اکبر بھائی کا فلسفہ

849

نہ جانے کس بات نے اکبر بھائی کو پریشان کررکھا تھا۔ وہ کبھی اپنے گھر میں داخل ہوتے، تو کبھی گلی میں ٹہلنے لگتے۔ ان کی کیفیت دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں اس بڑھتی ہوئی بے چینی کا سبب پوچھنے کے لیے ان کے گھر پہنچ گیا۔ برآمدے میں ٹہل لگاتے اکبر بھائی مجھے اپنی جانب آتا دیکھ کر سامنے رکھی کرسی پر جابیٹھے۔ بس پھر کیا تھا، میں نے فوری طور پر پوچھا: ’’خیریت تو ہے اکبر بھائی، پریشان لگ رہے ہیں، طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
اکبر بھائی تو جیسے پہلے سے ہی بھرے بیٹھے تھے، میز پر رکھا اخبار میری جانب پھینکتے ہوئے بولے:’’کیا خاک ٹھیک ہے! ایسی خبروں کو پڑھ کر کوئی کیسے ٹھیک رہ سکتا ہے!‘‘
۔’’کون سی خبر؟‘‘ میں نے یک دم پوچھا۔
’’ارے یہی خبر، جس کے مطابق گٹکا اور مین پوری کی تیاری اور فروخت پر جائداد ضبط کرلی جائے گی۔‘‘۔
۔’’اچھا اچھا، حکومتِ سندھ کی جانب سے جاری کردہ یہ خبر کہ گٹکا، مین پوری اور تمام نشہ آور اشیا کی فروخت و استعمال ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔ گٹکا، مین پوری اور نشہ آور چھالیہ کی امپورٹ، ایکسپورٹ اور ٹرانسپورٹیشن پر مکمل پابندی ہوگی۔ گٹکا، مین پوری اور ماوا تمباکو چھالیہ کے استعمال و فروخت پر ایک سے چھ سال تک سزا ہوگی۔ گٹکا، مین پوری کی تیاری اور فروخت پر دو سے دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ کاروبار کے خلاف کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالنے پر دوسال سزا، جبکہ تعلیمی اداروں، عوامی مقامات اور پبلک ٹرانسپورٹ میں گٹکا، مین پوری کے استعمال پر ایک ماہ قید اور 45 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ پولیس سب انسپکٹر کی سطح کا افسر مصدقہ اطلاع پر گٹکا، مین پوری کے خلاف کسی بھی عمارت،گھر یا دکان کی تلاشی لے سکے گا۔ گٹکا، مین پوری کی تیاری اور فروخت پر پولیس کو دروازہ توڑ آپریشن کا اختیار حاصل ہوگا، جبکہ پولیس گٹکا، مین پوری کے خلاف کارروائی کے دوران مشینری و دیگر سامان بھی ضبط کرسکے گی۔ آپ اس بارے میں بات کررہے ہیں!‘‘۔
۔’’ہاں ہاں اسی خبر کی بات کررہا ہوں۔‘‘۔
۔’’اکبر بھائی اس میں پریشانی اور ناراض ہونے والی کیا بات ہے! یہ تو اچھا اقدام ہے۔ نشہ آور اشیاء خصوصاً گٹکا اور مین پوری کو تو بند ہی ہونا چاہیے۔ دیکھتے نہیں اس زہر کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل کس طرح کینسر جیسے موذی اور جان لیوا مرض میں مبتلا ہورہی ہے، اس کاروبار کے بند ہونے میں برائی کیا ہے؟‘‘۔
۔’’تُو اپنا فلسفہ اپنے پاس ہی رکھ، خبر پڑھ کر ماہر امراضِ سرطان نہ بن۔ خبر کو باریک بینی سے پڑھے گا تو سب سمجھ جائے گا۔‘‘۔
۔’’اکبر بھائی اس میں نہ سمجھنے کی کیا بات ہے! بات سیدھی سی ہے کہ حکومتِ سندھ کی جانب سے گٹکا اور مین پوری پر پابندی عائد کردی گئی ہے، جو اچھا اقدام ہے۔ نہ جانے تم اس خبر میں سے کیا نکال رہے ہو! لگتا ہے جیسے تم اس پابندی کے خلاف ہو، اور ان نشہ آور اشیاء کا خاتمہ نہیں چاہتے۔‘‘۔
۔’’انسان کے پاس جتنی عقل ہو وہ اتنی ہی بات کرتا ہے، اور تم تو عقل سے پیدل لگ رہے ہو۔ حکومتِ سندھ کی نظر میں گٹکا اور مین پوری پر پابندی لگاکر نوجوان نسل کو کینسر جیسے مہلک مرض سے بچایا جاسکتا ہوگا، جبکہ میرے نزدیک ایسا نہیں۔‘‘۔
۔’’صرف میں ہی نہیں بلکہ سارا محلہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ تم ایسے ہر اقدام کی مخالفت ہی کرو گے، ظاہر ہے جس کا بھائی گٹکا فروش ہو وہ کینسر کے خلاف کیے جانے والے جہاد کی کیسے تعریف کرسکتا ہے! ویسے بھی ہر بات پر تمہارا الگ ہی فلسفہ ہوتا ہے۔‘‘۔
۔’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے میری باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا۔ حیرت ہے کہ تم میری بات اب تک نہ سمجھ سکے۔ میں مانتا ہوں کہ میرا چھوٹا بھائی گٹکے اور مین پوری کی سپلائی کرتا ہے، لیکن اس کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ میں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے کسی اچھے اقدام کی بھی مخالفت کروں۔ تم نے ابھی خود ہی کہا ہے ’’کینسر کے خلاف جہاد‘‘۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں، فرق صرف اتنا ہے کہ میرے نزدیک یہ حکومت کینسر کے خلاف کوئی جہاد نہیں کررہی، بلکہ پولیس کو ایسے اختیارات دے رہی ہے جس سے وہ ایک عام شہری کو مزید پریشان کرسکے، گٹکا تلاشی کے نام پر عوام کی جیبیں کاٹ سکے۔ سیڑھیاں لگاکر لوگوں کے گھروں میں کودنے کا کھلا لائسنس دیا جارہا ہے۔ اور پھر کیا کینسر صرف گٹکا یا مین پوری کھانے سے ہوتا ہے؟ نہیں نہیں، ایسا نہیں ہے۔ تم چینی سے متعلق معلومات حاصل کرکے دیکھ لو جس کا استعمال دل کی بیماریوں، کینسر، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور دانتوں کے گمبھیرمسائل کا باعث ہے۔ بعض لوگ تو چینی کو سفید زہر بھی کہتے ہیں۔ اس طرح تو چینی بھی مضر صحت اور کینسر کا باعث ہوئی۔ اسی طرح روزمرہ استعمال ہونے والی گھریلو اشیاء سے بھی توسرطان جیسی خطرناک اور جان لیوا بیماری لاحق ہوسکتی ہے، مثلاً گھریلو استعمال کی بعض چیزوں میں نائٹروبینزین، فارم ایلڈی ہائیڈ اور میتھائلین کلورائیڈ جیسے خطرناک مادّے شامل ہوتے ہیں۔ یہ مادّے پلاسٹک اور ربر سے بنے عام سامان کے علاوہ مصنوعی خوشبوؤں تک میں چھپے ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح موم بتیاں بھی مضر صحت کیمیکل کا بڑی مقدار میں اخراج کرتی ہیں، موم بتی سے نکلنے والا دھواں سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر دمہ اور خارش کے علاوہ سرطان جیسے مہلک مرض کا بھی سبب بن سکتا ہے، یوں موم بتیاں بنانے والوں اور روشن کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘
۔’’اکبربھائی تم بات کو کہاں سے کہاں لے گئے، تمہاری فضول باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔‘‘۔
۔’’میں بات کو کہیں سے کہیں نہیں لے کر گیا، بلکہ حکومت کی سمت غلط ہے جو کینسر جیسے موذی مرض کے بڑھاوے کی اصل وجہ چھالیہ، تمباکو، خشک کتھے اور چونے سے تیار کردہ گٹکے اور مین پوری کو قرار دے رہی ہے، جیسے باقی سب کچھ ٹھیک اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہی فروخت ہورہا ہے۔ دیکھو، میں مین پوری اور گٹکا بنانے والوں کی وکالت نہیں کررہا، میرا سوال تو یہ ہے کہ کس کلیے کے تحت چھالیہ اور تمباکو پان کے پتے میں لپیٹ کر کھانا جائز، جبکہ مین پوری کی شکل میں کھانا ناجائز اور مضر صحت ہے؟ گٹکے میں شامل تمباکو کی تھوڑی سی مقدار کینسر کردے، جبکہ تمباکو سے بھرے سگریٹ کے لمبے لمبے کشوں سے کسی کو نزلہ تک نہ ہو! کون نہیں جانتا کہ سگریٹ میں شامل نکوٹین تمباکو کا نشہ آور جزو ہے، ایک عام سگریٹ میں تقریباً بیس ملی گرام نکوٹین ہوتی ہے۔ تمباکو میں شامل سب سے طاقت والا نشہ یہی ہے، اس کے علاوہ کونتار بھی سگریٹ کے تمباکو میں شامل ایک ایسا مادہ ہے جو تمباکو نوش کے پھیپھڑوں میں جمع ہوکر اس کی اندرونی جلد کو نقصان پہنچاتا ہے، جبکہ سگریٹ کے دھویں میں ایک سے ڈھائی فیصد تک کاربن مونوآ کسائیڈ ہوتی ہے۔ یہ وہی گیس ہے جو گاڑیوں کے دھویں میں ہوتی ہے۔ اس گیس سے سانس رکنے کی وجہ سے موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ کے تمباکو میں پائے جانے والے مضر اجزا میں ٹار، کاربن مونو آکسائیڈ، ہائیڈروجن سلفائیڈ، آرسینک، ہائیڈرو زین، ہائیڈروجن سائنائیڈ، فارمل ڈی ہائیڈ، ایکرولین، نائٹروجن، کونتار، آکسائیڈ، امونیا، نائٹروسامائن، اور ایسی ٹل ڈی ہائیڈ وغیرہ شامل ہیں، جو سانس کی نالیوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ مجھے یقین ہے میری بات اب تمہاری سمجھ دانی میں پہنچ رہی ہوگی۔ اب آجاتے ہیں اعدادوشمار کی جانب۔
پاکستان میں ہر تیسرا شخص سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہے۔ پاکستان کی 16فیصد خواتین بھی تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ دنیا میں ہر سال تمباکو نوشی کرنے والے کم از کم 50 لاکھ افراد پھیپھڑوں کے سرطان، دل کے امراض اور دوسری وجوہات کی بنا پر انتقال کرجاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی انسانی صحت کے لیے اس قدر خطرناک ہے کہ ہر آٹھ سیکنڈ میں ایک شخص کی موت کا سبب بن رہی ہے۔ اگر یہی رجحان جاری رہا تو 2030ء میں سگریٹ نوشی سے منسلک وجوہات کی بنا پر مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 80 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس قدر تیزی سے موت بانٹتی سگریٹ، اور سگریٹ پینے والوں، بنانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں۔ محکہ صحت کی جانب سے سگریٹ کی ڈبیہ پر انتباہ لکھوا دینے سے کون سے کینسر کے خلاف جہاد کیا جارہا ہے!‘‘۔
۔’’اکبر بھائی، بعض معاملات بین الاقوامی ہوا کرتے ہیں۔ سگریٹ ساری دنیا میں پی جاتی ہے، ساری دنیا کی حکومتیں بشمول صحت سے منسلک تمام ادارے سگریٹ نوشی کے خلاف اقدامات کرتے رہتے ہیں، اور پھر اگر کوئی حکومت گٹکا اور مین پوری بنانے والوں کے خلاف ہی سہی، قوانین بنانا چاہتی ہے تو یہ اچھا عمل ہے۔‘‘۔
۔’’دیکھو میری بات غور سے سنو، حکومت کا کہنا ہے کہ کینسر تمباکو سے ہوتا ہے۔ بالکل ٹھیک، میں بھی مانتا ہوں۔ حکومت کہتی ہے مین پوری پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ بالکل، سو فیصد ہونی چاہیے۔ جب میں حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کی تائید کررہا ہوں تو حکومت پان، سگریٹ، نسوار اور شراب جیسی مضر صحت اشیاء پر کیوں پابندی عائد نہیں کرتی؟ بازاروں میں فروخت ہوتی ان مضر صحت اشیاء کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے پولیس وانتظامیہ کو بھرپور اختیارات دینے میں کیا قباحت ہے؟ میرے نزدیک تمام مضر صحت اشیاء بشمول سگریٹ اور شراب سب پر پابندی لگنی چاہیے۔ ایسے اقدامات سے ہی پاکستان کو حقیقی طور پر کینسر جیسے موذی مرض سے پاک کیا جاسکتا ہے۔‘‘۔

حصہ