تلخ حقائق

690

۔”بھائیو اور بہنو! کراچی دنیا کا ساتواں اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ باریاں لینے والی سیاسی جماعتوں کے دعووں کے باوجود یہ شہر گندگی کے ڈھیروں سے اب تک پاک نہ ہوپایا۔ سب جانتے ہیں کہ مکھیوں اور مچھروں کی بہتات کے باعث یہاں کے شہری مختلف موذی امراض کا شکار ہیں۔ ڈیفنس ہو یا پی ای سی ایس ایچ سوسائٹی۔۔۔۔۔۔ مضافاتی علاقے ہوں یا تجارتی مراکز۔۔۔۔۔ ہر جگہ، ہر محلے اور ہر گلی کے نکڑ پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ بھائیو اب تو یہ کچرا ہی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ آپ نے بھی سن رکھا ہوگا کہ کراچی میں روزانہ بارہ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف آٹھ ہزار ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جاتا ہے، باقی چار ہزار ٹن سڑکوں پر ہی پڑا رہتا ہے جس کی وجہ سے شہر کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے، تو یہ چار ہزار ٹن کچرا کون اٹھائے گا؟ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اس کے لیے اسرائیل سے بات کرنا پڑے گی یا کسی غیبی مدد کا انتظار کیا جارہا ہے؟ روز اجلاس پر اجلاس بلائے جاتے ہیں، چائے پانی کی محفلیں سجتی ہیں، اور نتیجہ زیرو۔ عوام کو جب اس گندگی سے نجات دلانے والا کوئی نظر نہیں آتا تو وہ گلی کوچوں میں جمع کچرے کے ڈھیروں کو کم کرنے کے لیے آگ لگا دیتے ہیں جس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ لوگ گلے اور سانس کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہورہے ہیں۔ اس پر بھی حقائق تسلیم کرنے کے بجائے ہم ہی پر آلودگی پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کچرے کو آگ لگانے سے ماحول آلودہ ہوتا ہے، اس صورت حال میں عوام کیا کریں؟ کیا اپنی گلیوں اور محلوں کو کوڑے دان بنادیں؟۔ بھائیو اور بہنو! آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کراچی کی دعوے دار دو جماعتوں کی ملی بھگت کے باعث۔۔۔ بلکہ اب تو تیسری جماعت بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئی ہے۔۔۔ شہر لاوارث بن چکا ہے، ادارے تباہ ہوچکے ہیں، کوئی محکمہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا۔ عوام کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ یہاں کی کچی آبادیوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے رانی پور یا شکارپور کا کوئی چھوٹا سا گاؤں ہو، بلکہ اس سے بھی بدتر! سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں میں سہولیات ہیں نہ ہی صفائی کا کوئی بہتر نظام۔ ان کی خستہ حالی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بھائیو! یاد کرو وہ وقت جب اس شہر کی شناخت روشنیاں اور سرسبز پارک تھے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج اسی شہر کو ابلتے گٹروں اور کچرے سے اَٹے میدانوں سے پہچانا جاتا ہے۔ خدارا ہوش کرو، کب تک۔۔۔ آخر کب تک ان سیاسی شعبدہ بازوں کے چنگل میں پھنسے رہو گے، جن کے پاس رام لیلا کی کہانیوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ یہ شہر ترقی کرے، یہاں کے مسائل حل ہوں، لوگوں کو روزگار ملے، صحت و تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں، ناانصافیوں کا خاتمہ ہو، اقربا پروری نام کی کوئی چیز نہ ہو تو ایسے لوگوں کا انتخاب کرو جو دیانت دار ہوں، جن کا ماضی بےداغ ہو، جو عوامی خدمت کو عبادت سمجھتے ہوں، جن کا نصب العین انسانیت سے محبت اور جن کا ایمان خدا کی حاکمیت ہو۔ ایسے لوگ منتخب کرو جن کے دامن پر کرپشن، لوٹ کھسوٹ جیسی گندگی کی ایک چھینٹ تک نہ ہو۔ بھائیو! کیا میری باتوں پر عمل کرو گے؟ بتاؤ اِس مرتبہ انتخابات میں اپنا نمائندہ منتخب کرتے وقت جوش کے بجائے عقل اور ہوش سے کام لو گے؟ اگر ایسا کرو گے تو ان مسائل سے یقینی طور پر چھٹکارا حاصل کرسکو گے، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے تعلیم و صحت سمیت تمام بنیادی سہولیات حاصل کرسکو گے۔ اگر نہیں، تو پھر یہی گندگی اور کچرے کے ڈھیر تمہارا مقدر رہیں گے۔“۔
۔”جنرل الیکشن ہورہے ہیں اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات۔۔۔ تو پھر نواب بھائی کو کیا ہوگیا ہے! یہ کیوں بے موسمی سیاسی پنڈال سجائے بیٹھے ہیں؟“۔
۔”یہ نواب بھائی ہیں، جو من آئے کر گزرتے ہیں۔ بس موج میں لگے ہوئے ہیں۔ شاید انہیں لیڈر بننے کا شوق ہے، تبھی تو آئے دن کوئی نہ کوئی پنچایت لگا کر رکھتے ہیں۔ تنبو، قناتیں لگوا کر سارے محلے کو اکٹھا کرنا اور ان کے لیے چائے پانی کا بندوبست کرنا مفت میں نہیں ہوتا، اتنا سب کچھ کرنے کے لیے اچھی خاصی رقم لگانی پڑتی ہے۔ ظاہر ہے جو بھی ایسا کرتا ہے کسی لالچ کے بغیر تھوڑی کرتا ہے۔ اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ یہی نواب بھائی کا بھی مشن ہوگا۔“۔
۔”ویسے یہ ڈراما خوب ہے، اچھا خاصا تھیٹر لگتا ہے۔ اپنا عثمان بھی وہیں تھا۔ یہ تو معقول آدمی ہے، یہ کیوں نواب بھائی کے گھیراؤ میں آگیا ہے! لگتا ہے کھابے کا چکر ہے، روٹیاں توڑنا تو اس کی پرانی عادت ہے، جہاں دیکھی تری، وہیں بچھا لی دری۔“۔
۔”ابے چپ کر، وہ یہیں آرہا ہے۔“۔
۔”کون؟“۔
۔”عثمان، اور کون!“۔
۔”اچھا ہے آنے دے، اس کی کلاس لیتا ہوں۔“۔
۔” آئیے آئیے عثمان صاحب، بڑے مزے آرہے ہیں، خوب نواب بھائی کا مال کھایا جارہاہے۔“۔
۔”کون سا مال؟ اور کون کھائے جارہا ہے؟“۔
۔”ابے نواب بھائی کی بے وقت کی راگنی سننے کے بعد جو مال کھایا ہے اُس کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔“۔
۔”تم دونوں بھی تو وہیں تھے، جو تم نے کھایا ہوگا وہی میں نے چکھ لیا۔“
”ہم تو آدھا فلسفہ سن کر ہی چلے آئے تھے، تُو ہی جم کر بیٹھا ہوا تھا، نہ جانے کیا کیا بولے جارہے تھے نواب بھائی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت بڑے لیڈر ہوں۔ فضول گفتگو، بے کار باتوں اور خودنمائی کے سوا مجھے تو وہاں کچھ دکھائی نہیں دیا۔ لگتا ہے یہ نفسیاتی مریض ہوگئے ہیں۔“۔
۔”پہلی بات تو یہ ہے کہ حقائق بیان کرنے کا کوئی خاص وقت نہیں ہوتا، یہ کبھی بھی اور کسی بھی جگہ بیان کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے نواب بھائی کی باتیں بے وقت کی راگنی نہیں۔ اوردوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے جو تمہارے پاس نہیں، لہٰذا سر کھپانے سے بہتر ہے کہ تم خاموش ہی رہو۔“۔
۔”سیاست کو ہم بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں، ہم نے بھی ایک عرصہ سیاست سیاست ہی کھیلا ہے، ہم جانتے ہیں اس طرح کے پنڈال سجانے کا مقصد اپنا سیاسی قد بڑھانا ہوتا ہے۔ چار آدمیوں کو بٹھا کر واعظ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور پھر نواب بھائی اور ان کی پارٹی میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ ایک چھوٹا سا بھی مسئلہ حل کروا سکیں۔ مسائل تو شہر سے مینڈیٹ لینے والے ہی حل کروا سکتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان کا ہی ساتھ دینا چاہیے جن کے پاس مینڈیٹ ہو۔“۔
۔”جس پارٹی کی تم بات کررہے ہو اُس کی وکالت کرنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، ماضی میں جھانک لو۔ اگر تمہاری یادداشت کمزور ہوچکی ہے تو میں بتادیتا ہوں، مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ وقت، جب تمہاری چہیتی جماعت نے پہلی مرتبہ انتخابی میدان میں قدم رکھا، اور بلدیاتی انتخابات کے دوران ووٹ حاصل کرنے کے لیے لکھ کر دیے گئے اس پہلے انتخابی منشور کو کون بھلا سکتا ہے جسے شہر بھر میں پڑھ پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ اس الیکشن کے دوران کی جانے والی تقریروں کا ایک ایک حرف میرے کانوں میں اب بھی گونجتا ہے، مجھے سب یاد ہے۔ مجھے یاد ہے کراچی کے عوام سے کہا گیا تھا کہ نہیں چاہئیں ہمیں ایسے پارک جہاں ہمارے ہی بیٹھنے پر پابندی ہو، نہیں چاہئیں ہمیں ایسی روشنیاں جن میں تاک تاک کر ہمارے ہی نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہو، نہیں چاہئیں ہمیں ایسی کشادہ سڑکیں جن پر دوڑتی منی بسیں ہماری بچیوں کو کچلتی پھریں، نہیں چاہئیں ایسے ادارے جہاں ہمارے ہی بزرگوں کو چکر لگوائے جاتے ہوں، نہیں چاہیے ایسی پولیس جو ہمارے بچوں کو ہی پابندِ سلاسل کرے۔ اور تو اور کوٹہ سسٹم، بےروزگاری، تعلیمی اداروں میں میرٹ کے قتل، اپنے انڈسٹریل زون سمیت تمام حقوق حاصل کرنے کی جنگ کا اعلان تمہاری ہی جماعت نے کیا تھا۔ تو کیا یہ سب کچھ حاصل کرلیا گیا؟ کیا حقوق مل گئے؟ کیا پولیس میں اصلاحات کرلی گئیں۔ سب چھوڑو، صرف کوٹہ سسٹم کے بارے میں بتاؤ۔ جام صادق علی کے دور میں ختم ہونے والے کوٹہ سسٹم کو 20 سال کے لیے کس نے بڑھایا؟۔
سنو، میں پھر یاد کرواتا ہوں، تمہاری جماعت نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہا تھا سڑکیں نہیں چاہئیں، روشنیاں نہیں چاہئیں، پارک نہیں چاہئیں، صرف حقوق چاہئیں۔ جو چیزیں نہیں چاہیے تھیں ان کو حاصل کرنے کے لیے وہ کیوں کر جدوجہد کرتے! اور جو چاہیے تھا یعنی مال و دولت، پلاٹ پرمٹ، اور دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی شہریت۔۔۔ وہ سب کچھ انہوں نے عوام کے جذبات ابھار کر حاصل کرلیا۔ یک نہ شد دو شد دوسرے فریق کی تو بات ہی نرالی تھی۔ ایک اگر کراچی کو حقوق دلوانے کا دعویدار تھا تو دوسرا اندرون سندھ ہاتھوں میں علَمِ شہادت لیے ”زندہ ہے لیڈر زندہ ہے“ کے نعرے لگا کر دھرتی سے وفاداری کے حلف لیتا رہا۔ نتیجتاً صوبہ سندھ لسانی طور پر دیہی اور شہری حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اب یہ شہر اُن کا نہیں میرا ہے۔ مسئلہ اُن کا نہیں میرا ہے۔ پانی میرے گھر نہیں آتا، سیوریج سسٹم میرے علاقے کا بوسیدہ ہوچکا ہے، کچرے کے پہاڑ میرے محلے میں کھڑے ہیں، سڑکیں میرے شہر کی تباہ ہوچکی ہیں، ٹرانسپورٹ کے لیے میں دھکے کھاتا ہوں، تعلیم و صحت میرے لیے ناپید ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری سے میں نبردآزما ہوں۔ ایسی صورت میں اگر نواب بھائی اور اُن کی جماعت کوئی حوصلہ افزا بات کریں تو وہ بھی نہ سنو؟ کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے، گڑ نہ دو گڑ جیسی بات تو کردو۔ اپنے دل کو تسلی دینے اور عوام کو دلاسا دینے کے لیے ہی سہی، نواب بھائی اگر کوئی بات کرتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے! اور پھر کون نہیں جانتا کہ اُن کی جماعت ہوائی باتیں کرنے اور لوگوں کو سہانے خواب دکھانے پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ عمل کرنے والے لوگ ہیں، شہر کی ترقیاتی تاریخ گواہ ہے کہ انہی کی جماعت نے یہاں کا انفرااسٹرکچر تعمیر کیا، پینے کے صاف پانی کے تمام منصوبوں کی تکمیل انہی کا کارنامہ ہے، کشادہ سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ، تعیلم و صحت کے ادارے انہی کی جانب سے دیے گئے تحفے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اتنا کچھ سننے کے بعد تمہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے ذمہ دار کون ہیں، کون ہے جس نے یہاں کا امن و سکون غارت کیا۔ تم مانو یا نہ مانو، لیکن حقائق یہی ہیں اور یہی کراچی کی تاریخ ہے۔“۔

حصہ