(وطن کو ہم نے سنوارنا ہے(سیدہ عنبرین عالم

235

148بح نیند سے بیدار ہوئی تو ماسی کی بیل بج اٹھی۔ دروازہ کھولا اور کام کرایا۔ ماسی سرائیکی ہے ہماری، کام کراکے ناشتا کیا اور ہسپتال کے لیے نکل پڑی۔ بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں پٹھان تھے۔ ہسپتال پہنچی تو بڑے ڈاکٹر صاحب تو ہر زاویے سے مکمل مہاجر تھے مگر جونیئر ڈاکٹر سب کے سب سندھی اور نرسیں زیادہ تر عیسائی، جو روانی سے آپس میں پنجابی میں محوِ گفتگو تھیں۔
میں مسکرا اٹھی۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو آپ کا تمام قومیتوں سے واسطہ پڑتا ہے، اور سچی بات یہ ہے کہ اگر تمام لوگ اپنے اپنے علاقوں کو چلتے بنیں اور صرف ہم اردو اسپیکنگ لوگ ہی رہ جائیں تو ہر کام مشکل ہوجائے گا۔ اگر صرف افغان لڑکے ہی کچرا چُننا بند کردیں تو چند ہی روز میں کراچی کے اعلیٰ ترین علاقے بھی کوڑا دان نظر آئیں گے۔ صحیح بات ہے ’’نکمی نہیں کوئی بھی چیز قدرت کے کارخانے میں۔۔۔‘‘
قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب ہم سب مل جل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، کوئی قابلِ ذکر اختلافات بھی نہیں ہیں تو پھر یہ لسانی تنازعات آخر کون کھڑے کرتا ہے؟ کیا آپ کسی ماسی سے آج تک اس لیے خفا ہوئیں کہ وہ کراچی کیوں آگئی۔۔۔؟ پنجاب میں ہی رہتی۔ نہیں، بلکہ اگرآپ کی ماسی کچھ دنوں کے لیے پنجاب چلی جائے تو آپ انتہائی صدمے کا شکار رہتی ہیں۔ اسی طرح پٹھان مزدور نہ ہوں تو ہمارا گھر کون بنائے گا؟ ارے گولہ گنڈا کون بنائے گا؟ یہی نہیں، کراچی کے بڑے بڑے کاروبار بھی ان باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی مرہونِ منت ہیں جو ہم اردو اسپیکنگ لوگوں کو بھی ملازمتیں فراہم کررہے ہیں۔ مختصر یہ کہ جیسے ایک گھر میں اگر سب مل جل کر رہیں تو معمولی نوک جھونک بھی رہتی ہے اور آپس میں محبتیں بھی پرورش پاتی ہیں۔ ایسے ہی کراچی کو بھی سمجھیں اور پھر یہی مثال پورے پاکستان پر منطبق کریں۔ پھر آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ مل جل کر رہنے میں ہی سب کی بھلائی ہے، اور آپس کے اتحاد سے ہی ہم وطن کو سنوار سکتے ہیں۔
کالاباغ ڈیم منصوبہ برسوں سے غلط فہمیوں کا شکار ہے کہ ایک صوبے کو فائدہ ہوگا اور دوسرے صوبے کو فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔۔۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہمارے پاس بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی جگہ ہی نہیں۔ تربیلا اور منگلا ڈیِم میں مٹی بھرنے سے آدھی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔
بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران قوم سے مخلص نہیں، اور بیرونی ایجنڈے پر ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا رہے ہیں، اور ہم ملک و قوم کے بجائے اپنا مفاد اوّل نمبر پر رکھتے ہیں۔
زبان کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنا ہمارے سیاست دانوں کا ہر دور میں وتیرہ رہا ہے۔ 30 سال تک ہم مہاجر بھی الطاف حسین کے ہاتھوں اس لیے یرغمال بنے رہے کہ شاید کچھ ہمارا بھلا ہوجائے۔ جب ہوش آیا تو ہم پہلے سے بھی زیادہ برباد تھے۔ تو کیا بہتر نہیں کہ ہم صرف اپنے گروہ کا بھلا سوچنے کے بجائے تمام پاکستانی قوم کا بھلا سوچیں! پاکستان کی سب سے اہم ضرورت اتحاد اور پھر ایمان دار قیادت ہے۔ کتنا ہی بہترین بحری جہاز سفر کے لیے اختیار کیوں نہ کرلیا جائے اگر اُس کے پیندے میں شگاف ہے تو جہاز ڈوب جائے گا۔ یہی حالت پاکستانی کی ہے۔ عوام اپنا خون پسینہ ایک کرکے پیسے کماتے ہیں لیکن ایک صابن کی ٹکیا تک بغیر ٹیکس دیے نہیں خرید سکتے، جبکہ حکمران طبقہ تمام سہولیات سرکاری طور پر حاصل کرنے کے باوجود غبن اور کک بیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام میں یہ خیال راسخ ہوگیا ہے کہ ہم کتنا بھی کما کر پاکستان کو دیں، سب حکمران کھا لیں گے، ہماری فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا جائے گا۔ اسی لیے ہر ایک اپنے مستقبل کی پیش بندی خود کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مال کمانا چاہتا ہے اور جائز ناجائز کا فرق بھول چکا ہے۔ جس دن پاکستانی عوام دیکھیں گے کہ حکمران پاکستان کے لیے سب سے پہلے قربانی دیتے ہیں، اُس دن سے ہر پاکستانی پہلے پاکستان کا سوچے گا پھر اپنے بچوں کا۔۔۔ آزما کر دیکھ لیں۔
بے شک ہمارے بیرونی دشمن بہت ہیں لیکن اگر ہم آپس میں متحد ہوں گے اور ہماری معیشت مضبوط ہوگی تو سمجھیے دنیاوی اسباب تو میسر ہوگئے۔۔۔ اللہ کی نصرت تو صرف اُس وقت حاصل کی جاسکتی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے منصوبوں پر چلیں، جو قرآن میں بیان کیے گئے۔ ہر چھوٹی بڑی بات میں قرآن سے مشورہ لیں اور ہر حکم کی پاسداری کریں۔ جب ہم اللہ کے ہوجائیں گے تو اللہ کیوں ہمارا نہ ہوگا؟ اور اللہ ہمارا ہوگیا تو تمام کائنات ہمارے قدموں تلے ہوگی۔

حصہ