(بقیہ: مصر کی صورتِ حال/(ڈاکٹر اقبال خلیل

206

سے فوجی آمریت مصر پر نہ مسلط ہوجائے، انتخابی جمہوری عمل میں بھرپور حصہ لیا، اور اس کے بعد منعقد ہونے والے تمام انتخابات اور ریفرنڈم جیتتی چلی گئی۔ اخوان المسلمون نے ایک نئی سیاسی پارٹی ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ قائم کی تاکہ وہ مصر کے اندر اور باہر ہرسطح پر ایک قومی اور سیاسی پارٹی کے طور پر متعارف ہو۔ 2011-12ء کے پارلیمانی انتخابات میں جسٹس پارٹی نے نصف نشستیں حاصل کرلیں، اور اس کے بعد جون 2012ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دونوں مراحل میں اس کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی نے کامیابی حاصل کی۔ ڈاکٹر مرسی کو اپنے دورِ صدارت کے آغاز سے ہی مشکلات کا سامنا تھا۔ سابق صدر حسنی مبارک کے دور کے مفاد یافتہ طبقات، اور انتظامیہ و فوج میں موجود اس کے گماشتوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ خاص طور پر عدلیہ میں موجود حسنی مبارک دور کے ججوں نے مسلسل ان کو پریشان کیے رکھا اور اخوان المسلمون کے خلاف فیصلے دیتے رہے۔ ایک طرف حسنی مبارک کے خلاف اُس کے دورِ صدارت میں ہونے والے مظالم، زیادتیوں اور بدعنوانی کے الزامات پر مقدمہ چلتا رہا اور دوسری طرف مرسی حکومت کے خلاف سازشیں جاری رہیں۔ منتخب پارلیمنٹ کو برطرف کردیا گیا، اور جب ڈاکٹر مرسی نے صدارتی فرمان کے ذریعے اس کو بحال کیا تو اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ اس طرح پورے جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی کوششیں جاری رہیں۔
ڈاکٹر محمد مرسی نے مصری قوم کو پہلا متفقہ جمہوری دستور عطا کیا اور ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے مصری عوام نے اپنی آزادانہ رائے سے اس کی توثیق کی لیکن اس کے باوجود مصری اشرافیہ ان کے خلاف آخری حد تک جانے کی تیاریاں کرتی رہی۔ اس موقع پر مصر کے لبرل اور سیکولر طبقات نے بھی جمہوری نظام کے خلاف ایک گندا کھیل کھیلا۔ وہ کسی بھی طور پر اسلامی عناصر کو برسراقتدار نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کو غیر ملکی آشیرباد بھی حاصل تھی۔ خاص طور پر اسرائیل بہرصورت اپنی دشمن اخوانی تنظیم کو حکومت سے نکالنا چاہتا تھا۔ حسنی مبارک کے پروردہ عناصر نے اپوزیشن کے التحریر اسکوائر پر ہونے والے مسلسل مظاہرے اور دھرنے کی پشت پناہی کی اورکئی ایسے کام کیے گئے جن کے ذریعے ڈاکٹر مرسی کی حکومت کو بدنام اور تنہا کیا جاسکے، جس میں طویل عرصے تک بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا بحران پیدا کرنا شامل ہے۔ پھر اس کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اہتمام ہوتا رہا جو سینکڑوں کی تعداد میں ہر جگہ کیے جاتے رہے۔ قبطی عیسائیوں نے بھی اخوان المسلمون کے خلاف مہم میں بھرپور کردار ادا کیا اور انتہا پسندوں کی طرف سے چرچوں پر حملوں کو اخوان کے کھاتے میں ڈال دیا اور ان کے خلاف عالمی سطح پر پروپیگنڈہ کیا۔
بالآخر جولائی 2013ء میں فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے 30جون کو التحریر اسکوائر میں ہونے والے مظاہرین کے مطالبے کو بنیاد بناتے ہوئے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کا خاتمہ کیا اور اس کے بعد سے اخوان کے خلاف گزشتہ 8 دہائیوں میں ہونے والے کریک ڈاؤن میں سے سب سے سخت اور ظالمانہ کارروائی کاآغاز کیا، جس میں اب تک 7,6ہزار اخوانی کارکنان مرد و زن ہلاک کیے جاچکے ہیں۔ پچاس ہزار سے زائد افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ ان میں سے ہزاروں کو پھانسی اور عمرقید کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ ستمبر2013ء میں ایک مصری عدالت نے ایک دفعہ پھر اخوان کی تنظیم اور اس کی تمام شاخوں اور منسلک تنظیموں پر پابندی لگادی اور اس کی تمام املاک ضبط کرلی گئیں۔ مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع اور ان کے تمام رفقاء گرفتار ہوچکے ہیں۔ ایک جامع منصوبے کے تحت اخوان کو ہر طرف سے گھیرنے اور ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ عالمی نشریاتی اور صحافتی حلقے اخوان کے آئندہ احیاء کے امکانات کو ناممکن قرار دے رہے ہیں۔ ایسے تبصرے کیے جارہے ہیں کہ اِس بار اخوان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے اور آئندہ ان کے سراٹھانے کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ وہ عوامی تائید سے محروم ہوگئے ہیں، مصری قوم ان کو اب مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مصری حکام خود اخوان کے اندر عدم اتفاق اور اختلاف کی خبریں سنا رہے ہیں اور نئی دھڑے بندی کی خوش خبریاں سنائی جارہی ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان تمام جوروستم کے باوجود اخوان ایک بڑی حقیقت اور قوت کے طور پر مصر کے اندر اور باہر موجود ہیں۔ نائب مرشد عام ڈاکٹر ابراہیم معیذ لندن میں اخوان کے رابطہ دفتر سے محتاط انداز میں اخباری بیانات اور پیغامات جاری کررہے ہیں۔ اخوانی نیٹ ورک پورے مصر میں موجود ہے۔ جیلیں ایک بار پھر تربیت گاہوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ عقوبت خانے تلاوت قرآن پاک اور ذکر و تہلیل، شب بیداریوں اور جسمانی و روحانی ریاضتوں سے آباد ہوچکے ہیں۔ اخوان ایک اور ابتلا و آزمائش کے دورِ عزیمت سے گزر رہے ہیں۔ ان کی ایک اور نسل اب عقوبت خانوں سے نمودار ہورہی ہے۔ محمد حامد عبدالنصر، مصطفی مشہود، مامون الہضیبی، مہدی عاکف اور محمد بدیع کی جگہ قیادت محمد طہٰ وحدان سنبھال چکے ہیں۔ مکتب ارشاد کے نئے ارکان منتخب ہوچکے ہیں۔ تمام تنظیمی سرگرمیاں اوردعوتی کام اس دور عزیمت میں جاری وساری ہیں۔ مردوں کی جگہ خواتین نے لے لی ہے۔ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں،کارخانوں اور سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی خواتین اور بچیوں نے جیلوں میں محبوس قیدیوں سے رابطے اور خدمت، شہداء کے خاندانوں کی معاونت کے لیے نظام تشکیل دے دیا ہے۔ اخوان المسلمون پوری طرح بحال اور فعال ہے۔ سیاسی میدان میں اس کا کردار اُسی وقت اجاگر ہوگا جب مصر میں آزادانہ انتخابات ہوں گے۔ آمریت کا ایک اور دور مصری قوم کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس دور کو مختصر اورآسان کرے۔ آمین
nn

حصہ