(حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟(شمیمہ خاتون

280

آج باپ کا سایہ میرے سر پر نہیں۔ ہم ناتواں، اپنی معاشی طور پر ناتواں اماں کی بیٹیاں جو شرم و حیا اور حجاب کے تقدس کے سائے تلے جوان ہوئیں، جب بیٹا بن کر دہلیز پار کی تو باہر کی دنیا نے دل و دماغ کو سُن کرکے رکھ دیا۔
آفس کا ماحول اپنے اطراف رنگ و بو کا سیلاب لیے ہوئے تھا۔ آفس کی ساتھی خواتین شانے تک لہراتے بال لیے اور چہرے کو میک اپ کے ذریعے خوش شکل بنانے کی کوشش میں اس بات کا اظہار کررہی تھیں کہ اس آفس کے اصول و ضوابط میں یہ سب شامل ہے۔
ادھر میڈیا کا حال احوال تو اور بھی آزادانہ۔۔۔ پھر بھی سوچا کہ خبروں کے شعبے میں نقاب نہ سہی حجاب کے ساتھ تو جگہ دے دیں گے۔ لیکن وہاں بھی حیا نے اتنی ترقی کرلی کہ بے حیائی اور عورت کو لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا۔
خیر ہمت نہ ہاری۔ بہن کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے تحفظ اور تقدس کی علامت درس گاہ کی طرف رُخ کیا۔ لیکن افسوس صد افسوس جو کچھ سنا تھا آنکھیں تو اس کے برعکس دیکھ رہی تھیں۔ مخصوص اسکولوں کے ضابطے اور اصولوں کے تحت چلنے والے وہ اسکول جہاں اسکارف پہننے پر پابندی تو تھی ہی، بالوں کی کٹنگ سے لے کر ٹائٹس تک۔۔۔ O اور A لیول کے بچوں پر تعلیم یافتہ ٹیچر ہونے کا معیار بنادیا گیا۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ حیا خیر لاتی ہے اور بے حیائی شر۔۔۔ مجھ پر یہ حقیقت اچھی طرح آشکار ہوگئی کہ ایمان کی قدر و منزلت کی راہ میں حجاب رکاوٹ نہیں۔ ہاں ایسے معاشرے کے لیے جہاں ترقی کے معنی و مفہوم کچھ اور لیے جاتے ہوں، حجاب واقعی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
ہمارے نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستانی معاشرے میں جہاں کی اقدارو روایات اور ثقافت کی ڈور اغیار کے ہاتھوں میں ہے، ترقی کے وہ معنی پوشیدہ ہیں کہ آپ بھی سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
جی ہاں! جہاں بے پردگی، فحاشی، بے حجابی اور عریانی و بے باکی کو ترقی کا معیار سمجھا جاتا ہو وہاں ترقی کے راستے میں پردہ ہمیشہ سے رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔
حجاب ایسے معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے جہاں ماڈل گرلز، اداکارائیں، گلوکارائیں اور مارننگ شوز کی میزبان معاشرے کا آئیڈیل ہوں۔۔۔ جہاں ترقی کے نام پر عورتیں ہوٹلوں، شاپنگ مالز اور بینکوں کے کاؤنٹر پر اپنی مسکراہٹیں فروخت کرتی ہوں۔۔۔ جہاں عورت کو صلاحیت کے بجائے اس کی بے حجابی میں تولنے کا فن آتا ہو۔
یہی نہیں۔۔۔ اس نام نہاد ترقی پر، عورت کی آزادی کے نام پر اس سے چار دیواری کا تحفظ چھین لیا جاتا ہو، تو کہیں عورت کو اسٹیج کی زینت بناکر اس کی ادائے دلبرانہ سے لطف لینے کا طریقہ، تو دوسری طرف عورت سے اس کی نسوانیت چھین کر اس کو مرد کے برابر کھڑا کرنے کا۔۔۔ اگر یہ دلیل یا سچائی ہے تو مجھے اور آپ کو اس معاشرے کی سوچ اور افراد کے نظریات و خیالات کو بدلنا ہوگا۔
دینی نظریاتی جنگ کا انقلاب لانا ہوگا۔۔۔ سوئے ہوئے مسلمان کو جگانا ہوگا اور ایک داعی کی حیثیت سے شعور بیدار کرنا ہوگا۔۔۔ کیونکہ ہم اپنی اسلامی اقدار و روایات کو پیچھے دھکیل کر ایسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں جس میں اپنی شناخت، اپنے ہی ہاتھوں کھو رہے ہیں۔۔۔ ذرا سوچیے۔
nn

حصہ