کیا پالیسی ہے!۔

358

کس کے بیٹے کی شادی کہاں ہورہی ہے، اور کس کی بہو کتنا جہیز لائی ہے… کس کے گھر کیا پکا ہے، اور کون کتنے بجے آتا ہے… کوئی جانے یا نہ جانے، محلے کا حجام ضرور جانتا ہے۔ شاید انہی خصوصیات کے باعث لوگ اسےخلیفہ اور محلے کی دائی جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ سنا ہے کہ پہلے دور میں حجام خلیفہ کے نام سے مشہور ہوا کرتے تھے، بلکہ دیہات میں تو آج بھی انہیں خلیفہ کہہ کر ہی پکارا جاتا ہے، یہ الگ بات کہ ان کی خلافت کا ہمیں علم نہیں… یعنی ان کی ریاست کا رقبہ کتنا اور کہاں تک پھیلا ہوا ہے اس سے ہم واقف نہیں۔ ویسے ہمارے دوست حنیف تو انہیں دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اَڑانے اور زیادہ بولنے کے باعث خلیفہ مانتے ہیں، لیکن میں ان کی اس تھیوری سے ہمیشہ سے ہی اختلاف کرتا آیا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر خلیفہ بننے کا معیار دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اَڑانا ہے، تو اس اہلیت کی بنیاد پر نسیم بھائی خلیفہ وقت ہوتے۔ کسی معاملے میں ٹانگ اَڑانا معمولی بات ہے، وہ تو لوگوں سے ہی اَڑتے پھرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ لڑنے اور لڑانے کا فن خوب جانتے ہیں۔ پچھلی بڑی عید پر پیش آنے والے واقعے کو ہی لے لیجیے، ہمارے محلے کے رہائشی خلیل بھائی قربانی کے لیے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی خاصا تگڑا اور خوبصورت جانور لائے۔ عید کے پہلے دن محلے کے لوگ اس خوبصورت جانور کو قربان ہوتا دیکھنے خلیل بھائی کے گھر پہنچ گئے۔ خیر سے نسیم بھائی بھی وہاں موجود تھے، بچھڑے کی گردن پر چھری چلتے ہی چلّانےلگے:
”حرام کردیا، حرام کردیا، چھری پھیرتے وقت قسائی نے کلمہ طیبہ نہیں پڑھا۔ یہ قربانی نہیں ہوئی۔“
پھر کیا تھا، خلیل بھائی اور قسائی کے درمیان شروع ہونے والا دنگل ظہر کی اذان تک جاری رہا، اور بڑی مشکل سے مسئلہ حل ہوا۔ اسی شام نسیم بھائی مجھے ملے، کہنے لگے ”مانتے ہو میرے دماغ کو، تم نے صبح کیسی تفریح لی!“
اب آپ ہی بتائیں کہ اتنی زیادہ صلاحیتیں رکھنے والا شخص خلیفہ وقت نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا…!
جہاں تک حجام کے زیادہ بولنے کا تعلق ہے، تو اس میں کچھ سچائی ضرور ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس پیشے سے وابستہ افراد میں بولنے کی عادت کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے، یعنی بال کاٹنے یا خط بنانے کے دوران گاہک کے کانوں میں اپنی بات اتارنے کا فن وہ خوب جانتے ہیں۔ اب کوئی اس سے اختلاف کرے یا اتفاق… دونوں صورتوں میں گاہک ایک ایک بات سننے پر مجبور ہوتا ہے۔ حجام یہ بھی کہتے ہیں کہ اس پیشے سے وابستہ افراد کی معاشرے میں بڑی اہمیت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بادشاہ بھی ان کے سامنے سر جھکا دیا کرتے ہیں۔ شاید اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے ملک کے حکمرانوں نے بھی ان کے سامنے سر جھکا دیا، تبھی تو انہیں بھی دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
بلکہ جب سے کورونا وائرس آیا اور لاک ڈاؤن کے باعث تمام کاروبار بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، اس پیشے سے وابستہ افراد کی تو چاندی ہوگئی ہے۔ آپ جب اور جہاں چاہے جاکر دیکھ لیں، لمبی لمبی قطاروں میں بیٹھے لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے دکھائی دیں گے۔ راجو ہیئر ڈریسر نے تو خصوصی طور پر اپنی دکان کے باہر بھی کرسیاں لگا رکھی ہیں۔ ظاہر ہے جب دکان کے اندر جگہ نہ ہو تو اس طرح کا بندوبست کیا جانا اچنبھے کی بات نہیں… اور پھر اپنی مرضی کا ہیئر اسٹائل بنوانے اور چہرے کا مساج کروانے کے لیے اپنی باری کا انتظار تو کرنا ہی پڑتا ہے، اور اس میں بھی کیا حرج جو ایک ہی تولیہ ایک سے زیادہ گاہکوں کا چہرہ صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جائے! اب کسی کو نزلہ ہو یا کھانسی… کسی کا جسم بخار سے تپ رہا ہو، یا کوئی سانس لینے میں دشواری محسوس کررہا ہو… راجو بھائی کے فلسفے یعنی ”آفٹر شیو بڑے سے بڑے جرثومے کو مار دیتا ہے“ کے مطابق گاہک کورونا وائرس سے محفوظ ہی سمجھا جائے گا۔ جبکہ ہمیں تو بتایا یہ گیا تھا کہ اپنے ہاتھ ایسے صابن یا جیل سے دھوئیں جو وائرس کو مار سکتا ہو، اپنے ہاتھ ایسے تولیے سے صاف کریں جو صرف آپ کے ہی استعمال میں ہو، کھانستے اور چھینکتے ہوئے اپنا منہ ڈھانپ لیں۔ ہدایت تو یہ بھی دی گئی تھی کہ کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد آپ اپنی ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں، کیونکہ وائرس آپ کے جسم میں داخل ہوسکتا ہے… اور تو اور ایسے لوگوں کے قریب جانے سے بھی روکا گیا تھا جو کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں، یا جنہیں بخار ہو… ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھنے کا کہا گیا تھا۔ یہ بھی ذہن نشین کروایا گیا تھا کہ سماجی رابطوں کو ختم کرکے گھروں میں رہ کر، یا معاشرتی سرگرمیوں سے الگ ہوکر ہی اس موذی وائرس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی احتیاط بتانے کے بعد محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے تحت کیوں ایک ایسا کاروبار کھولنے کی اجازت دی ‌گئی جو کورونا وائرس کی منتقلی کا باعث بن سکتا ہے؟
میں کسی کے کاروبار کا مخالف نہیں، اور نہ ہی کسی کے روزگار کے خلاف ہوں۔ میں یہاں حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں پر حیرت کا اظہار کررہا ہوں، جو ہر آنے والے دن کے ساتھ نئے انداز میں پیش کی جاتی ہیں، جس کے مطابق وفاقی حکومت ایک سمت، جبکہ صوبے دوسری سمت جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کوئی لاک ڈاؤن میں نرمی کی بات کرتا ہے، تو کہیں سخت ترین لاک ڈاؤن کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ وفاقی وزرا صوبائی حکومت کے خلاف، اور صوبائی حکومت وفاق کے خلاف بیانات دیتی نظر آتی ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں بے چارے عوام بے حال ہوکر رہ گئے ہیں، وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر حکومت کی کیا پالیسی ہے؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف وائرس پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، جبکہ دوسری طرف صوبائی اور وفاقی حکومت کے جھگڑے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ بدقسمتی سے ان بدترین حالات میں بھی حکومت کی کوئی جامع پالیسی سامنے نہیں آئی۔ کورونا وائرس کے باعث پوری دنیا میں ایک بحرانی کیفیت چھائی ہوئی ہے، لیکن ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی خاص کوشش وقوع پذیر ہوتی نظر نہیں آرہی۔ شاید یہ بات اب تک ہمارے حکمرانوں کے علم میں نہیں کہ اس وائرس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے! حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی تقسیم سے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تمام اربابِ اختیار کو ساتھ بٹھا کر ایک واضح قومی پالیسی کا اعلان کرنا ہوگا۔ اگر خدانخواستہ بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو خاصا نقصان ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا تھا، جس کے بعد اس میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا ہے۔ دوسری جانب سرکاری طور پر سامنے آنے والے کیسز میں سے 1.7 فی صد مریض ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے، جبکہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔

حصہ