(پولیس کا قاتل رویہ(سید اقبال چشتی

285

پاکستان میں پولیس کسی بھی شہر، قصبے، دیہات کی ہو، سب ایک جیسی ہوتی ہے، کیو ں کہ پو لیس ریموٹ کنٹرول سے چلائی جاتی ہے۔ پولیس کو جیسا اشارہ ملتا ہے، یہ اسی انداز میں کام کرتی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے اس کے اہل کار اپنے متعیّن کردہ راستے سے ہٹ کر نہیں چلتے، جسے عرف عام میں ’’حکم کے بندے‘‘ یا ’’یس سر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔ اس میں پولیس ڈپارٹمنٹ کا قصور نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ڈیڑھ سو برس پرانا انگریز کا بنایا ہوا پولیس کا نظام اور سیاست میں اپنے مفاد کے لیے اس محکمے کو ملوث کرنا ہے۔ کوئی لاکھ کہے کہ پولیس کو سیاسی معا ملات سے پاک کردیا گیا ہے، یہ بیان کی حد تو چل سکتا ہے، لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں۔ پو لیس کے محکمے کے لیے پاکستان میں یہ ضرب المثال ٹھیک بیٹھتی ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس یعنی جس کی حکو مت، اسی کی پولیس اور یہ بات ہمارے پولیس افسران نے ثابت بھی کی ہے۔ اس بات کا ثبوت سندھ کے آئی جی کا تاجروں سے خطاب میں کیے جا نے والے انکشافات ہیں۔۔۔ لیکن جناب نے یہ نہیں بتایا کہ اصل میں پولیس کا قاتل رویّہ ہی ان کے لیے نقصان کا باعث بنا ہے۔ آئے دن اخبارات میں پولیس کے محکمے سے تعلق رکھنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ وردی کا رعب اور عوام سے روا رکھا جا نے والا رویّہ ہی ہے۔
گزشتہ دنوں گو جرانوالہ میں ایک پو لیس آفسر نے رکشہ ڈرائیور کو صرف اس لیے مار مار کر لہو لہان کردیا کہ رکشہ پو لیس آفسر کی گاڑی سے ٹکرا گیا تھا،پولیس آفسر کی اس حرکت پر کو ئی بھی آگے بڑھ کر روکنے والا نہ تھا کہ کون پولیس کے معا ملے میں پڑ کر اپنے لیے مصیبت مول لے، اسی طرح مفت کی چیزیں کھانے اور لینے میں پولیس کا کو ئی ثانی نہیں۔۔۔ پورے پاکستان نے پولیس گردی کا یہ منظر ٹی وی اسکرین پر دیکھا تھا کہ کس طرح ایک سادہ لباس پولیس آفیسر مفت کی CNG نہ ڈالنے پر سی این جی اسٹیشن کے منیجر کو مار رہا ہے، نہ جا نے یہ وردی کا نشہ ہو تا ہے یا طاقت کا لیکن یہ طاقت اور رعونت کا اظہار صرف مظلوم اور بے کس آدمی کے سا منے ہی کیا جاتا ہے، طاقت ور کے سا منے تو یہ پولیس بھی ہا تھ باندھے کھڑی رہتی ہے،پولیس اسٹیشن کے اندر اور باہر ہماری پو لیس کا رویّہ عوام کے ساتھ کیا ہوتاہے؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اسی لیے عوام اپنے ساتھ پیش آنے والے جرائم کی رپورٹ لکھوانے بھی پولیس اسٹیشن نہیں جاتے۔
پولیس اسٹیشن اکثر جانا ہوتا ہے، لیکن ایک دن تو حد ہی ہوگئی، جب میرے بھتیجے کو جو اپنے بڑے بھائی کی ہیوی بائیک لے کر گھر سے تھوڑی دور ہی سروس اسٹیشن پر جارہا تھا کہ کو نے پر کھڑے پولیس اہل کاروں نے روک لیا۔ تعارف کرانے کے بعد بھی پولیس اسٹیشن لے گئے، شام کا وقت تھا، اس لیے آفس سے آتے ہی بھا بی نے بتا یا کہ بھتیجا پو لیس اسٹیشن میں ہے۔ فوراً پولیس اسٹیشن پہنچا۔ پتا چلا کہ لمبا چوڑا پر چہ کاٹ دیا گیا ہے۔ اپنا تعارف کرایا تو پولیس والے کہنے لگے: بچہ اگر پہلے بتادیتا تو پر چہ نہیں کٹتا۔ بھتیجے نے بتا یا کہ یہ لوگ مجھے زبردستی یہاں لائے ہیں اور سب کچھ چھین لیا میرا مو بائل فون بھی لے لیا ہے۔ وہ تو ہمارا گھر پولیس اسٹیشن کے سا منے گلی میں ہے، اس لیے ایک دوست نے دیکھ لیا تھا، جس پر اطلاع ہوگئی۔ بہرحال بائیک لے کر گھر آگئے۔ جب بائیک لے کر آنے لگے تو ایک اور پولیس والے صاحب جو سادہ لباس میں تھے، ہمارے پاس آئے بھتیجے سے جو بائیک اسٹارٹ کررہا تھا، بائیک کی چابی چھین لی اور کہنے لگے: تم لوگ یہ بائیک نہیں لے جاسکتے۔۔۔ہم نے کہا: کیوں کیا یہ آپ کی بائیک ہے؟ پولیس والا کہنے لگا: یہ بائیک جرم میں استعمال ہو ئی ہے، اس لیے آپ لوگ جاؤ، لیکن یہ بائیک یہیں چھوڑ جاؤ۔ ہم پولیس والے کی اس بات پر مسکرائے کہ شاید اس کا دل اس بائیک پر آگیا ہے۔ ہمارے مسکرانے پر پولیس والا اپنے مخصوس انداز میں پو چھنے لگا: کیوں مسکرا رہے ہو تو ہم نے اپنا تعارف ایک بار پھرکرایا اور اس بار ہم نے کلاس لے لی کہ کیوں کسی کے کام میں مدا خلت کررہے ہو، کیا بلا وجہ لوگوں کو تنگ کرنا تمہارا مشغلہ ہے؟ جس پر مو صوف کہنے لگے: معاف کرنا مجھے پتا نہیں تھا۔ پولیس کا یہی رویّہ پولیس اسٹیشن کے اندراور باہر ’’دادا گیری‘‘ والا ہو تا ہے اگر میں وقت پر نہیں پہنچتا تو شاید ہیوی بائیک لے جا نے کے لیے ’’ہیوی چائے پانی‘‘ دینا پڑتا۔ صحافت سے تعلق ہو نے کی وجہ سے سب کچھ آسانی سے ہوگیا، لیکن سو چنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی کا پولیس اسٹیشن میں کیا حشر ہو تا ہے، در بدر کی ٹھوکریں اور ہزاروں روپے خرچ کرکے بھی اس کا مسئلہ حل نہیں ہوتا،کتنے وردی میں اور کتنے ہی سادہ لباس اہل کار روزانہ معصوم شہریوں کو تنگ کر تے ہیں۔
کسی کو بلا وجہ اُٹھانے اور تنگ کر نے کا سلسلہ بھی پورے پاکستان میں ہے، پولیس کو ہمیشہ سے ہی سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے بھی پولیس کا محکمہ سب سے زیادہ بد نام ہے۔ گاؤں دیہات میں یہی پولیس والے وڈیرے اور چو ہدری کے غلام بن کے رہتے ہیں اور یہی چو ہدری اور وڈیرے پولیس کے بڑے ہو تے ہیں، جن کے اشارے پر سب کچھ ہوتا ہے۔ ہمارے آئی جی صاحب کو شکوہ ہے کہ 1992 کے آپریشن میں حصہ لینے والے اہل کاروں کو گلی محلوں میں قتل کر دیا گیا۔ اب پولیس کا مورال کیسے بَلند ہو یہ تو اس وقت سو چنا چاہیے تھا، جب علاقہ کا SHO ایک سیکٹر انچارج کے پاس حاضری دیا کرتا تھا اور اس سیکٹر انچارج کے کہنے پر مخالفین کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی تھی اور یہی پولیس جو عوام کی ’’خادم‘‘ ہے، عوام کو اپنے ’’بھرم‘‘ میں رکھتی تھی، لیکن یہی بھرم سیکٹر آفس میں نکل جاتے تھے۔ فیصلے پو لیس اسٹیشن میں ہو نے کے بجائے سیکڑ آفس میں ہوا کرتے تھے۔۔۔کیا اُس وقت پولیس کا مورال بہت بَلند تھا؟ جب سیاسی مخالفین کو پولیس کی نگرانی میں قتل کر دیا جاتا تھا اور رپورٹ بھی نہیں لکھی جاتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب شاہ فیصل میں عبدالبصیر کو شہید کیا گیا تو ابھی شہید کا جنازہ بھی نہیں ہوا تھا، لوگ اطلاع ملنے پر جمع ہو رہے تھے تو ایک معمولی یو نٹ انچارچ کے کہنے پر پولیس نے جمع ہونے والوں بے جا طاقت کے زور پر منتشر کردیا تھ۔ جب پولیس ظالم کا ساتھ دے گی اور ظلم میں برابر کی شریک ہوگی اور پولیس جب بد معاش اور شریف لوگوں میں تمیز نہیں کرے گی تو ردّعمل تو سامنے آئے گا۔ کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ پر آنسو بہائے جارہے ہیں، لیکن اندرون سندھ کیا ہو تا ہے؟ سب کو معلوم ہے۔ سابق صدر پاکستان نواب کالا باغ دو لوگوں کا استقبال کھڑے ہوکر کیا کرتے تھے، ان میں سے ایک علاقہ کا تھانے دار اور دوسرا پٹواری تھا، اس لیے کہ یہ سب سے طاقت ور بھی ہے اور کام کا بندہ بھی۔ آج بھی گاؤں دیہات میں وڈیرے اور چو ہدری پولیس کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آئی جی صاحب کو اندرون سندھ کیا ہوتا؟ اس پر بھی تو کچھ روشنی ڈالیے۔جو کچھ اندرون سندھ ہوتا تھا، وہی ایم کیو ایم نے شہر کراچی میں کیا۔ جس طرح پولیس کو اپنی اوطاق میں بلایا جاتا تھا، اسی طرح سیکڑ آفسز میں بلایا جاتا تھا۔ شہر کی باتیں تو سب کو معلوم ہوگئیں بلکہ بُری بھی لگیں، لیکن وڈیروں کے پاس حاضری بھی تو بُری ہے۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہید ایک گاؤں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا، لوگوں کا رش لگا ہے اور ایک پو لیس والا ایک دیہاتی شخص کو بھرے مجمع کے سامنے بُری طرح مار رہا ہے۔ ڈاکٹر نذیر رک گئے اور جاتے ہی پولیس والے کا ہاتھ پکڑ لیا اور پو چھا: اس غریب کو کیوں مار رہے ہو؟ پولیس والا کہنے لگا: اس نے جرم کیا ہے۔ جس پر ڈاکڑ نذیر شہید بولے: اگر جرم کیا ہے تو عدالت میں پیش کرو، تمہیں کسی نے سزا کا اختیار نہیں دیا ہے۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو اپنے رعب میں لینے کے لیے چو ہدری صاحب کے حکم پر یہ سب کیا جا رہا تھا اور آج بھی یہ سب ہو تا ہے۔ ٖڈاکڑ نذیر شہید نے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی تو لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا اور چوہدری خان وڈیروں کی جگہ آپ کو ووٹ کی طاقت سے ممبر قومی اسمبلی منتخب کیا۔ آج بھی پولیس عوام کا تحفظ کر نے اور اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کر نے کے بجائے اثر و رسوخ والے افراد کی آلہ کار بن جاتی ہے۔ یقیناًجو پولیس اہل کار مارے گئے، ان کا قصور صرف حکم کے مطابق کام کرنا تھا، لیکن سیاسی کارکنان چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، پولیس کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ ان کو جعلی پو لیس مقا بلے میں مار دے۔ پولیس مقا بلے کے بعد اہل کاروں کا یہ سمجھنا کے ہم نے ظالم کو سزا دے دی ہے، وہ سراسر غلطی پر ہیں۔ یہ بعد کے انجام سے بھی بے خبر ہو تے ہیں، کیوں کہ قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر کسی کو بھی سزا دینا انتظامیہ کا نہیں، عدلیہ کا کام ہے۔ اس طرح کے واقعات جرائم اور ظلم کو کم کرنے کے بجائے مزید تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں۔ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے صحیح کہا تھا کہ ڈرون حملے میں مارے جانے والے ایک گھر کے نو میں سے آٹھ افراد جب ہلاک ہو جائیں تو بچ جانے والا خوشی سے نہیں نا چے گا کہ میں بچ گیا بلکہ وہ انتقام کی آگ میں جلے گا اور اپنی ساری جائیداد بھی اس انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کر نے میں لگادے گا اور اس کے انتقام کا جذبہ سرد نہیں ہوگا۔ جذبہ انتقام کو پورا کرنے کے لیے وہ کسی فرد اپنے اور پرائے کی مدد لینے میں بھی تامل نہیں کرے گا، یقیناًانتقام کی آگ بدلہ لینے کے بعد بھی ٹھنڈی نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر اخبارات میں خبریں پڑھتے ہیں کہ فلاں مقام یا شہر میں پولیس اہل کاروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کردیا گیا۔ کراچی میں گزشتہ مہینوں میں پولیس پر حملے اور ان حملوں میں ہو نے والی ہلاکتیں انتقام کا ہی شاخسانہ معلوم ہوتی ہیں، جو کہ پولیس کے نا راو سلوک اوررویّے کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔
پولیس کا یہ رویّہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ سفارش کلچر ہے۔ جب ایک فرد پولیس کی نو کری رشوت دے کر سفارش کے عوض حاصل کرتا ہے تو وہ فرد پولیس کی وردی حاصل نہیں کرتا بلکہ اس رشوت کے بدلے وہ اس وردی کو پیسا کمانے کی مشین سمجھتا ہے۔ جب وہ ناجائز طریقے سے نو کری حاصل کرتا ہے تو پھر لا محالہ رشوت اور نا جائز کمائی کو اپنے لیے جائز سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ شریف اور بد معاش میں فرق ختم کردیتا ہے اور آئے دن اخبارات میں خبریں چھپتی ہیں کہ فلاں جرم کا اڈا فلاں شراب خانہ پولیس کی سر پر ستی میں چل رہا ہے، ڈکیتی کر نے والے پو لیس اہل کار نکلے۔
سنگین وارداتوں میں پولیس اہل کاروں کے ملوث ہو نے سے عوام میں عدم تحفظ کا عنصرپیدا ہونا یقینی بات ہے، اس طرح عوام جرائم کے خلاف پولیس سے تعاون کر نے کے بجائے خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہے۔ پولیس کا بنیادی کام جرائم کی روک تھام ہے اور مظلوم کی دادرسی کرنا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس مظلوم کے لیے ’’ظالم‘‘ اور بد معاش کے لیے ’’بھیگی بلّی‘‘ بن جاتی ہے۔ اثر و رسوخ رکھنے والے مجرموں کی پشت پناہی پولیس ہی کرتی ہے کہ اس کے ان سے دوستانہ مراسم ہو تے ہیں، انہی پولیس والوں کو محکمے کی ’’کالی بھیڑیں‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کالی بھیڑوں کے جائز و ناجائز طریقے سے پیسا کمانے کی دھن نے دشمن کا کام آسان کردیا ہے، دشمن پیسا ہاتھ میں لیے گھوم رہا ہے کہ کس طرح پیسے کی لالچ دے کر ضمیر فروش پیدا کیے جائیں۔۔۔ اور یہ ضمیر و ایمان فروش ہر جگہ ہر محکمے میں پائے جاتے ہیں۔ جب پولیس اپنے فرائض سے غفلت برتے گی اور جرائم پیشہ عناصر کا ساتھ دے گی تو بد نامی پولیس کے حصے ہی میںآئی گی۔ جرائم پیشہ لوگ اتنے منظم اور مضبوط ہو تے ہیں کہ جو، ان کا ساتھ نہ دے تو پھر یہ اس کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ جرم کو طاقت سے نہیں بلکہ قانون اورانصاف کے تقا ضوں کو پورا کر کے ختم کیا جا سکتا ہے اگر قانونی تقا ضے پورے نہیں کیے جائیں گے تو پھر ردّعمل بھی آئے گا، جیسا کہ گزشتہ مہینوں میں پولیس پر فائرنگ کے پے در پے واقعات ہو ئے ہیں، جو سیاسی کلنگ بھی ہوسکتی ہے اور دہشت گردی بھی، مگر جب پولیس خود محفوظ نہ ہو تو عوام کا تحفظ کیسے ہو گا؟؟
موجودہ آئی جی سندھ نیک نامی کے حوالے سے کا فی مشہور ہیں اور پولیس میں نئی بھرتیوں کے لیے کیے جا نے والے ان کے اقدامات، جن میں این ٹی ایس ٹیسٹ اور انٹرویو میں شفافیت یقیناًقابل تحسین ہیں، ان کا مقصد صرف رشوت اور سفارش کلچر کا خاتمہ کرنا ہے، اس لیے پولیس کے محکمے میں شفاف طریقے سے ہو نے والی بھرتیاں یقیناًپولیس محکمے کی بہتری کے لیے اٹھایا جانے والا مثبت فیصلہ ہے۔ اگر آئی جی سندھ پولیس کے رویّے اور سلوک کے ساتھ ساتھ سیاسی اثر و رسوخ سے اس محکمے کو آزاد کر نے کے لیے بھی کو ئی قدم اُٹھائیں تو اس سے پولیس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ پولیس کی ابتدائی تربیت کے دوران ہی جس طرح کالج اور یو نیو رسٹیوں میں سوفٹ اسکل کا کورس پڑھایا جاتا ہے، اگر ان نو وارد اہل کاروں کو بہترین اخلاق کی بھی تر بیت دی جائے تو اچھے نتائج سامنے آئیں گے اور پولیس شائستہ، فرماں بردار، وفادار، انٹیلجنٹ، بہادر ہو کر پولیس کے موٹو کے مطابق موثر طریقے سے کام کر سکے گی!!

حصہ