(جھوٹ کے نقصانات (تنویر اللہ خان

590

جھوٹ بُری عادت ہے، اللہ اور اُس کے رسول محمدؐ نے جھوٹے کی سخت ترین الفاظ میں مذّمت کی ہے یہ جھوٹ خواہ قولی ہو یا عملی ہو ، جھوٹ بڑا بولے یا بچے بولیں ، جھوٹ عورت بولے یا مرد بولے، جھوٹ سرمایہ دار بولے یا غریب بولے، جھوٹ راجہ بولے یا پرجا بولے، جھوٹ کی ہر شکل ہر عمل گُناہ ہے، لیکن بدقسمتی کہیے یا چالاکی ہم نے جھوٹ کو بچوں، غریبوں اور محکوموں کے ساتھ نتھی کردیا ہے،اس موضوع پر لکھے جانے والے اکثر مضامین کا عنوان اور متن میں بچوں کے جھوٹ کو بیان کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹ زمانہ حال کا مسئلہ ہے یعنی آج جو بچے ہیں صرف وہی جھوٹ بولتے ہیں، ماضی کے بچے جو آج کے بڑے ہیں وہ نہ اب جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ماضی میں جھوٹ بولتے تھے یا جھوٹ آج کی پیداوار ہے اب سے پہلے کی ساری نسلیں سچی تھیں سچ یہ ہے کہ یہ بھی ایک بڑا جھوٹ ہے، اگر ہمارے حاکم جھوٹ بولتے ہیں تو اُن کے جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے بڑے نیک نام، تعلیم یافتہ، خوش شکل، خوش لباس وکلا بڑے دورکی کوڑیاں لاتے ہیں اور جھوٹے حاکموں کے نورتن سینہ ٹھوک کران کے جھوٹ کو عین سچ ثابت کرنے میں جُت جاتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر کوئی غریب جھوٹ بولے توعام پولیس والا بھی سیخ پا ہوکر بیچ سڑک پر تھپڑ لگا دیتا ہے اور بسا اوقات اُس کا یہ تھپڑ سچ کو بھی جھوٹ بنا دیتا ہے، ہمیں ماسی، سبزی والے، چوکیدار، مانگنے والے، بھوکے، نشء، پھٹے کپڑے پہننے والے، مسجد سے چپل چُرانے والے کا جھوٹ بالکل برداشت نہیں ہوتا، اس روئیے پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے، کیا پیٹ بھرے کا جھوٹ اور بھوکے کا جھوٹ برابر ہے؟
جھوٹ کے انسانی شخصیت پر کیا اثرات ہوتے ہیں!
جھوٹ آدمی کو بے وقار کردیتا ہے، جھوٹ اور عزت ساتھ نہیں رہ سکتے کسی کے نام کے ساتھ اگر جھوٹا جُڑ جائے تو کوئی بھی ایسے آدمی کی بات سُننے کو تیار نہیں ہوتا، جھوٹے کا سچ بھی جھوٹ ہی سمجھا جاتا ہے۔
جھوٹ منافق کا ہتھیار ہے منافق کا سارا کام ہی جھوٹ سے چلتا ہے، منافق دل سے نہیں مانتا لیکن زبان سے کہتا ہے کہ میں سب سے بڑا ماننے والا ہوں، منافق قولی کے ساتھ عملی جھوٹ کا بھی شہکار ہوتا ہے مثلاً وہ نماز پڑھتا ہے لیکن یہ نماز نقلی ہوتی ہے اسی طرح دیگر اعمال بھی سرانجام دیتا ہے لیکن ان سب کی بنیاد میں جھوٹ ہوتا ہے لہٰذا جھوٹ اور منافقت کا چولی دامن کاساتھ ہوتا ہے۔
جھوٹا اپنا اعتبار کھودیتا ہے،جھوٹا اگر بیماری کے نتیجے میں اپنے کام سے غیر حاضر ہوجائے تو اُسے بیماری کی رعایت بھی نہیں ملتی
جھوٹ کی وجہ سے آسان کام بھی مشکل اور ناممکن ہوجاتے ہیں۔
جھوٹ گناہ اور برائیوں کی جڑ ہے، جھوٹ کے بیج سے برائیوں کی کھیتی لہلہاتی ہے، ایک جھوٹ کو نباہنے کے لیے جھوٹے کو پے در پے جھوٹ بولنا پڑتا ہے، معاشرے سے شرم بھی گناہ میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے جب کہ جھوٹا آدمی اپنے گناہ کو جھوٹ کے پردے میں چھپا لیتا ہے۔
جھوٹا آخرت کی جواب دہی سے بے پروا ہوتا ہے، ایسا مسلمان جسے آخرت پر یقین ہو اور آخرت کی رسوائی سے ڈرتا ہو وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ جس کو اس بات پر یقین ہو کہ روزِ محشر میں جھوٹ بول کر اپنا کوئی گُناہ چھپا نہیں سکتا وہ اس سے بھی ڈرتا ہے کہ اس دُنیا میں جھوٹ پکڑا گیا تو سب کے سامنے رسوا ہوجاؤں گا۔
جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے،جھوٹے آدمی کو ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ کہیں میرا جھوٹ پکڑا نہ جائے جھوٹ چھپانے کی یہ فکر اُسے کچھ اور کرنے نہیں دیتی۔
جھوٹ خوداعتمادی ختم کرتا ہے،جس طرح سچ ایک مضبوط اخلاقی قوت ہے اسی طرح جھوٹ ایک بڑی اخلاقی کمزوری ہے لہٰذا جھوٹا آدمی اندر سے کمزور ہوتا اور یہ کمزوری اُس کے اعتماد پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے، جس طرح خوداعتمادی ناممکن کو ممکن بناتی ہے اسی طرح اعتماد کی کمی ہر قدم پر ناکامی کا سبب بنتی ہے۔
رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا مومن میں پیدائشی طور پر ساری خصلتیں ہو سکتی ہیں (خواہ وہ اچھی ہوں یا بُری ہوں) البتہ خیانت اور جھوٹ کی عادت نہیں ہوسکتی۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم نے جھوٹ کو گُناہ سمجھنے کے بجائے ہنر سمجھ لیا ہے، جھوٹ بول کر سودا کرنا، جھوٹ بول کر ووٹ لینا، جھوٹ بول کر حکومت کرنا، جھوٹ کے ذریعے اپنی بددیانتی کو عین دیانت داری ثابت کرنے کا عمل ہمارے اندر رچ بس گیا ہے لیکن ہم توقع یہ رکھتے ہیں کہ جھوٹ سوچ کر جھوٹ بول جھوٹ پر عمل کرکے ہمیں وہ فائدے حاصل ہوں گے جو سچ کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔جھوٹ کے بیج سے سچ کی فصل کاشت نہیں کی جاسکتی۔
nn

حصہ