(مرنے کے بعد انسان دبارہ زندگہ دوبزہ زندہ ہوگا(محمد شبیر احمد خان

438

سائنس کا علم بتاتا ہے کہ انگلیوں کے نشانات آڑھی ترچھی، گول اور خم دار لکیروں پر مشتمل ہوتے ہیں، جو انسان کی جلد کے اندرونی و بیرونی حصوں کی آمیزش سے بنتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی پہچان اور شناخت کے لیے ہاتھ کی لکیریں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں، مگر اس بات کا بنی نوع انسان کو پتا نہیں تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں یہ دریافت ہوا کہ انسانوں کی انگلیوں کے نشان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔1880ء میں ایک انگریز سائنس دان Henry Faulds نے اپنے ایک مقالے میں جو ’’نیچر‘‘ نامی جریدے میں شائع ہوا، اس بات کا انکشاف کیا کہ لوگوں کی انگلیوں کے نشان عمر بھر تبدیل نہیں ہوتے اور ان کی بنیاد پر ایسے مشتبہ لوگوں پر، جن کی انگلیوں کے نشان کسی شے پر مثلاً شیشے وغیرہ پر رہ جاتے ہیں، مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ ایسا پہلی بار 1884ء میں ہوا کہ انگلیوں کے نشانات کی شناخت کی بنا پر قتل کے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا گیا اور اُس دن سے انگلیوں کے نشانات شناخت کا نہایت عمدہ طریقہ بن گئے۔
ماہرین حیاتیات کہتے ہیں کہ دنیا میں کسی بھی آدمی کی انگلیوں کے نشان کسی بھی دوسرے آدمی کی انگلیوں کے نشانات سے نہیں ملتے، چاہے وہ جڑواں ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی طور پر بھی پولیس مجرموں کی شناخت کے لیے فنگر پرنٹس کے طریقے ہی کو استعمال کرتی ہے۔ تاہم، 19ویں صدی سے قبل غالباً لوگوں نے بھول کر بھی نہ سوچا ہوگا کہ ان کی انگلیوں کے نشانات کی لہردار لکیریں بھی کچھ معنی رکھتی ہیں اور ان پر غور بھی کیا جاسکتا ہے۔
قیامت کے انکاری کہتے ہیں کہ وہ انسان، جس کی ہڈیاں مرنے کے بعد گل سڑ کر ختم ہوگئیں، بم دھماکے میں جس کا جسم ریزہ ریزہ ہوگیا، قیامت کے دن وہ کیسے دوبارہ جی اُٹھے گا، یہ کس طرح ممکن ہے؟
اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب قرآن پاک میں دیا ہے:
’’کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکٹھی نہ کرسکیں گے؟ کیوں نہیں، ہم اس بات پر قادر ہیں کہ (پھر سے) اس کی انگلیوں کے پور پور تک دُرست بنادیں‘‘۔
اربوں کھربوں انسانوں کی ہلاکت کے بعد قیامت کے دن دوبارہ ان کو زندہ کرنا، جب کہ ان کی ہڈیاں ریزہ ریزہ اورجسم گل سڑ چکے ہوں، دوبارہ اسی شکل وصورت میں پیدا کرنا بلکہ انگلیوں کے پور پور تک کا اسی پہلی بناوٹ میں ہونا، اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی کا منہ بولتا ثبوت ہے، چناں چہ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی انگلیوں کی لکیروں میں جو راز پنہاں رکھا ہے، وہ اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو بے مثال انجینئرنگ اور ڈیزائننگ صرف چند مربع سینٹی میٹر کے رقبے میں کی ہے، کسی انسان کے بس کی بات نہیں، بلکہ انسان اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اتنی چھوٹی سی جگہ کے اندر اربوں، کھربوں نمونے تیار کرلے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ 1400 برس پہلے وہ کون سی ہستی تھی، جسے علم تھا کہ تمام انسانوں کے ہاتھوں کے نشانات مختلف ہیں اور ان ہی کی وجہ سے کسی انسان کی شناخت ممکن ہے۔۔۔ تو جواب ملے گا کہ سوائے اللہ رب العزت کی ذات کے کوئی اس بات کو نہیں جانتا تھا، کیوں کہ وہی ہمارا خالق ہے اور وہی جانتاہے کہ انسان کی پیدائش کس طرح ہوئی اور کس طرح وہ مارنے کے بعد دوبارہ ہمیں زندہ کرکے ہم سے حساب کتاب لے گا؟
nn

حصہ