(سانحہ سیہون شریف(اسامہ تنولی

179

جمعرات 16 فروری کی ایک قدرے سرد شام تھی اور حسبِ معمول اس وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث سیہون کا سارا علاقہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ معروف صوفی بزرگ سید عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر کا مزار بھی ضلع جامشورو کی تحصیل سیہون میں واقع ہے جہاں ہر جمعرات کی شام بعد نماز مغرب ملک بھر سے آنے والے زائرین جو ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں ، مزار کے احاطہ میں دھمال ڈال کر لال شہباز قلندر سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ آج بھی مقررہ وقت پر جوں ہی نقارہ پر چوٹ پڑی ایک جم غفیر نے دھمال ڈال کر اپنے مخصوص انداز میں عقیدت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ ابھی اس دھمال کو شروع ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اچانک ایک زبردست اور ہولناک دھماکے کی آواز احاطۂ مزار میں گونج اٹھی جس کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے زائرین کا یہ دھمال ان کے رقصِ بسمل میں تبدیل ہوکر رہ گیا، کیونکہ اس خوفناک دھماکے کے نتیجے میں لمحہ بھر ہی میں 9 خواتین اور 10بچوں سمیت 76 سے زائد زائرین جاں بحق ہوچکے تھے، جبکہ پانچ سو کے قریب زخمی فرش پر پڑے، مارے تکلیف اور اذیت کے تڑپ رہے تھے۔ تادم تحریر اس مبینہ خودکش دھماکے کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد لگ بھگ 100 کے ہندسے کو چھو چکی ہے۔ علاوہ ازیں دھماکے کے بعد مزار کے احاطہ میں آگ بھڑک اٹھنے اور افراتفری کا عالم چھا جانے کی وجہ سے بھی جو بھگدڑ مچی اُس کے سبب بھی کئی افراد کے پیروں تلے کچلنے سے مرنے اور زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
مزار کے احاطہ میں مبینہ خودکش حملے کے فوراً بعد مقامی افراد نے سرکاری مدد پہنچنے سے پیشتر ہی اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا تھا باوجود اس امر کے کہ سیہون سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ مرحوم اور ان کے صاحبزادے موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا آبائی شہر ہے۔ اس موقع پر یہاں انتظامی سہولیات ناپید تھیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب سیہون کے مقامی سرکاری اسپتال میں بم دھماکے کے زخمیوں کو لانے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہاں صرف ایک ڈاکٹر ہی موجود تھا۔ بیشتر ڈاکٹر اور طبی عملہ بھی اس موقع پر ڈیوٹی سے غائب تھا۔ ایمرجنسی ڈکلیئر ہوئی تو بہ مشکل تمام چار ڈاکٹر یہاں ہانپتے کانپتے پہنچ پائے۔ ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے زخمی اسپتالِ مذکورہ میں ہر دم تڑپتے رہے جس پر مقامی افراد نے سخت احتجاج بھی کیا۔
اِس مرتبہ پوری ترتیب کے ساتھ دہشت گردی کی لہر آئی ہے جس نے سارے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پہلے دو واقعات کراچی میں ہوئے۔ اس کے بعد کوئٹہ میں۔ پھر دہشت گردی کے واقعات لاہور اور پشاور میں بھی ہوئے۔ نیز ایک واقعہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں ہوا۔
سیہون میں درگاہ حضرت لال شہباز قلندر پر کیے جانے والے مبینہ خودکش حملے کی ذمہ داری اگرچہ ایک تنظیم ’’جماعت الاحرار‘‘ نے قبول کی ہے، تاہم تجزیہ نگاروں کی رائے میں ملک بھر سمیت اس سانحہ کے پسِ پردہ بھی امریکہ اور بھارت کی متحدہ سازش کارفرما ہوسکتی ہے تاکہ چین کے تعاون سے شروع کیے جانے والے عظیم الشان اقتصادی راہداری کے منصوبے ’’سی پیک‘‘ کو ناکام بنایا جاسکے۔ سیہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر خودکش حملے سے اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری براہِ راست حکومتِ سندھ اور مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ باوجود سنگین ملکی حالات کے، مزار کی حفاظت کے لیے کسی نوع کے کوئی مؤثر حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس مبینہ خودکش دھماکے میں 30 کلو بارودی مواد کا استعمال کیا گیا تھا۔ مزار پر غیر مؤثر حفاظتی اقدامات کے سبب ہی خودکش حملہ آور کو مزار تک پہنچنے میں آسانی ہوئی، کیونکہ اُس کے راستے میں کوئی واک تھرو گیٹ حائل ہوا اور نہ کوئی پولیس اہلکار۔ حد تو یہ ہے کہ بڑی تعداد میں خواتین زائرین کی آمد کے باوجود مزار پر کوئی لیڈی سرچر پولیس بھی تعینات نہیں تھی۔ مزار پر حفاظتی اقدامات ناقص ہونے کا اب تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، صوبائی وزیر منظور وسان نے بھی اعتراف کرلیا ہے، اور سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی اس حوالے سے حکومت کی عدم کارکردگی پر تنقید کرکے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ سب ’’بعد از مرگ واویلا‘‘ کے مصداق ہے۔ مزار میں چار درجن سی سی ٹی وی کیمرے ایک عرصے سے خراب پڑے ہیں لیکن انہیں ٹھیک کرانے کی بھی کسی متعلقہ ذمہ دار کو توفیق نہیں ہوئی۔ اسی طرح سے مبینہ طور پر ڈی پی او جام شورو طارق ولایت جو پی پی قیادت کے چہیتے ہیں، بجائے اپنے فرائض کی انجام دہی کے، دیگر غیرضروری امور میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں بھی گزشتہ کئی برس سے یہاں سے بوجوہ ٹرانسفر نہیں کیا گیا، اور موصوف کی غفلت شعاری اور مزار پر سیکورٹی کے مؤثر انتظامات میں عدم دلچسپی کو بھی سانحہ کا ایک سبب گردانا جارہا ہے۔ مقامی انتظامیہ کی بے حسی اور سنگ دلی کی ایک مثال سانحہ میں مرنے والوں کے اعضا کو گندگی کے ڈھیر پر پھنکوانے کا مکروہ اور گھناؤنا عمل بھی ہے جس کی تمام سیاسی اور دینی حلقوں نے سخت مذمت کی ہے، جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو بھی بعد ازاں اس حوالے سے معذرت کرنی پڑی۔ تاہم اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اس گھناؤنے عمل کی یہ مضحکہ خیز توجیح پیش کرکے کہ ’’یہ انسانی اعضا دھماکے کے سبب اڑ کر (ایک کلو میٹر دور) گندگی کے ڈھیر پر پہنچے ہیں‘‘ اپنے لیے بلاوجہ ہی جگ ہنسائی کا سامان مول لیا۔ اسی طرح کی ایک بودی دلیل پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے بھی پیش کی۔
مزار پر رونما ہونے والے سانحہ کے بعد سخت تنقید کے پیش نظر حکومتِ سندھ نے بعد از خرابئ بسیار ڈی پی او طارق ولایت، نیز اے ایس پی سیہون کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے، جبکہ دھماکے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی حیدرآباد خادم حسین رند نے نئے ایس ایس پی جامشورو کی سربراہی میں ایک چھ رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مرحومین اور زخمیوں کے لیے معاوضہ کا اعلان بھی کیا ہے۔ پولیس نے تاحال کئی افراد کو گرفتار کرلیا ہے، نیز پولیس کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ اس سانحہ کی کڑیاں دراصل شکارپور میں ہونے والے سابقہ دھماکوں سے ملتی ہیں، نیز یہ کہ سانحہ سیہون میں بھی شکارپور کا حفیظ بروہی گروپ ہی ملوث ہے، جس نے خودکش حملے کے لیے شکارپور میں جیکٹ تیار کروائی۔ پولیس نے خیرپور سے گرفتار شدہ مبینہ تین سہولت کاروں سمیت 5 افراد پر سانحہ سیہون میں ملوث ہونے کے حوالے سے دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کا اندراج بھی کرڈالا ہے۔ آئی جی سندھ کے بقول خودکش بمبار کی شناخت ہوچکی ہے جو بغیر کسی تلاشی کے مزار میں داخل ہوا۔ واضح رہے کہ مزار کی بجلی واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب کاٹ دی گئی تھی اور اتنی اہم درگاہ پر ہزاروں زائرین کی مستقل آمدورفت کے باوصف مقامی انتظامیہ نے بجلی کی بحالی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد با آسانی مزار میں داخل ہوکر اتنی بڑی قیامت برپا کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ عوامی حلقے پولیس کی جانب سے حفیظ بروہی گروپ کو سانحہ سیہون کا ذمہ دار قرار دینے کے عمل کو پولیس پر پریشر کا نتیجہ اور ’’بندر کی بلا طویلے کے سر‘‘ ڈالنے کے مصداق قرار دے رہے ہیں، کیونکہ قبل ازیں اسی پولیس نے مذکورہ سانحہ میں قبل ازیں خاتون بمبار کے ملوث ہونے کا ذکر بھی بڑے وثوق کے ساتھ کیا تھا۔
بہرکیف سانحہ سیہون میں حد درجہ مجرمانہ انتظامی غفلت ایک حقیقت اور امرِ واقع ہے۔ تمام تر حکومتی دعووں کے برعکس ’’ٹوٹی ہوئی کمر‘‘ والے دہشت گرد اب بھی ملک بھر میں اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے اور عوام کو مسالک اور فرقوں کی بنیاد پر باہم لڑوانے کے لیے فعال اور سرگرم ہیں۔ ہمارے سیکورٹی اداروں کو جہاں ایک طرف ان انسانیت اور پاکستان دشمن دہشت گردوں کا سر کچلنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر کارروائیاں کرنی چاہیں، وہیں سانحہ سیہون جیسے واقعات میں ملوث ’’انتظامی دہشت گردی‘‘ کا ارتکاب کرنے والے ذمہ داران کو بھی کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔
nn

حصہ