(دامن میں جس کے ایک بھی تار وفا نہیں(بنتِ زہرہ

314

’’اس نے میرے ہاتھوں پر مہندی لگائی، جب میں نے چارجز پوچھے تو اس نے لینے سے صاف انکار کردیا۔۔۔ میرے اصرار پر بولی کہ نہیں اب نہیں پھر حساب برابر کرلوں گی، شاید زیادہ ہی وصول کرلوں۔۔۔ میں نے سادہ سے انداز میں سادہ سی بات سمجھی تھی کہ شاید وہ اپنی شادی پر بھاری گفٹ لینے کی بات کررہی ہے۔ اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس نے چارجز اتنے زیادہ وصول کیے کہ کوئی شمار نہ تھا۔
یہ چارجز (معاوضہ) کیا تھے ایک قیامت تھی جو مجھ پر کچھ اس طرح ٹوٹی کہ ہر دن آج برسوں بعد بھی پہلا ہی دن ہے۔ میں چاروں شانے چت گری تھی۔ اعتماد، بھروسے، اپنائیت، میری چار دیواری، میرا مان سب ہی کا خون ہوچکا تھا۔۔۔ ساتوں آسمان گر پڑے تھے۔۔۔ مگر بظاہر سب ترتیب سے تھا۔
لوگ کہہ رہے تھے کہ ایک باب ختم ہوا۔ مگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کتنے باب تھے جو ہر طرف کھل رہے تھے۔۔۔ کسمپرسی کے، بے بسی کے، بے یقینی کے اور تباہی در تباہی کے۔ ہر جانب اندھیرے جنگلوں کی وحشت تھی۔ زندگی اتنی بھی بھیانک ہونی تھی! یہ سب کیا ہوگیا تھا۔۔۔ کیوں مگر کیوں۔۔۔؟
مگر یہ سب حقیقت تھی، زندہ حقیقت۔۔۔ مگر کتنی بھیانک۔ کیا ہی کوئی خواب اتنا بھیانک ہوگا۔ میں جو اپنا سب کچھ اُس پر وار چکی تھی، اُس کی زندگی میں کہیں تھی ہی نہیں، کہیں بھی نہیں۔
اب اس زہریلی حقیقت کے ساتھ مرمر کے جینا تھا۔ کلیجہ جو پہلے ہی زخمی تھا، غم سے پھٹا جارہا تھا اور آہ کی صورت کئی سوال ابھر رہے تھے، تڑپتے ہوئے سچے سوال۔۔۔ کیا وہ مجھ سے اتنی شدید نفرت کرتا تھا؟ بلکہ کیا کوئی مرد کسی عورت سے جو اُس کی زندگی میں آئے، اتنی نفرت کرسکتا ہے۔۔۔! مگر کیوں؟‘‘
صوفیہ دلگیر انداز میں سسکتے ہوئے درشہوار کو اپنی کتھا سنا رہی تھی۔ وہ تجسس، حیرت اور غم کے ملے جلے انداز میں اپنی بچھڑی دوست کی باتیں سن رہی تھی جو چند روز قبل اس کو اتفاقاً اُس کلینک میں ملی تھی جو گھر کے پاس ہی تھا۔
اس نے پہلی دو ملاقاتوں میں سرِراہ سرسری باتیں کیں اور اپنے شوہر کا تذکرہ گول کر گئی، مگر آج جب درشہوار کے اصرار پر اس کے گھر پہنچی تو گزرنے والی قیامت کا سارا ماجرا کہہ سنایا۔
اس کا شوہر کمال ایسا آزاد پنچھی تھا جو اُڑ چکا تھا، اب اس کا کچھ نہ تھا۔۔۔ مگر رستے ہوئے زخم، اندر باہر کی چوٹیں، ٹوٹ پھوٹ سب اُس کی نشانیاں اب صرف اس کی تھیں۔
مرد اور عورت کا ایک بندھن میں بندھ جانا کچھ اور ہی تقاضے کرتا ہے، اور دونوں طرف سے کرتا ہے۔ چند دنوں ہی میں کمال نے اس کو بتادیا کہ ’’نہ تم میری پسند ہو نہ ہی مجھے ناپسند، بس تم جتنی ہو اتنی رہو۔ ہاں مجھ پر پابندی لگانے کا، یہ سوال کرنے کا کہ میں کس سے ملوں یا نہ ملوں تم کو کوئی حق نہیں۔ میں مرد ہوں، پروفیشنل ہوں، دس عورتوں سے ملنا پڑتا ہے (مگر یہ تو صرف پروفیشنل حد تک ہوتا ہے)، اور سنو، کچھ رشتے کتابوں میں نہیں لکھے ہوتے، نہ خونیں نہ قانونی، مگر نبھانے پڑتے ہیں‘‘۔ مگر اس نے مرد کا یہ روپ کب دیکھا تھا! وقت پر گھر آنے والے ابو، بھائی، ماموں، چچا، تایا نے تو اپنے گھروں کی عورتوں کو اتنا حکم کی باندی بنا کر نہیں رکھا۔۔۔ اس کی ماں کے گھر میں باوجود باپ کے سخت روایتی انداز کے اس نے یہ مسئلہ کب دیکھا تھا! ابو، بھائی اور دیگر مرد اپنے کام سے کام رکھتے۔ امی، چچی، خالہ وغیرہ پردہ کرتیں، تو وہ بھی عورتوں سے کم آمیز رویہ رکھتے۔ ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال تو دور کی بات رہی، کوئی پڑوسن آنٹی یا ملنے والی آتیں تو ’’آئیے بھابھی‘‘، ’’آئیے بہن‘‘ کہہ کر احتراماً کنارہ کش ہوجاتے۔ اسے یہ انداز بڑا مہذب اور شائستہ لگتا۔ مگر یہ مرد ’’لبرل‘‘ ہونے کا دعویدار تھا جس کے اندر خودساختہ مذہب کا کٹھ ملا چھپا ہوا تھا اور وہ خالصتاً گھریلو لڑکی تھی۔ اس کی ماں بھی گھریلو عورت تھی سوائے اس کے کہ کپڑے سی کر کچھ اضافی اخراجات پورے کرلیے، بچت کرکے کمیٹی ڈال لی، یا اس نے گھر ہی میں ٹیوشن پڑھا کر کچھ اپنے اخراجات نکال لیے۔
کمال بے نام رشتوں کی بات کرتا تھا مگر صرف اپنے لیے۔ بالکل یکطرفہ لبرل۔
اس کی امی نے جہاں اس کو نصیحت کی تھی کہ خواہش تو ایک طرف، ضرورت کو بھی مار لینا۔۔۔ وہیں پر ان کی تاکید تھی کہ شوہر پر نظر رکھنا، اس کی نظر بھٹکنے نہ پائے، بس یہیں سے ساری ٹوٹ پھوٹ کی ابتدا ہوتی ہے، مرد کا کچھ بھروسا نہیں، کم از کم آج کے دور میں تو بالکل نہیں، لد گئے وہ زمانے جب مرد سخت تو ہوتے تھے مگر گھر اور گھر والی سے بالکل مخلص ہوتے تھے۔ مگر وہ نئے گھر میں آتے ہی کتنی بے بس کردی گئی تھی، کیسی غلامی تھی۔۔۔ اکیسویں صدی کے کمپیوٹرائزڈ دور کے لبرل مرد کی غلامی! وہ عجیب باتیں کرتا تھا جس میں اس کو گرانے کا پیغام پوشیدہ ہوتا، مثلاً ’’تم کو پتا ہے خالہ حمیدہ جو اماں کی چچازاد ہیں، ان کی بیٹی مونا نے میرے رشتے سے انکار کردیا تھا، دماغ ساتویں آسمان پر رہتا تھا، پھر دو سال پہلے اس کی شادی ہوئی، سال بھر تک اولاد کا نام و نشان تک نہ ہوا تو اب شوہر نے باہر جاکر دوسری شادی کرلی۔ بے چاری بانجھ ہے اور ماں کے گھر میں رہتی ہے، مگر رسّی جل گئی بل نہیں گیا، میں بھی رشتے داری کی وجہ سے چلا جاتا ہوں، مگر تمہیں لے جاکر ذلیل نہیں کرانا چاہتا۔‘‘
وہ اس کے دل میں عجیب سے واہموں کے بیج بوتا اور اپنی دہشت بٹھاتا جاتا۔
’’مگر اب ایسی بھی کیا رشتے داری۔۔۔ کزن، وہ بھی اتنی دور کی، آج کل سگے رشتوں کے لیے ٹائم نکالنا مشکل ہے یہ تو اتنی دور کی رشتے داری ہے، سیکنڈ کزن‘‘۔ وہ دلیل سے اس پیدا ہوتے واہمے کو ختم کرنا چاہتی تاکہ ان کی آپس میں کوئی تلخ بات نہ ہونے لگے۔
’’ہاں تم مجھ کو سکھانے کی کوشش مت کرنا۔۔۔ عورت مرد سے کم تر ہے، کم تر رہے گی۔ مجھ پر زیادہ رعب نہ ڈالو، سمجھیں‘‘۔ وہ یکدم دھاڑنے لگتا۔
’’مگر کون سی کم تر ہے؟ شریکِ سفر یا بے نام رشتے سے جڑی عورت۔۔۔؟‘‘ وہ تھوڑی جرأت سے کہتی۔
’’جرح مت کرو، میرے سامنے سیکرٹری یا پی اے بننے کی کوشش مت کرنا، گھریلو عورت گھریلو رہے تو اچھا ہے۔‘‘ حکم دیا جاتا۔
’’جی اچھا۔۔۔‘‘ وہ سہمی ہوئی جواب دیتی۔ اسی میں اس کی بہتری تھی۔ وہ من مار کر شاد رہنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ یہ لفظ ’من‘ جو کہ دل بھی ہے اور حرف بھی، ہر زاویے سے یہ دو حرفی لفظ مارنا اس کا سمجھوتا تھا۔ اس کی ماں نے بھی شوہر کی اطاعت اور خدمت کی تھی، مگر وہ کبھی باندی بن کر تو نہیں رہی تھی۔ یہ تو محبت اور اپنائیت کا رشتہ تھا، دونوں طرف ہنسی خوشی قربانیاں دی گئیں، نوک جھونک اور گلے شکوے بھی ہوتے۔ اور واقعی ہوتا بھی ایسے ہی ہے، ادھر تقاضا ہوتا ہے کہ عمر گزار دیجیے اور ادھر سر تسلیم خم کرتے ہوئے عمر گزار دی جاتی ہے۔ کوئی نقصان، کوئی خسارہ ذرا سا بھی نہیں لگتا۔ مگر انسان کی بندی بننا کتنا بے بس کردینے والا عمل ہے۔
لیکن اسی پر بس نہیں تھا، ساری دنیا کو اس بے بس قید کا پتا بھی نہیں چلنا چاہیے۔ یوں دنیا دکھاوے کو لبرل ہونے کی پالش ہوتی اور اندرون خانہ ایک عجیب قانون نافذ ہوتا۔ کمال اس کے کمالِ ضبط کو آزمانے لگا اور اس کو سمجھوتا کرنا تھا۔ کمال کا سمجھوتا یا کمال سے سمجھوتا۔۔۔ ایک ہی بات تھی جیسے۔
صوفیہ کو میکے والے تسلی دیتے تھے کہ چلو یہ امتحان کے دن سمجھ کر گزار لو، ذرا سی آزمائش میں پورا اترو گی تو آپس کا اعتماد بحال ہوجائے گا، پھر اللہ کرم کرے گا، خوش خبری آجائے تو بس پھر سنبھل جائے گا، اپنا بچہ ہوتا ہی ایسی چیز ہے، نعمتِ غیر مترقبہ۔ مگر صوفیہ بتا نہیں سکتی تھی کہ کمال اس سلسلے میں کیا کہتا تھا، کتنا منفرد تھا وہ اور مردوں سے ’’ابھی تم میرے سانچے میں تو ڈھلو، ساتھ دو، ابھی ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ ہولیں۔‘‘ مگر ادھر جان کی امان پا کر عرض کیا جاتا کہ ’’وہ تو خود ہمارے بندھن کو مضبوط کرکے ایڈجسٹمنٹ کا سامان بنتا جائے گا۔ گھر میں کتنی رونق ہوگی معصوم فرشتے سے۔ کم از کم دو یا پھر چلیں ایک ہی سہی‘‘۔ وہ التجائیہ انداز میں کہتی۔
’’پھر وہی بحث۔۔۔ ارے میں تم کو کیسے بتاؤں کہ ابھی میں یہ جھمیلے برداشت نہیں کرسکتا، لائف اور سیٹ ہوجائے پھر۔ فی الحال پاؤں میں کوئی زنجیر نہ ہی پڑے تو اچھا ہے۔‘‘
’’اچھا، تو آپ بے نام رشتوں کو اہم بتاتے ہیں اور اپنے بچے کو پاؤں کی زنجیر کہہ رہے ہیں! یاد رکھیے اس کے بغیر آپ کی لائف کبھی سیٹ نہیں ہوسکتی‘‘۔ وہ سسکیوں کے ساتھ رو رہی تھی اور ڈرتے ڈرتے غصہ بھی نکالنے لگی۔
’’بس کرو، اور خبردار میری اس خواہش کی بھنک بھی کسی کے کانوں میں نہ پڑے۔‘‘
(جاری ہے)

حصہ