذکرہ کررہے ہو، اور کون سے غریب کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف ہے؟‘‘
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، تم بجٹ پر نظر ڈال کر تو دیکھو، سب سمجھ میں آجائے گا۔‘‘
’’میری نظر سے تو کوئی ایسی چیز نہیں گزری، تم ہی بتادو۔‘‘
’’دیکھو آج پہلے جیسے حالات نہیں، معیشت کے استحکام کے لیے جو بھی محنت کی گئی تھی وہ کورونا وائرس کی وجہ سے تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ بدقسمتی سے اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں، تمام صنعتیں اور کاروبار بند ہیں۔ ان معاشی برے حالات میں بھی حکومت نے کمزور افراد کے لیے بارہ سو ارب کا پیکیج دیا ہے، جبکہ طبی شعبے کے لیے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں، کاروبار میں آسانی کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں، تاجروں کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے، ہر شعبے کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے، ودہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ اور اسے صنعت کا درجہ دیا گیا، اور اس کے لیے بارہ سو ارب سے زائد پیکیج کی منظوری دی گئی ہے۔ مجموعی طور پر آٹھ سو پچھتر ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ طبی آلات کی خریداری کے لیے 71 ارب، غریب خاندانوں کے لیے ایک سو ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ ایمرجنسی فنڈ کے نام سے سو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔‘‘
’’خدا کے واسطے اب تو شیخیاں بگھارنا چھوڑ دو۔ آخر کب تک وہی پرانا ریکارڈ بجاتے رہو گے… وہی پرانی باتیں، وہی چور چور کا شور مچاتے رہو گے… کب تک پچھلوں کا ماتم کرتے رہو گے… بہت ہوگیا، لوگوں کو میٹھی گولیاں دینا بند کرو، اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمینی حقائق تسلیم کرو۔ حقائق یہی ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بنائی گئی پالیسوں کے نتیجے میں آنے والی معاشی بدحالی اور مہنگائی نے سفید پوش لوگوں خصوصاً نوکری پیشہ افراد کا بھرم تار تار کردیا ہے۔ آج غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی حالت ایسی ہے جیسے کورونا سے بھی زیادہ خطرناک وائرس نے ان کی معاشی زندگیاں تباہ و برباد کردی ہوں، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ موجودہ حکومت میں شامل اشرافیہ اور مافیا کی گردان کرنے والوں نے میڈیا کے ذریعے عوام کو تبدیلی کے جو خواب دکھائے تھے اُن کی خوفناک تعبیر نے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے۔ تمہارا لیڈر جنہیں کرپٹ، چور اور ڈاکو جیسے القابات سے نوازتا ہے یعنی آصف زرداری اور نوازشریف، ان کی حکومتوں کے بارے میں جو کچھ بھی کہتا تھا وہ غلط ثابت ہوتا جارہا ہے۔ لوگ انہیں یاد کرنے پر مجبور ہیں۔ میں چونکہ سرکاری ملازم ہوں اس لیے اپنے قبیلے کی بات کروں گا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں نہ صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ ہوا بلکہ ماضی میں برطرف کیے گئے ملازمین کو اُس دن سے تنخواہ کے ساتھ بحال کیا گیا جب انہیں برطرف کیا گیا تھا۔ نوجوانوں کے لیے ہزاروں روپے معاوضے کے ساتھ فنی تربیت کا پروگرام شروع کیا گیا، تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے گئے… اور تو اور 2011ء سے لے کر 2013ء تک بدترین سیلاب کے دوران متاثرین کی مکمل کفالت کی گئی۔ اب موجودہ سال پیش کیے جانے والے بجٹ کو دیکھ لو، وفاقی حکومت نے ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں میں ایک روپے کا اضافہ نہیں کیا، جب کہ سندھ حکومت نے تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصداضافہ کیا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کے دور میں نہ صرف موٹرویز بنیں، بلکہ بجلی کے کارخانے لگے اور سی پیک جیسے بڑے ترقیاتی منصوبوں سمیت سرکاری و نیم سرکاری ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جاتا رہا ہے… اور تم جن ایمان داروں کی وکالت کررہے ہو اُنہوں نے تو عوام کا حشر نشر کردیا ہے۔ اس دور میں تو عوام کا دو وقت کی روٹی کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی مشکل بن چکی ہے۔ ان بدترین حالات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تبدیلی کا خواب دکھانے والوں نے عوام کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا ہے۔‘‘
’’ہاں جو جیسا ہوتا ہے ویسی ہی باتیں کرتا ہے۔ تم کرپٹ لوگوں کے ساتھ ہو، اسی لیے اُن کی حمایت کررہے ہو۔ بھائی دنیا کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ اتارنا اور عالمی بینک کے پیسے واپس کرنا، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ تباہ حال معیشت میں اس مسئلے سے نکلنا آسان نہیں۔ ایسی صورت میں تم لوگوں کو باتیں کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔‘‘
’’معاشی استحکام کی تو بات چھوڑو، حکومت سے توقع کرنا بے کار ہے۔ ہر روز یوٹرن لینے والوں سے معیشت کی بہتری کی امید لگانا پاگل پن کے سوا کچھ نہیں۔ معاشی اعداد و شمار دیکھ لو۔ تمام منفی میں نظر آئیں گے۔ کوئی بہتری نہیں۔ معاشی اشاریے اور تمام سروے انتہائی خطرناک صورت حال بتارہے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔ چینی آٹا سمیت سب اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، لوگوں کے گھروں میں فاقے پڑ رہے ہیں اور حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ غریبوں کی تنخواہیں بڑھانے کے بجائے اپنی تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ جھوٹ کا بازار گرم کررکھا ہے، کوئی بھی سچ بولنے کو تیار نہیں۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں اس لیے بات ملازمین کی کروں گا۔ ان کے خاندانوں کی جو صورتِ حال ہے اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ملازمین خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ سندھ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کرکے گیند وفاقی حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کب تک سرکاری ملازمین کے لیے کسی پیکیج کا اعلان کرتے ہیں۔ اب تمام نظریں وزیراعظم کی جانب ہیں۔‘‘

حصہ