(عورتوں سے تشبّہ کرنے والے مرد اور مردوں سے تشبّہ کرنے والی عورتیں ہم میں سے نہیں(پروفیسر عبدالحمید ڈار

269

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو جس میں ہم رہتے ہیں، تخلیق فرمایا اور بڑے احسن طریقے پر تخلیق فرمایا۔ تخلیقِ کائنات کے اس منصوبے میں جو چیز بھی پائی جاتی ہے اور جس شکل و صورت میں پائی جاتی ہے وہ کسی عظیم تر مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ کوئی چیز ادنیٰ ہو یا اعلیٰ، اُس کو اُس کے مرتبے و مقام سے ہٹا دینے یا اُس کی شکل و ہیئت کو بدل دینے سے نظام کائنات میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر چاند، سورج اور ستارے وغیرہ اگر اپنے مدار سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر ہوجائیں تو یہ پورا کرۂ عالم درہم برہم اور فنا ہوکر رہ جائے گا۔
اس کائنات میں انسان اللہ رب العزت کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ اس نے اسے یہاں اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر بھیجا ہے تا کہ وہ روئے زمین پر اس کے احکامات کی تنفیذ کرے اور اس کے فرامین کو اطاعت و فرماں برداری سے بجا لائے۔ کائنات کے اندر پائی جانے والی دیگر مخلوقات کی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی نوع کو بھی جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ ایک مرد اور عورت، یہ دونوں اگرچہ نوع انسانی کے فرد ہونے کے اعتبار سے یکساں ہیں مگر دونوں میں کئی پہلوؤں سے اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ دونوں کی جسمانی ساخت، نفسی و ذہنی اوصاف اورجذبات و داعیات میں محسوس ہونے والا فرق نظر آتا ہے۔ اس فرق و اختلاف کے باوجود خالق نے ان کے درمیان جذب و انجذاب اور باہمی کشش کا ایک فطری داعیہ رکھ دیا ہے جو ایک گھر یا خاندان کی تاسیس کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ دونوں فریق اپنے اپنے مزاج اور نفسی میلانات کے مطابق اس خاندان کی تعمیر و ترقی کے کٹھن کام کی انجام دہی میں منہمک ہوجاتے ہیں۔ عورت گھر در کی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہے اور پرورشِ اطفال کے فریضے کو سینے سے لگا لیتی ہے، جب کہ مرد اس گھر کی عزت و آبرو کی نگہبانی کے ساتھ ساتھ اس کی ضروریات کی کفالت کے سامان کی فراہمی کے لیے میدانِ عمل میں باہر نکل جاتا ہے۔ عورت اور مرد کے فرائض کی اس فطری تقسیم کے ذریعے خاندان کا نظام بڑے حسن و خوبی سے چلتا رہتاہے۔
نسلِ انسانی کی بقا، ایک صالح تمدن کے ظہور اور نشوونما کا یہ فطری راستہ ہے جس کی تعلیم اور ہدایت قرآن پاک اور نبی مکرمؐ نے دی ہے۔ اس طرزِ زندگی کو چھوڑ کر اگر مرد اپنے دائرۂ کار سے نکل کر عورت کے دائرۂ کار میں کود جائے اور عورت مرد کے اندازِ زندگی اور طور طریقوں کو اپنانے کو اپنا آئیڈیل بنا لے تو بقائے نسل اور انسانی تمدن کی ترقی کے کام میں خلل پیدا ہوجائے گا۔ مرد نازک اندام بن کر ہاتھوں میں چوڑیاں ڈالے، بناؤ سنگھار کرکے گھر بیٹھ جائے اور عورت گھر کے حصن (قلعہ) سے نکل کر مردوں کی سی وضع قطع، بالوں اور لباس کی تراش خراش، حرکات و سکنات، چال ڈھال اور بول کلام کے طریقے اپنا کر دکانوں، دفتروں، کلبوں، قہوہ خانوں، کارخانوں اور اشتہاری دنیا کے نگار خانوں کی زینت بن جائے یا سیاست کے ایوانوں میں گھس جائے تو اس سے مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کی جو فضا پیدا ہوگی اس کے بطن سے خیر کے بجائے فحاشی، بے حیائی اور بدکرداری کے عفریت ہی جنم لیں گے جن کے شر سے خاندانی نظام تباہی و بربادی سے دوچار ہوگا، اور یوں انسانی تمدن کو جِلا دینے والے اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل کارکن فراہم کرنے والے سب سے اہم سرچشمہ کے سوتے سوکھ کر رہ جائیں گے۔ اولاد کو مہر ومحبت کا امرت رس مہیا کرنے والی رگیں مُردہ اور تربیت کے جوہر سے آراستہ کرنے والی گود کے گہوارے کی ڈوریاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گی اور معاشرہ سنگ دلی، خودغرضی اور لوٹ کھسوٹ کی لپیٹ میں آجائے گا۔ انسانی جان اور عزت و آبرو بے وقعت ہوجائے گی۔ ذاتی اور قومی مفادات کے ٹکراؤ سے جنگ و جدل کا بازار ہر وقت گرم رہے گا۔ مادی آسائشات ولذات کا حصول ہی زندگی کا واحد نصب العین بن جائے گا۔ اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار دم توڑ دیں گی۔ شہوانی ماحول کی بدبو ہر سو پھیل جائے گی جو ذہن و شعور کی اعلیٰ صلاحیتوں کو ماؤف کرکے اسے فتنہ و فساد کی راہ پر ڈال دے گی۔ اس فضا میں خیر کی قوتیں دبیں گی اور شر کی قوتوں کو فروغ حاصل ہوگا۔
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، اس نے انسان کو ایک ایسا نظام زندگی عطا کیا ہے جس کے ذریعے انسان حقیقی سکون سے ہمکنار ہوکر اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبئ رحمت ہیں۔ انہوں نے امن و سلامتی کی گاڑی کو پٹری سے اتارنے والے انسانوں کی پُرزور الفاظ میں مذمت کی ہے اور ان سے اپنی برأت کا اعلان و اظہار فرمایا ہے۔ عورت اور مرد کے اپنی فطری ساخت پر قائم رہنے سے ہی یہ دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
اگر صنفین ایک دوسرے کے تشبّہ یعنی اندازِ زندگی میں مشابہت و مماثلت کو اپنا معمول بنا لیں تو معاشرے کا فطری توازن اور اعتدال مختل ہوجاتاہے۔ انسانی تمدن کی ترقی کی راہ رک جاتی ہے اور معاشرہ ذلت و زوال کے گرداب میں گر جاتا ہے۔ انسان کو اس کی فطری ساخت سے ہٹانے اور اس میں تغیر پر اسے آمادہ کرنے کے چیلنج کا اعلان شیطانِ لعین نے اللہ رب العزت کے سامنے کیا تھا۔ تشبہ اس فطری ساخت میں تغیر کی ایک بدترین شکل ہے۔ یہ ایک شیطانی جال اور چال ہے۔ اس چال کے اسیر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا تعلق اور واسطہ؟ اللہ تعالیٰ اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق عطا فرمائے اور تشبہ کے وبال سے ہمیں محفوظ رکھے۔ (آمین)
nn

حصہ