(عہد رسالت میں مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل(پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد

4029

عہد رسالت میں مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیلپروفیسر ڈاکٹر نثار احمد
سابق صدر شعبہ اسلامی تاریخ کراچی یونیورسٹی
اس دنیا میں انسان، انسانی قافلہ اور انسانی معاشرہ ازل سے چلا آرہا ہے اور نہیں معلوم کہ کب تک چلتا رہے گا۔ معاشرہ انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو کسی نہ کسی (مشترکہ) بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ علمِ سماجیات و معاشرت کی رو سے اگرچہ معاشرے کی بنیاد کچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن عام طور پر رنگ، نسل، خون، زبان، وطن وغیرہ کی بنیادیں زیادہ معروف و مشہور ہیں۔ ان بنیادوں پر یا اس قسم کی دوسری کسی بنیاد پر معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے۔
اسلامی تاریخ و سِیَر کے حوالے سے بلکہ تاریخِ عالم کے پیش نظر دنیا کے تمام معاشروں سے ممتاز و ممیز مثالی معاشرہ صرف عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی وجود پذیر ہوا۔ اور پھر تہذیب و معاشرت اور فلاح و سعادت کی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوکر آئندہ آنے والے تمام زمانوں کے لیے مثال اور نمونہ قرار پایا۔
۔۔۔۔۔۔(1) ۔۔۔۔۔۔
حضور سید الانبیاء والمرسلین سرزمینِ عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں آج سے کوئی ڈیڑھ ہزار برس پہلے جلوہ فرما ہوئے، جہاں جاہلی مکی معاشرہ پہلے سے قائم تھا۔ وہاں سلطانی و حکمرانی کا اصل اختیار قبیلہ قریش کے پاس تھا اور ہر طرف ان ہی کی بات چلتی تھی۔ وہ ایک بھرپور معاشرہ تھا اور مختلف قسم کے لوگ وہاں آباد تھے۔ ملکی، غیرملکی، آزاد شہری، غلام لونڈی، طاقتور کمزور، امراء و غربا، تجّار و صنّاع، کاریگر، محنت کش مزدور وغیرہ۔ نیز قریش کے علاوہ دوسرے قبائل بھی مکہ مکرمہ میں سکونت پذیر تھے اور بعض عرب اور بدوی قبیلوں کی شاخیں اور ان سے جڑے مولیٰ حلیف وغیرہ بھی وہاں پائے جاتے تھے۔ مکہ مکرمہ کا سب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ وہاں خانۂ کعبہ، ’’اللہ کا مقدس گھر‘‘ موجود تھا، جو اپنی اصل و حقیقت میں تو واقعی اللہ کا گھر تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں بتوں کو رکھا جانے لگا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت 360 بتوں کی موجودگی کے سبب دنیا کا سب سے بڑا بت خانہ بن چکا تھا۔ بہرحال اُس مقدس گھر کے واقع ہونے کے سبب مکرمہ مکرمہ، خانۂ کعبہ اور قریش کی قدرومنزلت، اعزاز و احترام ہر ایک کے نزدیک تسلیم شدہ تھا۔ دنیا کے تمام خطوں، ملکوں اورحصوں سے زائرین دور دراز کی مسافتیں طے کرکے خانۂ کعبہ کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ خانۂ کعبہ کے مقدس گھرکی موجودگی اور زائرین کی آمد و رفت کے سلسلے میں انتظامات اور قیام و زیارت اور طعام اور قیام و سکونت کی ضروریات کے لیے سہولیات کی فراہمی اور باقاعدہ انتظامات کے سلسلے میں قریش کے مختلف خاندان و قبائل ذمہ دار تھے۔ علاوہ ازیں دیگر شہری انتظامات کے لیے بھی مختلف عہدے، مختلف شعبے اور ان کے ذمہ داران متعین تھے، جس کے نتیجے میں مکہ مکرمہ میں ایک قسم کی شہری مملکت، اشرافیہ، انتظامیہ اور اعانت قائم تھی جو پہلے پہل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّ امجد جناب قصی بن کلاب نے قائم کی تھی۔ اور جو موروثی طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی موجود تھی۔
اس صورتِ حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول کی حیثیت سے رہبر آدمیت و انسانیت بن کر آئے۔ آپؐ کی نبوت و رسالت جن و انس کے ہر طبقے کے لیے، بلکہ ہر عالم، ہر زمانے کے لیے ابدی، قطعی اور حتمی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک و جاہلیت کی فضاؤں میں خون، نسل، خاندان، زبان و وطن کی روایتی تمام بنیادوں کو ٹھکرا کر دین و ایمان کی بنیاد پر سب سے الگ ایک ایسا اسلامی معاشرہ قائم فرمایا جس کی بنیاد عقیدۂ توحید اور دین و ایمان پر استوار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کو روبہ عمل لانے کے لیے دعوتِ حق کا آغاز دعوتِ دین و ایمان سے کیا۔ بربنائے ایمان لوگوں کا جڑتے چلے جانا یہ معنی رکھتا تھا کہ ایک مجمع تشکیل پارہا تھا اور ایک نئے معاشرے کی داغ بیل حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کے ہاتھوں پڑرہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔(2) ۔۔۔۔۔۔
مکی جاہلی معاشرے کے پس منظر میں حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں جو معاشرہ وجود پذیر ہواوہ دین و ایمان کی بنیاد پر قائم ہوا، اور اسی لیے وہ دنیا کے تمام معاشروں سے بالکل مختلف تھا۔ کیونکہ محض ایک کلمۂ اسلام پڑھ کر ایک آدمی اس نوزائیدہ معاشرے کا رکن بن جاتا تھا خواہ اُس کی نسل، اُس کا خاندان، خون، اُس کا رنگ، اس کی زبان ، اس کا وطن کچھ بھی ہو اور سیاسی اورمعاشرتی لحاظ سے وہ کوئی بھی درجہ رکھتا ہو۔۔۔ محض ایمان کا اقرار ہی اس کی زندگی کی ظاہری و باطنی تبدیلی کا سبب بن جاتا تھا۔
دین و ایمان کی بنیاد پر استوار ہونے والا معاشرہ بہت جلد جڑ پکڑ گیا، یہاں تک کہ مکہ کے ہر خاندان، ہر قبیلے میں متفرق طور پر کوئی نہ کوئی شخص یا اشخاص دولتِ ایمان سے متعارف ہوچکے تھے، اس لیے پورے شہر میں اسلام کا چرچا ہوچکا تھا اور کوئی خاندان، قبیلہ ایسا نہ بچا تھا جہاں ایمان کی شمع روشن نہ ہوچکی ہو۔ اسی لیے کفار و مشرکین کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے بڑا الزام ہی یہ تھا کہ انہوں نے اپنی دعوت سے قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے اور ملک و ملت میں نفرت کا بیج بو دیا ہے۔ ہمارے وہ سیرت نگار جنہوں نے السابقون الاولون اور دیگر اہلِ ایمان کو شمار کیا ہے، بتاتے ہیں کہ ابتدائی تین سالوں میں ہی مختلف خاندان اور قبیلوں کے 200 سے زیادہ افراد دامنِ اسلام سے وابستہ ہوچکے تھے۔ اور جب ابتدائی تین برسوں کی خفیہ دعوت میں ہی اسلام کے ماننے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی تھی تو کوہِ صفا پر چوتھے سال کے شروع میں اعلانیہ دعوت کے بعد اہلِ ایمان کی تعداد میں آئندہ تیزی سے اضافہ ناگزیر کیوں نہ ہوگیا ہوگا! چنانچہ دارارقم کا تبلیغی مرکز فعال ہوجانے کے بعد عام لوگوں کے علاوہ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ جیسے خاص الخاص لوگوں اور دوسرے بااثر لوگوں کے قبولِ اسلام نے بہت اثر ڈالا اور پھر اسلام کا غلبہ شروع ہوگیا۔ اسلام کے اس فروغ و اثر نے کفار و مشرکینِ مکہ کو غم و غصے میں مبتلا کردیا اور انہوں نے تحریکِ اسلامی کو دبانے کے لیے ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا۔ اس طرح جاہلی مکی معاشرے کی موجودگی میں ہی ایک نبوی مکی معاشرہ بھی اپنی الگ شناخت کے ساتھ جلوہ گر ہوگیا۔ ایک طرف شہر اور اس کے مضافات میں اسلامی تبلیغی سرگرمیاں جاری و ساری تھیں تو دوسری طرف کافرانہ، ظالمانہ، معاندانہ کارروائیاں اور کفار و مشرکین کی طرف سے تبلیغ و اشاعتِ اسلام کی راہ میں بھرپور رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔
نبوی مکی یا اسلامی معاشرے کی بنیاد جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، دین و ایمان، توحید یا کلمۂ اسلام کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اور جن لوگوں نے اس بنیاد پر جمع ہوکر ایک معاشرہ بنایا، اس معاشرے کا ہر فرد اپنے دین و ایمان اور اقرارِ اسلام میں کامل اور مضبوط تھا اور کسی حال میں اس ایمان سے پھرنے والا، اس اقرار کو بدلنے والا، اور اس کلمہ سے روگردانی یا کسی حال میں بھی انکار کرنے والا ہرگز نہ تھا۔ مزید برآں وہی اقرارِ ایمان، وہی ایک کلمہ ہی اس شخص کی پوری زندگی کو بدلنے کے لیے کافی تھا۔ پھر سب برائیاں اور خرابیاں ترک کرکے وہ شخص اعلیٰ اخلاق و کردار کا نمونہ بن جاتا تھا، اور یہ امر دیدنی ہوجاتا تھا کہ اس کی پوری زندگی جاہلی مکی معاشرے کے دور سے بالکل مختلف ہوجاتی تھی۔ اہلِ ایمان جاہلی مکی معاشرے میں بالکل الگ پہچانے جاسکتے تھے۔ یہ اپنی تعداد میں روزبروز بڑھتے چلے جارہے تھے۔ چنانچہ ابتدائی پانچ چھے برسوں میں ہی اہلِ ایمان کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہوچکی تھی۔ ہر سال پوری دنیا سے آنے والے زائرین خانۂ کعبہ کو اہلِ ایمان کے نئے گروہ اور نبوی معاشرے کی نئی اٹھان سے ضروری تعارف بھی سال بہ سال حاصل ہوتا جارہا تھا۔ تاہم نبوی مکی معاشرہ اُس وقت معروف و مشہور ہوجانے کے بعد بھی مکی اور مقامی نوعیت کا تھا اور بہرحال محدود (Local) تھا۔
۔۔۔۔۔۔(3) ۔۔۔۔۔۔
اس مرحلے پر پہنچ کر دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے ساتھ ساتھ آپؐ نے معاشرے کی توسیع و ترقی کے لیے بھی کوششیں جاری رکھیں۔ اس سلسلے میں ایک نئی تدبیر اور حکمت عملی یہ اختیار فرمائی کہ اہلِ ایمان کی ایک جماعت کو ہجرتِ حبشہ کے لیے اذن و اجازت مرحمت فرمادی۔ اس حوالے سے پہلی مرتبہ صحابہ و صحابیات میں سے 11 مردوں اور 4 عورتوں کا ایک قافلہ سن 5 نبوی میں عازم حبشہ ہوا، جبکہ دوسری مرتبہ اگلے سال 6 نبوی میں 83 مردوں اور 18 عورتوں پر مشتمل نسبتاً ایک بڑا قافلہ بھی بلاروک ٹوک حبشہ پہنچ گیا، یوں کل تعداد 116 خواتین و حضرات کی نقل مکانی کرگئی۔
ہجرتِ حبشہ کا یہ واقعہ اُس وقت کے حالات میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہجرتِ حبشہ کوئی اتفاقی امر نہ تھا۔ نہ کسی مجبوری کا شاخسانہ تھا، نہ شدائد و مصائب کے نتیجے میں پناہ گزینی کی طلب تھی۔ اصلاً یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی جس کے تحت اللہ کی وسیع و عریض سرزمین میں اللہ کی حاکمیت اور رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹھیراؤ اور پھیلاؤ مقصود تھا۔ نبوی مکی / اسلامی معاشرہ مکہ مکرمہ کے خشک پہاڑوں اور صحرا کی وسعتوں سے نکل کر سمندر پار، براعظم افریقہ کی مرطوب فضاؤں میں سمانے جارہا تھا۔ گویا ہجرتِ حبشہ کے ساتھ ہی نبوی معاشرہ توسیع و ترقی سے ہمکنار ہوگیا، اس کا حبشہ چیپٹر کھل گیا، یعنی اس مرحلے میں تبلیغ و اشاعتِ اسلام مکہ مکرمہ کی مقامی سطحی ’’محدود‘‘ شہری حدود سے نکل کر عالمی بین الاقوامی وسعتوں میں سماگئی۔ یعنی تبلیغ و دعوت اور معاشرہ و معاشرت صرف مکہ مکرمہ، اس کے مضافات اور دیگر علاقہ جات سے آگے بڑھ گئی۔ اس کا عالمی چہرہ نمایاں ہوکر دنیا کے سامنے آگیا۔ اس کا یہ اظہاریہ (exposure) خود اسلامی معاشرے کے اندر اس کے باطن میں مضمر تھا۔ کیونکہ وہ کلمۂ توحید اور دین و ایمان کی بنیاد پر قائم ہوا تھا جس کے سبب اس معاشرے میں گویا عالمی وسعتوں تک پھیل جانے کی صلاحیت اور اہلیت بارآور ہوچکی تھی اور اس میں ہر فرد بشر کو بلاکسی تعصب کے اپنے طریقۂ جذب و انجذاب سے اپنے دامن میں چھپا لینے کی صلاحیت موجود تھی۔ یہ گویا اسلامی معاشرے کی توسیع کا بین الاقوامی دائرۂ کار تھا۔
ہجرتِ حبشہ اور اس سے متعلقہ واقعات کا بین الاقوامی نقطہ نظر سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ قریشِ مکہ کی بین الاقوامی/ خارجی محاذ پر ذلت آمیز شکست کا باعث بھی ہوئی تھی۔ کیونکہ قریشی انتظامیہ کا بھیجا ہوا سرکاری وفد دربارِ نجاشی میں پہنچنے اور پیش ہونے کے بعد اپنے مقصد و مدعا کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ وفد کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر جانے والے مسلمانوں کو حبشہ سے پکڑ کر واپس مکہ مکرمہ لایا جائے۔ حصولِ مقصد کے لیے مکی سرکاری وفد نے سب جتن کرڈالے۔۔۔ سرکاری تحفے تحائف، درباریوں کی خوشامد درآمد، رشوت۔۔۔ مگر کچھ کام نہ آیا۔ نجاشی نے کسی مرعوبیت کے بغیر تحقیقِ حال کرکے مسلمانوں کا مؤقف سنا اور حقائق جاننے کے بعد مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے مکی سرکاری وفد کو بے نیل مرام واپس بھیج دیا۔ یہ گویا مجموعی طور پر قریشی جاہلی اشرافیہ کی ناقابلِ یقین شکست تھی جس کی خودبخود تشہیر ہوگئی۔ اس بھرپور شکست کا بدلہ قریشی سردار مکہ میں رہنے والے ابوطالب کے بھتیجے اور ان کے خاندان اور متعلقین سے ہی لے سکتے تھے۔ اس کے لیے منصوبہ تیار کیا جانا ناگزیر تھا۔
۔۔۔۔۔۔(4) ۔۔۔۔۔۔
چنانچہ محرم 7 نبوی میں، کفارِ قریش کی اعلیٰ قیادت نے (حبشہ میں اپنی شکست کا بھرپور بدلہ لینے کے لیے، انتہائی ظالمانہ فیصلہ کیا اور سب نے مل کر) خاندانِ بنوہاشم اور بنو المطلب کے معاشی اور سماجی بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا اور اس غرض سے ایک اعلانیہ دستاویز لکھواکر خانۂ کعبہ میں آویزاں کردی تاکہ یہ مقاطعہ سب کے لیے واجب ہوجائے اور جانے انجانے سب کو معلوم ہوجائے۔ قریش کی طرف سے یہ مقاطعہ ان خاندانوں کی بقاء و سلامتی اور زندگی و موت کا معاملہ تھا اور نامعلوم مدت کے لیے عائد کیا گیا تھا، اور رعایت دینے کے لیے صرف ایک ہی شرط تھی کہ وہ خاندان والے قتل کے لیے ابوطالب کے بھتیجے کو خود ہی پیش کردیں۔ عرب کی تاریخ میں غالباً یہ منفرد واقعہ تھا کہ خاندانوں کا اس طرح بے رحمانہ معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کیا گیا ہو کہ وہ نامعلوم مدت تک اس میں مبتلا رہیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کے ان کے سامنے جان کی بازی ہار جائیں۔ یہ کفارِ قریش کا منصوبہ اور ان کا فیصلہ تھا، لیکن اللہ کا فیصلہ کچھ اور تھا۔
تاریخ نے یہ کمال دیکھا کہ بنوہاشم اور بنو المطلب کے خاندانوں نے مقاطعہ کے اس جاہلی فیصلے پر نہ کوئی احتجاج کیا، نہ فیصلے سے انکار ، نہ آہ و بکا، نہ شوروغوغا۔ انہوں نے بھی جواباً جاہلی قبائلی عصبیت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ابوطالب کے بھتیجے کے دفاع کے لیے مقاطعہ کی تمام تر سختیوں کو مسلسل تین سال تک خندہ پیشانی کے ساتھ، صبر و سکون، تحمل و برداشت اور توکل و قناعت کے ساتھ گزارا اور انتہائی برے وقت اور جان لیوا مصائب کو بھی اتنے اچھے طریقے سیجھیلا کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے ۔ جاہلی اشرافیہ نے دیکھ لیا کہ جناب ابوطالب نے عصبیتِ جاہلیہ کے معیار پر بھی کمالِ شجاعت سے اپنے بھتیجے کی حفاظت کا فریضہ بہ تمام و کمال ادا کیا، اور کفارِ قریش کی مجموعی طاقت اپنی بہترین منصوبہ بندی کے باوجود ناکام و نامراد ٹھیری۔ انہوں نے یہ جان لیا کہ جب تک جناب ابوطالب موجود ہیں معاندین و مخالفین ان کے بھتیجے کا بال بیکا نہیں کرسکتے۔ یہ قریش کے لیے ایک اور شکست کا تحفہ تھا جو نہ چاہنے کے باوجود انہیں حاصل ہوا۔ یہ ان کے لیے اصلاً سوہانِ روح تھا۔ کیونکہ معاشی و معاشرتی مقاطعہ کی ان کے نزدیک اصل روح یہ تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت و نصرت کرنے والے پورے خاندان تباہی سے دوچار ہوجائیں، ورنہ سختیوں اور پریشانیوں سے تنگ آکر کم از کم وہ بھتیجا تو ہمارے ہاتھ آہی جائے گا۔ فہوالمطلوب مگر افسوس صد افسوس کہ یہ تین سالہ معاندانہ کوشش اور بھرپور مقاطعہ ان کو خوشیاں نہ دے سکا۔
۔۔۔۔۔۔(5) ۔۔۔۔۔۔
مذکورہ مقاطعہ تین سال بعد 10 نبوی میں ختم ہوا۔ یہ دسواں سالِ نبوت تھا جو غم و اندوہ کا سال یعنی ’’عام الخزن‘‘ کہلایا جس میں پے درپے واقعات اور اتفاقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت گراں گزرے۔ پہلا اتفاق تو یہ ہوا کہ شعبِ ابی طالب سے نکلتے ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب چچا اور سب سے بڑے حمایتی جناب ابوطالب کا انتقال ہوگیا۔ اس پر مزید اتفاق یہ ہوا کہ چند روز بعد ہی 11 رمضان سن 10 نبوی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقۂ حیات، آپؐ کی جانثار و غمخوار، دم دم کی ساتھی اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کی بھی وفات ہوگئی۔ یہ دو ایسے حادثات تھے جو بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو براہِ راست متاثر کرنے والے تھے۔ ان سانحات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی واماندہ و دل شکستہ کردیا۔ پھر دوسرے حالات بھی اچھے نہیں تھے، بلکہ آئندہ چند مہینوں میں بھی حادثات برابر آتے رہے۔ اس لیے یہ پورا سال ہی عام الخزن سے تعبیر کیا جاتا ہے جو حقائق سے ہم آہنگ ہے۔
مکی جاہلی اربابِ اثر کو تو گویا ان باتوں کا ہی انتظار تھا، جناب ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ دونوں رکاوٹیں دور ہوگئیں، اس لیے انہیں اتنی ہمت و جرأت پیدا ہوگئی کہ خود ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی حاصل کرکے تکالیف اور اذیت رسانی کے مواقع انہیں مل گئے۔ ان واقعات کا تذکرہ عموماً کتابوں میں ہے، اس لیے تکرار بے محل معلوم ہوتی ہے۔ صورتِ حالات کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بالآخر اندازہ فرمالیا کہ مکہ مکرمہ میں ابلاغِ حق کی مزید کوششیں بارآور نہیں ہوسکتیں، اس لیے دوسرے مواقع، دوسرے علاقے، دوسری زمینوں پر طبع آزمائی مناسب ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی تو یہ تھی کہ عمرہ و حج کے زمانے میں دنیا بھر سے آنے والے زائرینِ حرم سے ملاقاتیں اور ان تک پیغام رسانی کا اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے ہی فرما رہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف مکہ معظمہ سے باہر ابلاغِ حق کے خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عزم فرماتے ہوئے اقدام اٹھایا۔ طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اربابِ اثر نے جو ناروا سلوک اختیار کیا اور جس طرح اذیت ناک رویہ آپؐ کے ساتھ رکھا گیا اس کا مکرر بیان بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ طائف سے واپسی کا سفر طویل ہوجانے کے باوجود اہمیت کے کئی پہلو رکھتا ہے۔ مثلاً ایک قابلِ ذکر واقعہ اجتنہ کا ایمان لانا ہے۔ طائف سے واپسی کے سفر میں قیام نخلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کی امامت کے دوران تلاوتِ قرآن فرمائی تو نیصبن سے واپس آتے ہوئے اجتنہ کے ایک گروہ نے تلاوتِ قرآن سن کر اسے اپنی قوم کے سامنے رکھا تو وہ بھی متاثر ہوگئے اور وہ بھی ایمان لے آئے، اور اس طرح انسانوں کے علاوہ جنات کے گروہوں کا ایمان لے آنا قابلِ اطمینان و مسرت تھا۔ طائف سے واپسی کے سفر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور اعزاز یہ حاصل ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کے قلب سے مشرف فرمایا گیا۔ اس لقب کا عطا کیا جانا یہ نوازش ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم صرف مکہ، طائف یا عرب کی دوسری بستیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے، چار دانگ عالم کے لیے، سارے عالموں کے لیے باعثِ رحمت بناکر مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپؐ کی نبوت و رسالت ہر حد و انتہا سے آگے، ہر زمانے و علاقے سے ماورا، قیامت تک کے لیے ہے۔
تقریباً اسی زمانے کا ایک اور اہم واقعہ معراج کا ہے، جو عام الحزن 10نبوی کے اواخر یا 11 نبوی میں پیش آیا۔ واقعہ معراج کی کئی جہتیں ہیں جن پر گفتگو بہت تفصیل طلب ہے۔ البتہ بعض پہلو بہت اہم ہیں۔ معراج و عروج بلندی کا نام ہے۔ دین کا عروج اور اس کا پھیلاؤ جاری و ساری تھا۔ البتہ بظاہر حالات کمزوری و پستی کے آئینہ دار تھے۔ اس کمزوری و پستی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج سے سرفراز کیا گیا۔ یہ اللہ کی خالص عنایت اور کرم کو ظاہر کرنے کے لیے تھا۔ معراج کے موقع پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربِ الٰہی سے متمتع کیا گیا جس سے زیادہ قرب ممکن نہ تھا۔ اس بلندی و سرفرازی کے ساتھ ساتھ نماز میں تمام نبیوں اور رسولوں کا امام بنایا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ان کا نماز ادا کرنا دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و ہمہ گیری اور آفاقیت کی دلیل تھی، اور یہ ثبوت کہ بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی، دونوں قبلوں (مسجد حرام، مسجد اقصیٰ) کے نبی ہیں اور دونوں سمتوں مشرق و مغرب کے امام ہیں، اور اپنے پیش رو تمام انبیاء و رسل کے وارث اور بعد میں آنے والی پوری نسلِ انسانی کے رہبر و رہنما ہیں۔ اس معراج میں پنچ وقتہ نمازوں کو فرض قرار دیا گیا۔ عرش کے خزانوں میں سے سورۃ البقرہ کی آخری آیات عطا کی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔(6) ۔۔۔۔۔۔
اس مرحلے تک پہنچ کر اسلامی معاشرہ توسیع و ترقی کے ایک بڑے دائرے تک مکمل ہوچکا تھا، لیکن اگلی منزلوں کی پیش قدمی ابھی باقی تھی، جس کے لیے ایک ضابطہ، لائحہ عمل اور منشور کی حاجت باقی تھی جس کے تحت تہذیب و معاشرت اور تمدن و سیاست کے بنیادی اور ثانوی اصولوں کی معرفت حاصل ہوجائے۔ اس غرض کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے معراج کے بعد دو سورتیں سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ النجم نازل فرماکر تمام ضروری تفصیلات بھی فراہم کردیں تاکہ آئندہ پیش آنے والے حالات و معاملات میں رہنمائی حاصل رہے۔
اب ضرورت باقی رہ گئی تھی کہ نبوی مکی معاشرے کو توسیع و ارتقا سے ہمکنار کرتے ہوئے اُن منزلوں تک پہنچا دیا جائے کہ ایک باقاعدہ معاہدۂ عمرانی اپنی اصلیت و حقیقت میں روبہ عمل آجائے اور اس کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ آخرکار ایک ریاست پر منتج ہوسکے۔ اور پھر اس کے نتیجے میں ایک قوتِ قاہرہ اور قوتِ نافذہ ہوسکے۔
چنانچہ نبوت کے اگلے تین سالوں میں، یعنی نبوت کے 11 ویں، 12 ویں اور 13ویں سال میں معاشرۂ اسلامی بتدریج مراحل طے کرتا رہا۔ اس دوران اتمامِ حجت کے تقاضے پورے ہوگئے۔ ایک طرف مکی جاہلی معاشرے کے اراکین و ذمہ داران نے ہر طرح کی کوششیں، ہر قسم کی منفی کارروائیاں اور ہر نوع کے ظلم و ستم ڈھاکے دیکھ لیا کہ وہ کسی قیمت پر تحریکِ اسلامی کی پیش قدمی کو نہیں روک سکے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان صحابہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہے۔ نیز سفرِ طائف کے بعد مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات تک تمام علاقوں میں ابلاغِ حق اور تبلیغِ دین کا کام مکمل کردیا گیا۔ اور ادھر کافروں اور مشرکوں کے بے لچک رویوں کو دیکھتے ہوئے یہ امر فیصلہ کن ٹھیرا کہ ان میں سے مزید لوگ داخلِ ایمان نہیں ہوسکتے۔ فرمایا گیا ’’اور اب یہ بات برابر ہے کہ تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ بہرحال دولتِ اسلام سے متمتع نہیں ہوسکتے‘‘ (سورۃ یٰسین)۔ حج و عمرہ کے زمانے میں منیٰ میں تین سال برابر اہلِ مدینہ کی آمد و ملاقات،؟؟؟؟ اسلام اور تیسرے سال بیعتِ عقبہ کبیرہ میں اہلِ مدینہ کے نمائندہ 75 افراد کی طرف سے گفتگو، وعدہ وعید اور یقین دہانیوں کے بعد معاہدہ عمرانی کا انعقاد ہوا۔ یہ معاہدہ عمرانی اپنی حقیقت و اصلیت میں وہ معاہدہ تھا جس کے تحت باشندگانِ ریاست (مجوزہ) نے اپنی آزادانہ مرضی اور رائے مشورہ سے کام لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قائد و حکمراں تسلیم کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا وعدہ کیا۔ اس لیے یہ واقعتا وہ معاہدۂ عمرانی ثابت ہوا جس نے ایک باقاعدہ ریاست کو وجود بخشنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس موقع پر (مجوزہ قائد و حکمراں کی طرف سے مدینہ کے لیے نقباء کا ان کے اپنے رائے مشورہ سے انتخاب و تعین) مدینہ میں باقاعدہ طور پر اجتماعی نظم کی بنیاد قائم کردی گئی اور نقباء کے ذریعے (قبل از ریاست) سیاسی معاشرے کی تعمیر کا کام پوری طرح شروع کردیا گیا۔ اس کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ پہنچنے کے بعد پوری ہونے والی تھی۔ 12 ذی الحجہ 12 نبوی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ مدینہ کے درمیان بیعت عقبۂ کبیرہ (یا معاہدہ عمرانی) کے بعد ہی ہجرتِ مدینہ کی اصل وجہ سامنے آگئی۔ صحابہ کی ہجرتِ مدینہ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور پھر محرم اور صفر کے دو ماہ گزرے تھے کہ ربیع الاول 13نبوی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق کی معیت میں مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔ یہ روانگی آپؐ کی اپنی ذاتی اورنجی حیثیت میں نہیں تھی بلکہ اہلِ مدینہ کے تسلیم شدہ سیاسی قائد اور پیغمبر آخر الزماں کی حیثیت سے تھی۔ مکہ معظمہ سے آنحضرتؐ کی مدینہ روانگی اس لحاظ سے بروقت تھی کہ امرائے مکہ دارالندوہ میں جمع ہوکر بالآخر یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ ہر قبیلے سے ایک ایک آدمی نکلے اور گھر کا محاصرہ کرکے سب ایک ساتھ مل کر گھر کے باہر جمع ہوں، اور ایک ساتھ حملہ کرکے آپؐ کی شمع حیات کو گل کردیں۔
۔۔۔۔۔۔(7) ۔۔۔۔۔۔
اہلِ مدینہ کے قائد و حکمراں اور اللہ کے مبعوث کردہ آخری نبی و رسول کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عازم مدینہ ہوئے اور 8 ربیع الاول 1 ہجری کو پُرجوش استقبال کے جلو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا میں قیام فرماتے ہوئے ایک مسجد (مسجد قبا) کا سنگِ بنیاد رکھا جو اسلام کی پہلی مسجد تھی اور جسے قرآن نے مسجد اُیِسّ علی التقویٰ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ مسجد دین و ایمان اور عبادت کا محور و مرکز ہونے کے علاوہ ایک ریاست کی معنویت بھی رکھتی تھی۔ ریاست کے چاروں عناصر کا سنگم مسجد کے وجود میں مدغم تھا۔ خطۂ زمین وہ تھا جہاں مسجد بنائی گئی۔ آبادی اس کے نمازی صحابہ، حکمران اس کا امام، امام الانبیاء، اور حکومت امام کی متابعت میں مقتدیوں کا تعامل و تتع، مظہراتم۔ وقت کی پابندی، صف بندی، نظم جماعت اور ایک اشارے پر اتباع و اطاعت کی تربیت، مسجد کی تعلیم کا لازمی حصہ تھا۔ یہ سب کچھ قبا میں محض چار روزہ قیام میں انجام پاگیا۔
جمعہ 12 ربیع الاول کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرکزِ مدینہ کی جانب پیش قدمی فرمائی۔ استقبال کے لیے پورا مدینہ طلع البدر علینا کی پُرکیف صداؤں کے ساتھ امڈ آیا تھا۔ محلہ بنو سالم تک پہنچتے پہنچتے نماز جمعہ کا وقت ہوگیا تو خطبۂ جمعہ اور نماز کی ادائیگی وہیں پر ہوئی۔ آج کی مسجد جمعہ اسی وقت کی یادگار ہے۔ کوکبۂ نبوی ذرا آگے بڑھا تو ہر ایک کی خواہش تھی کہ میزبانی کا شرف اسے ملے۔ مگر اونٹنی مامور من اللہ تھی۔ حکم الٰہی سے وہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کے دروازے پر جاکر ٹھیری۔ وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقر بنا۔ وہاں قیام فرمایا تو متصل زمین پر مسجد نبوی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس مرکزِ عبادت اور مرکزِ رہائش کی تعمیر کے لیے اگرچہ چند ماہ درکار تھے، اس دوران اجتماعیت و معاشرت کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب 1 ہجری میں مکہ سے آنے والے مہاجرین اور مدینہ کے متوطن انصار کے درمیان ایک عقد مواخاۃ استوار فرمایا۔ ارشادِ رسالت مآب یہ تھا کہ خدا کی راہ میں دو دو آدمی آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ اس ارشاد کی تعمیل میں مہاجرین و انصار نے برضا و رغبت ایک دوسرے کو اپنا بھائی بنالیا اور اس طرح حقیقی تعلقات استوار کیے جس طرح حقیقی بھائیوں کے ہوتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
عقد مواخاۃ نے اس بنیادی اصول کو پھر سے یاد دلادیا کہ انسانوں کے باہمی تعلق و ہم آہنگی اور وابستگی و اتحاد کی حقیقی بنیاد وطن، خون، رنگ و نسل، خاندان، زبان وغیرہ نہیں بلکہ صرف دین، ایمان اور حق ہے۔ اس نکتہ کی تعلیم توحید کی پہلی دعوت میں دی گئی تھی اور اس کے ذریعے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجنبی انسانوں کو اپنا بنایا۔ اسی بنا پر ایک معاشرہ قائم ہوا اور اب اسی کی بنیاد پر اس کی تنظیم کی جارہی تھی۔
وہ اسلامی مثالی معاشرہ جس کی تعمیر و تاسیس مکہ مکرمہ کی سرزمین پرہوئی، پھر وہ رفتہ رفتہ ارتقا پاکر ہجرت سے ذرا پہلے اس معاہدۂ عمرانی سے ہمکنار ہوا جو اپنے نتیجے میں تشکیلِ ریاست کی بنیاد بن گیا۔ ریاست مدینہ کی معنویت پہلے پہل مسجد قبا کی تعمیر سے آشکار ہوئی، پھر عناصر کی سیاسی تنظیم عقد مواخاۃ کے تحت استوار ہوئی تو معاشرہ مرحلۂ تکمیل سے گزر کر ریاست بننے کے لیے تیار تھا۔ یعنی ایک ہیئت سیاسی کی تکمیل باقی رہ گئی تھی جسے عقد مواخاۃ کے بعد چند ماہ کے اندر اندر ایک فرمان، ایک منشور یا ایک نوشتۂ خاص (Charter) کا اجرا فرما کر مکمل کردیا گیا۔ یعنی ہجرت سے پہلے معاہدۂ عمرانی، جس ریاست کے عملی وجود کے لیے منعقد ہوا تھا وہ روبہ عمل آگیا، یعنی معاشرہ اپنی تکمیل میں جس ریاست کو جنم دے کر دنیا کے نقشے پر لانا چاہتا تھا وہ سب کی نگاہوں کے سامنے نمایاں ہوگئی۔ یعنی وہ ریاست جو ایک معاہدۂ عمرانی کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئی، جس کا ایک دستور، متعین لائحہ عمل اور طریقۂ کار تھا، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ریاست بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ دس سال کے عرصے میں اس کی عملداری پورے عرب کے دس لاکھ مربع میل کے علاقے میں تسلیم کی جانے لگی۔ صاحبِ اقتدار ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ ضرورت اور حسبِ مواقع معاشرے کی کارکردگی اور صلاح و فلاح کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے تمام انتظامات کو حتمی شکل دے کر اعلیٰ ترین اقدامات فرمائے، یہاں تک کہ وہ مدنی معاشرہ جہاں پہلے امن و امان عنقا تھا، جہاں نراجی کیفیت برسہا برس سے قائم تھی وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سریر آرائے ریاست و حکومت ہوتے ہی امن و چین کا دور دورہ ہوگیا۔ پورا مدینہ حرم قرار دیا گیا جس کے تحت پورے علاقے میں کسی قسم کی قتل و غارت گری تو درکنار ہر قسم کا لڑائی جھگڑا، دنگا فساد ممنوع ٹھیرا، اور انسان، حیوان، جانور جاندار، چرند پرند بلکہ گھاس پھوس تک معزز و محترم ٹھیرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسلامی ریاست کے انتظامات اس بات کی ضمانت تھے کہ معاشرے میں انسانوں اور مسلمانوں کے پورے حقوق کی پاسداری اور فرائض کی بجا آوری مکمل طور پرکی جائے گی تاکہ معاشرہ صلاح و فلاح سے ہمکنار ہوسکے۔
nn

حصہ