اندھیاروں کا مسکن

656

’’ہیلو ہیلو۔‘‘
’’جی کون؟‘‘
’’میں عاطف۔‘‘
’’کون عاطف؟‘‘
’’یار، عاطف لاہوریہ۔‘‘
’’اوہو کیا حال ہے بھائی! آج ہمیں کیسے یاد کرلیا!‘‘
’’بھائی جان بڑی مشکل سے تمہارا نمبر ملا ہے۔ پچھلے سال جب پاکستان آیا تھا اُس وقت بھی تم سے بات کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔ یہ تو کاشف نے نمبر دیا تو جناب سے بات بھی ہوگئی۔‘‘
’’اچھا یار بہت شکریہ تم نے مجھے یاد رکھا۔ کیا پاکستان آئے ہوئے ہو؟‘‘
’’نہیں، ابھی تو نہیں آیا، اگلے مہینے کا پروگرام ہے۔‘‘
’’اور سناؤ کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’بہت اچھی گزر رہی ہے۔ آج کل چھٹیاں ہونے کی وجہ سے سارا دن گھر میں رہ کرموسم کے مزے لے رہا ہوں۔‘‘
’’اچھی بات ہے، خوش رہو، مزے کرو۔‘‘
’’ہاں یار! بس انجوائے ہی کررہا ہوں۔ یہاں کے موسم کی تو بات ہی نرالی ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں میں جانتا ہوں کہ ساری دنیا کے عوام موسموں کو انجوائے کیاکرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی ایسے شہر ہیں جہاں کے رہنے والے بدلتے موسموں کے بکھرتے رنگوں سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن یہ سب ہماری قسمت میں کہاں!‘‘
’’کیوں، تم موسم انجوائے نہیں کرتے؟‘‘
’’نہیں بھائی، مسائل اور پریشانیاں جان چھوڑیں تو کچھ کریں۔‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’میں نے کہا کہ ہماری ایسی قسمت کہاں! کراچی والوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں خدا کی جانب سے عطا کردہ نعمتیں بھی حکمرانوں اور سرکاری محکموں کی نااہلی کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کے لیے زحمت بن چکی ہیں۔‘‘
’’یار! تمہاری باتوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تم انتہائی دل برداشتہ ہوچکے ہو۔‘‘
’’دل برداشتہ تو بہت چھوٹی چیز ہے، میں تو حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی اذیتوں کے نتیجے میں ٹوٹ چکا ہوں۔‘‘
’’اب ایسا تو نہ کہو، اگر کوئی مسئلہ یا پریشانی آجائے تو گھبراتے نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کیا کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجاتا ہے۔‘‘
’’خاک ٹھیک ہوجائے گا! تم اِس شہر میں نہیں رہتے۔ پہلے بھی لاہور میں رہتے تھے، اس لیے تمہیں یہاں کے مسائل کی کیا خبر! یہاں بسنے والوں پر ہر آنے والے دن کے ساتھ ایک نیا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے۔ اب گزشتہ ہفتے ہونے والی بارش کو ہی لے لو جس نے منٹوں میں کے الیکٹرک کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ شہر میں بوندا باندی کیا شروع ہوئی، کے الیکٹرک کے متعدد فیڈر ہی ٹرپ کرگئے، جس کے باعث بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی اور سارا شہر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بجلی کا یہ بریک ڈائون رات تقریباً 11 بجے ہوا، جس سے گارڈن، صدر، گلشن اقبال، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ، صفورا گوٹھ، سعدی ٹائون، لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل، ایئرپورٹ، کلفٹن، ڈیفنس، فیڈرل بی ایریا، رضویہ، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی، گلشن معمار، کھارادر سمیت متعدد علاقے متاثر ہوئے۔ بجلی کی بندش اور گرمی کے باعث شہریوں کو رات جاگ کر گزارنا پڑی، جبکہ اسکول جانے والے بچوں اور دفاتر جانے والے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
’’اس بدترین صورت حال میں کراچی کو بجلی فراہم کرنے والا ادارہ کیا کررہا تھا؟‘‘
’’اس محکمے کی تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ اس سارے معاملے میں کے الیکٹرک کی جانب سے وہی پرانا راگ الاپا گیا، وہی پرانا جھوٹ جو ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں، بولا گیا… یعنی بارش کے باعث متاثرہ فیڈر بحال کیے جاچکے ہیں، حفاظتی اقدامات کے تحت کچھ علاقوں میں بجلی عارضی طور پر بند کی گئی ہے، ہماری ٹیمیں بارش سے متاثرہ علاقوں میں بجلی کی بحالی کا کام کررہی ہیں، ہم تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں، عوام اپنی شکایات کے الیکٹرک کی جانب سے دیے گئے نمبروں پر درج کروائیں۔ بس اسی قسم کی جھوٹی تسلیاں دے کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہا۔‘‘
’’اتنا کچھ ہوجانے پر اربابِ اختیار یا اعلیٰ حکام نے اس محکمے کے خلاف ضرور کارروائی کی ہوگی، کیونکہ میں جس ملک میں رہتا ہوں یہاں اوّل تو بجلی جاتی نہیں ہے، اگر کبھی کوئی ایسا فالٹ آجائے جس کے باعث بجلی کی فراہمی منقطع ہوجائے، تو متعلقہ محکمے کے خلاف نہ صرف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے، بلکہ اس قسم کی شکایات پر جرمانے تک کیے جاتے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک سب ملے ہوئے ہیں۔ حکمران ٹولہ اپنے بینک بیلنس بڑھانے میں مصروف رہتا ہے، اور ادارے کے اعلیٰ حکام اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں، جس کی مرضی میں جو آئے وہ کرتا ہے۔‘‘
’’تمہاری بات سن کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہاں اب قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جب میں پاکستان میں رہتا تھا تو ایسے حالات نہ تھے، نہ ہی کسی ادارے سے متعلق عوامی شکایات تھیں۔ اتنی جلدی حالات کا یکسر تبدیل ہوجانا بھلا کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’حالات یکسر تبدیل نہیں ہوئے، بلکہ اس محکمے میں بتدریج کرپشن بڑھتی گئی۔ کے الیکٹرک نے نہ صرف شہر کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے بلکہ یہ محکمہ مختلف طریقوں سے عوام کو مسلسل لوٹ رہا ہے، مثلاً یک دم میٹر تبدیل کیے جانے لگے، اس سے ہوا یہ کہ نئے میٹر پچھلے میٹروں سے پچیس سے تیس فیصد زیادہ تیز چلتے ہیں۔ اصول یہ رائج ہے کہ سلیب تبدیل ہونے پر یونٹ چارجز بدل جاتے ہیں۔ یعنی اگر تین سو یونٹ تک دس روپے بیس پیسے فی یونٹ ہے، تو تین سو ایک یونٹ ہوتے ہی پندرہ روپے پینتالیس پیسے چارج کیے جاتے ہیں، اور سات سو یونٹ تک یہی چارجز ہوتے ہیں۔ پھر سات سو ایک یونٹ ہوتے ہی سترہ روپے تینتیس پیسے چارج کیے جاتے ہیں۔ کے الیکٹرک والے کرتے یہ ہیں کہ جب بل تیار کیا جاتا ہے تو جس کے 280، 290 یونٹ بنتے ہیں، وہ ازخود 305، 315یونٹ کردیتے ہیں۔ اس طرح صارفین سے دس روپے بیس پیسے فی یونٹ کے بجائے پندرہ روپے پینتالیس پیسے فی یونٹ چارج کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جس کے سات سو یونٹ سے کم ہوتے ہیں اس کے یونٹ بھی خود بڑھاکر زائد پیسے وصول کرتے ہیں۔ میٹر ریڈنگ کے 10 سے 15 دن بعد بل آتا ہے، جب تک آدھا مہینہ گزر چکا ہوتا ہے۔ کے الیکٹرک اس بات کی پابند ہے کہ وہ صارفین کو فلٹر ہوئی بجلی فراہم کرے جو نقصانات سے بچاتی ہے۔ لیکن ہوتا برعکس ہی ہے، کراچی کے شہریوں کو کبھی 220 وولٹ فراہم نہیں کیے جاتے، نہ ہی فلٹر کی ہوئی بجلی فراہم کی جاتی ہے، جس کا نقصان صارفین کو اس صورت میں اٹھانا پڑتا ہے کہ جب دوسوبیس وولٹ سے کم آتے ہیں تو اس کے ’’امپیئر‘‘ بڑھ جاتے ہیں۔ جب امپیئر بڑھ جاتے ہیں تو واٹ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ اگر وولٹ 220 ہو، ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور مسلسل ایک گھنٹہ بجلی چلے تو ایک یونٹ بنتا ہے، اسی طرح اگر وولٹ 180 ہو، ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور ایک گھنٹہ مسلسل چلے تو ڈیڑھ یونٹ بنتا ہے، یعنی پانچ سو واٹ بجلی زیادہ استعمال ہوئی۔ یہ چونکہ تکنیکی مسئلہ ہے، اس لیے عام آدمی کا اس جانب ذہن ہی نہیں جاتا۔ نئے میٹر کے لیے صارفین ڈیمانڈ نوٹ کے ساتھ جوپیسے بینک میں جمع کراتے ہیں، اُس میں صارفین سے مین لائن سے میٹر تک آنے والا جو وائر استعمال ہونا ہے اُس کے پیسے لیے جاتے ہیں، اور وہ پیسے کاپر وائر کے لیے جاتے ہیں، مگر سلور وائر لگایا جاتا ہے۔ اس طرح کے الیکٹرک صرف میٹر تبدیل نہیں کرتا، بلکہ جو کاپر وائر ڈالا ہوا ہوتا ہے اس کو بھی سلور وائر سے تبدیل کردیتا ہے۔ بس اسی ڈھنگ سے کرپشن اور لوٹ مار کی جا رہی ہے۔‘‘
’’بہت نا انصافی ہے بلکہ ظلم کی انتہا ہے،کسی بھی سرکاری ادارے کا عوام کو سہولتیں دینے کے بجائے تنگ کرنا لمحہ فکریہ ہے سب سے بڑھ کر ساری صورت حال میں حکمرانوں کی خاموشی انہتائی زیادتی ہے‘‘
’’زیادتیوں کا مت پوچھ سچ تو یہ ہے کہ ہر محکمہ کرپٹ ہو چکا ہے کوئی پرسان حال نہیں لوگ اپنی جائز ضروریات کے لیے بھی دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں تعلیم،صحت سمیت بنیادی سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں معاشرہ تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے امیر،امیر ترجبکہ متوسط طبقہ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے سرکاری دفاتر میں بیٹھے افسران جاگیردار اور وڈیرے بنے ہوئے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے شہر کا انفراسٹرکچر تباہ ہو کر رہ گیا ہے صوبائی و بلدیاتی ادارے اختیارات حاصل کرنے کی جنگ میں مصروف ہیں اس صورت حال میں عوام جائیں تو جائیں کہاں!کراچی کی عوام روز مرتے رہے روز جیتے ہیں، بس یہی دعا ہے کہ خدا اس شہر پر اپنارحم فرمائے۔‘‘
’’بس کردے یار تیری باتیں سن کر میں بھی یہی کہتا ہوں ہوں کہ خدا ہمارے ملک کے حکمرانوں کو نیک ہدایت دے اور شہر کراچی پر رحم فرمائے۔‘‘

روشنیوں کا شہر کبھی جو تھا زاہد
آج اندھیروں کا مسکن کہلاتا ہے

حصہ