(کرپشن ریاست کے لیے خطرہ(سید تاثیر مصطفی

219

’’کرپشن ریاست کے لیے خطرہ بن چکی ہے‘‘۔ یہ بات کسی سیاست داں یا کسی جذباتی مقرر نے نہیں بلکہ پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت کے فل بینچ نے کہی ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ بات اس حوالے سے بہت زیادہ اہم ہے کہ اس میں مستقبل کے پاکستان کی بقا کے لیے خطرہ بننے والے عنصر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کرپشن کے خلاف بہت باتیں کی جاتی ہیں۔ کوئی اسے ناسور قرار دیتا ہے، کوئی معاشرے کا گھن کہتا ہے اور کوئی اسے معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار بتاتا ہے، لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اسے ریاست پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ عدالت نے اس کے لیے ٹھوس دلائل اور ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔ عدالت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ملک اور ریاست کو بچانا ہے تو اب ہم اس اسٹیج پر ہیں کہ اس کے لیے کرپشن کو ختم کرنا ہوگا۔ کرپشن ختم نہیں ہوتی تو ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑجائے گا، اور یہ خطرہ کسی وقت ناقابلِ قبول پچھتاوے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈیرہ مراد جمالی مارکیٹ کمیٹی کرپشن کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے جو ریمارکس دیے وہ پوری قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اس کیس میں مارکیٹ کمیٹی کے دو ملازمین سہراب مری اور فدا بخش کو 42 لاکھ روپے کی کرپشن ثابت ہونے پر نیب عدالت نے پانچ پانچ سال قید اور 21،21 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جسے بلوچستان ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔ اس سزا کے خلاف ملزمان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل فل بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے نیب عدالت اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ فل بینچ نے اپنے فیصلے میں عدالتوں اور انسدادِ بدعنوانی کے تمام اداروں کو حکم دیا کہ کرپشن کے خلاف سخت رویہ اپنایا جائے۔ بدعنوانی میں ملوث افراد کو زیادہ سے زیادہ سزائیں سنائی جائیں اور ملزمان پر کوئی رحم نہ کیا جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اس کیس کے ملزمان نے سرکاری عہدوں پر رہتے ہوئے ملک و قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، اس لیے ان کے ساتھ رعایت نہیں برتی جاسکتی۔ عدالت نے قرار دیا کہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ملکی آزادی کا انحصار محفوظ معیشت پر ہے، اس لیے ریاست کے وسیع تر مفاد میں عدالتوں کو سخت رویہ اپنانا ہوگا، ماضی میں عدالتوں نے بدعنوانی کے ملزمان کے ساتھ نرم رویہ رکھا، لیکن اب جبکہ کرپشن بڑے پیمانے پر ایک منظم انداز میں ملکی معیشت کی جڑیں کاٹ رہی ہے اور فری آف آل ہوچکی ہے عدالتِ عظمیٰ کی پہلی ذمہ داری ہے کہ اس برائی سے آہنی ہاتھ سے نمٹے، کیونکہ یہ ریاست کے وجود کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ بڑے پیمانے پر کرپشن کی وجہ سے غریب غریب تر ہورہا ہے، غریب پینے کے صاف پانی اور آئین کے تحت باعزت زندگی کے حق سے بھی محروم ہیں، غربت کے باعث کروڑوں بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی صورت حال صحت سمیت دیگر شعبوں میں ہے۔ قوم ابھی تک اس انتظار میں ہے کہ اس کا فلاحی ریاست کا خواب کب پورا ہوگا۔ اگر اب بھی کرپشن پر چشم پوشی کی گئی تو ہم کبھی کشکول نہیں توڑ سکیں گے۔ بینچ کے سربراہ نے فیصلے کی کاپیاں تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرارز، بدعنوانی کی وفاقی اور صوبائی عدالتوں کے ججوں، چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی ہدایت بھی کی۔
سپریم کورٹ نے اس کیس کو محض مارکیٹ کمیٹی ڈیرہ مراد جمالی میں ہونے والی کرپشن کے ایک کیس کے طور پر نہیں لیا بلکہ اس کیس کو مثال بنایا ہے اور ماتحت عدالتوں کو اس معاملے میں گائیڈ لائن فراہم کی ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ مستقبل میں کرپشن کے مقدمات کو اس انداز میں لیں اور اس انداز میں ان کے فیصلے کریں۔ سپریم کورٹ نے عدالتوں اور انسدادِ بدعنوانی کے تمام اداروں کو حکم دیا کہ وہ کرپشن کے خلاف سخت رویہ اپنائیں اور بدعنوانی کے ملزمان پر کوئی رحم کھانے کے بجائے انہیں زیادہ سے زیادہ سزائیں دیں۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ ماضی میں عدالتوں نے بدعنوانی کے ملزمان کے ساتھ نرم رویہ رکھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ نشان دہی بھی کی کہ اب کرپشن منظم انداز میں ملکی معیشت کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے ملک میں نیچے سے اوپر تک پھیلی ہوئی کرپشن نے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ سرکاری اہلکار رشوت لیے بغیرکام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ جو رشوت دینا نہیں چاہتے مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تجارت، کاروبار اور محنت میں مقابلے اور مسابقت کی فضا نہیں رہتی، دوسری طرف یہ مایوس لوگ ملکی معیشت میں اپنا حصہ ادا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پھر رشوت دے کر کام کرانے والوں کی لاگت بڑھ جانے سے ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے اور بہت سی اشیاء عام آدمی کی زندگی سے نکل جاتی ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ اپنی یہ ضروریات پوری کرنے کے لیے ناجائز ذرائع آمدن تلاش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس طرح کرپشن کا دائرہ مزید وسیع ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ رشوت کی رقم عام طور پر کاروبار یا تجارت میں نہیں لگائی جاتی، اس سے صنعت بھی نہیں لگائی جاتی، البتہ اس رقم سے پلاٹوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے یا کسی قریبی ملک سے تیار شدہ اشیاء درآمد کرکے ملک میں فروخت کردی جاتی ہیں۔ اس طرح ایک طرف ملک میں صنعت نہیں لگتی، لوگوں کو روزگار نہیں ملتا، اور دوسری جانب قیمتی زرمبادلہ سے غیر ضروری اشیاء منگواکر مارکیٹ میں جمع کردی جاتی ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس صورت حال میں عدالتِ عظمیٰ کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ اس برائی (کرپشن) سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔ عدالت کی جانب سے اسے عدالتِ عظمیٰ کی پہلی ذمہ داری قرار دینا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی عدالتوں کو اگرچہ پہلے بھی اس خرابی کا احساس ہے لیکن اب حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ عدالت اسے اپنی پہلی ذمہ داری قرار دے، کیونکہ یہ برائی ریاست کے وجود کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ عدالت نے نہایت دکھ سے کہا ہے کہ قوم اب بھی اس انتظار میں ہے کہ اس کا فلاحی ریاست کا خواب کب پورا ہوگا۔ ہماری رائے میں تو اب قوم اس معاملے میں مایوس ہوچکی ہے، وہ سمجھتی ہے کہ حکمران اس جانب کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہیں اور عوام اس معاملے میں سوائے خواہش رکھنے کے کچھ او رنہیں کرسکتے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ اگر اب بھی کرپشن سے چشم پوشی کی گئی تو ہم کبھی کشکول نہیں توڑ سکیں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ کرپشن بڑھ جانے کے بعد ملکی معاملات چلانے کے لیے حکومتوں کو قرضوں کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ یہ قرضے اب اتنے بڑھ گئے ہیں کہ خود ہمارا قومی وجود ان کے نیچے دبتا جارہا ہے۔ بعض ماہرین کی تو یہ رائے ہے کہ اگرپاکستان میں کرپشن روک دی جائے تو ہمیں قرضوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، تاہم اس پر تفصیلی جائزے کی ضرورت ہے، لیکن سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں جو کچھ کہا ہے ہمارے ارباب اختیار کو اس پر غور بھی کرنا چاہیے اور اس کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کرنی چاہیے۔
nn

حصہ