(دہشتگردی کی جنگ ہم کہاں کھڑے ہیں؟(سلمان عابد

158

یہ سوالات اس لیے بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ ہم تمام تر دعووں کے باوجود ابھی تک دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے میں وہ کامیابیاں حاصل نہیں کرسکے جو کرسکتے تھے۔ دراصل سیاسی، عسکری، انتظامی اور اہلِ دانش کی سطح پر جو لوگ اس فکری مغالطے میں مبتلا تھے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ جیت لی ہے وہ یقینی طور پر احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ یہ بات بجا کہ ماضی کے مقابلے میں ہم نے دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پایا ہے، لیکن ہمارے ریاستی اور حکومتی سطح کے جو تضادات ہیں وہ اس جنگ سے نمٹنے میں مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کوئٹہ، لاہور، پشاور، سیہون شریف میں حضرت لال شہباز قلندر کے مزار اور اب مردان میں دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر ریاستی اور حکومتی صلاحیتوں اور دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے پر سوال کھڑے کردیے ہیں۔ دہشت گردی کے ان واقعات نے ایک طرف لوگوں میں دوبارہ خوف وہراس کی فضا پیدا کردی ہے اور دوسری طرف لوگوں میں ریاستی و حکومتی معاملات پر عدم اعتماد بڑھا دیا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ ریاست ہمارے ساتھ مذاق کررہی ہے۔ ہم جنگ کو محض بیان بازی، سیاسی تقریروں اور بڑے بڑے دعووں کے ساتھ جیتنے کی کوشش کررہے ہیں، جبکہ اس کے برعکس جنگ جیتنے کے حوالے سے زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی خودمختاری، سلامتی اور بقا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس جنگ میں ہمارے پاس ناکامی کا کوئی آپشن نہیں۔ یہ جنگ ہمیں ہر صورت میں جیتنی ہے، اور اس کو جیتے بغیر ہم اپنے آپ کو کسی سطح پر ایک محفوظ اور پُرامن ریاست نہیں بناسکیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم جس فکری اور انتظامی تضادات کے ساتھ اس جنگ سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں وہ ہم کو کامیابی دے سکے گی؟ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ اس جنگ سے نمٹنا محض فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہی کام ہے، جبکہ اس پہلو کو نظرانداز کیا گیا کہ یہ جنگ فوج کو ریاست اور معاشرے کے طور پر لڑنی ہے۔ فوج تو محض انتظامی بنیادوں پر آپریشن کرکے کچھ مثبت نتائج حاصل کرسکتی ہے، اصل مسئلہ اس جنگ کی سیاسی قیادت کا ہے جو ہمیں ہر سطح پر کمزور نظر آتی ہے۔
اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں ریاستی و حکومتی سطح پر ایک شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسی، حکمت عملی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم محض کچھ وقتی اقدامات کرکے مربوط طرز کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو درست حکمت عملی نہیں۔ ایک مسئلہ خاص طور پر ردعمل کی حکمت عملی سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی اگر دہشت گردی کا کوئی سانحہ ہوتا ہے تو فوری طور پر ریاستی اور حکومتی سطح پر سب کچھ کرنے کا جنون سوار ہوجاتا ہے، لیکن جیسے ہی کچھ دن گزرتے ہیں یا دہشت گردی میں کمی ہوتی ہے تو ہم اپنی ترجیحات میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرکے مجموعی طور پر ریاست اور اس کے شہریوں کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ دہشت گردی کیحالیہ واقعات کے نتیجے میں ایسا لگتا ہے کہ ہماری سوئی ہوئی ریاست اور حکومت جاگ گئی ہے یا اس کو کسی نے جگادیا ہے۔ یہ سوال بھی موجود ہے کہ کیا ایک ذمہ دار ریاست کا کردار یہی ہوتا ہے جو اس وقت ہم نے اختیار کیا ہوا ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ریاستی، حکومتی اور سیاسی قیادت کی سطح پر ایک 20 نکاتی ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اس نیشنل ایکشن پلان کو ایک سطح پر جنگ سے نمٹنے کے لیے ’’قومی نصاب‘‘ کا درجہ دیا گیا۔ لیکن آج یہ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے اور کیوں ریاستی اور حکومتی سطح پر اس پر نااہلی دکھائی جارہی ہے، یا اسے متنازع بنایا جارہا ہے؟ مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان، الطاف حسین اور خود حکومت میں شامل بعض نادان دوست اس نیشنل ایکشن پلان کو مُردہ، متنازع قرار دے رہے ہیں، اور اسے سیاسی مفادات سے جوڑ کر اس کی قومی سطح پر ساکھ کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔ حکومت اور وزیراعظم سمیت کوئی بھی اس نیشنل ایکشن پلان کی تائید، اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف دیوار بن کر سامنے نہیں آرہا، کیونکہ خود حکومت سمجھتی ہے کہ اگر نیشنل ایکشن پلان کمزور ہوگا اور اسے پسِ پشت ڈالا جائے گا تو اس سے حکومتی معاملات میں فوج کے کردار کو محدود کیا جاسکے گا۔ کیونکہ حکومتی سطح پر یہ رائے موجود ہے کہ اس پلان کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کردار کو محدود کیا گیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کمزوری کے مسائل پر فوج اپنا سخت ردعمل بھی دے چکی ہے۔
جب بھی پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن یا یہاں رینجرز کی تقرری پر بات ہو تو حکومتی سطح پر اسے مخالفین کی سازش سے جوڑا جاتا ہے۔ اب پنجاب حکومت پر جو حالیہ دباؤ لاہور میں دھماکے کے بعد آیا اس کے نتیجے میں فوجی قیادت کے ہی دباؤ پر پنجاب میں ایک بڑے آپریشن اور وہ بھی رینجرز کی نگرانی میں، کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب میں اگر آپریشن شروع ہوتا ہے تو اس کی حکمت عملی کیا ہوگی اور کس حد تک صوبائی حکومت اس کی قیادت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ہمارے یہاں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھارت اور افغانستان کا ہاتھ ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ملک دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں کھل کر کہا ہے کہ وہ یہاں دہشت گردی کررہی ہیں۔ وزارتِ خارجہ اور فوجی ترجمان کے بقول افغانستان میں بیٹھ کر کالعدم اور دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کررہی ہیں۔ یہ بات بجا ہے کہ ہمارا دشمن ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری ریاستی اور حکومتی ایجنسیاں کیا کررہی ہیں؟ وہ کیوں ان دہشت گردوں پر قابو پانے اور انہیں ختم کرنے میں ناکام ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ہونے کے باوجود ہمیں حادثہ ہونے کے بعد پتا چلتا ہے؟ کیوں ہم حادثے سے قبل معاملات کو کنٹرول نہیں کرپاتے؟ کیا وجہ ہے کہ ہماری سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان مسائل ہوں یا سول ملٹری تعلقات، ہم اس میں اصلاح کے لیے تیار نہیں؟ اس کے برعکس ہمارا رویہ ’سب اچھا‘ کا ہے اور جب بھی ان فریقین کے سامنے مسائل رکھے جاتے ہیں تو ان کی طرف سے یہ طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ سارا بحران میڈیا کا پیدا کردہ ہے، وگرنہ ملک کے حالات ریاست اور حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ لیکن جیسے ہی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو یہ طاقت ور طبقہ پردے کے پیچھے چھپ جاتا ہے اور میڈیا یا لوگوں کے سامنے جواب دینے سے گریز کرتا ہے۔ ہم کو یقینی طور پر خارجی مسائل درپیش ہیں اور اس پر درست حکمت عملی کے ساتھ ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے، لیکن جو داخلی سطح کے مسائل ہیں ان پر تو ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہے۔ جو ہمارا دشمن ملک یا دہشت گرد ہے وہ عمومی طور پر ہماری داخلی کمزوریوں اور تضادات کو بنیاد بنا کر ہی ہمیں نقصان پہنچاتا ہے۔ ہماری قوم ریاستی یا حکومتی سطح پر محض بیان بازیاں، تقریریں اور بڑے دعوے سن سن کر تھک چکی ہے، وہ عملی اقدام دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ان ہی غلطیوں کو اور زیادہ تواتر سے کرکے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہم اقتدار کی سیاست میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ اہم معاملات پر قومی اتفاقِ رائے یا مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم نے اپنی حکمت عملیوں سے پہلے بھی معاشرے میں تقسیم پیدا کی تھی اور اب بھی تقسیم پیدا کرکے لوگوں کو مزید گمراہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو چاروں طرف سے اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ دراصل دہشت گردی کے حالیہ واقعات ریاست، حکومت اور معاشرے سمیت سب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ اس موقع پر ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تعاون کے امکانات پیدا کرکے تضادات سے باہر نکلنا ہوگا۔ لیکن کیا اس کے لیے ہم تیار ہیں؟ اس کا جوا ب ہمیں ہر سطح پر تلاش کرنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری ناکامی کے اصل محرکات کیا ہیں۔
nn

حصہ