(ملک میں دہشتگردی کے تازہ واقعات(محمد انور

190

ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے، اگرچہ آپریشن ضربِ عضب جاری ہے اور عسکری قوت دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہے۔ پاک فوج کی کوششوں سے ہی ستمبر2001 ء سے شروع ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں 2013ء سے کمی آنا شروع ہوگئی تھی۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کا عروج 2003ء تا 2009ء رہا۔ اس دوران یہ واقعات سالانہ 164سے بڑھ کر 3318 ہوچکے تھے۔ اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی میں کسی حد تک کمی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اقدامات سے آئی تھی۔ ان کے اقدامات سے نہ صرف سوات بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی صورت حال تبدیل ہوئی اور شرپسند گروپ بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ خصوصاً آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں واضح تبدیلی لوگوں نے محسوس کی، اور خیبر سے کراچی تک امن و امان ہوگیا۔ راحیل شریف کے ریٹائر ہونے کے صرف ڈھائی ماہ بعد دوبارہ دہشت گرد سراٹھانے لگے، جس کا قوم کو پہلے سے ہی خدشہ تھا۔ لیکن باوجود اس کے نئے آرمی چیف کے سخت بیانات اور اقدامات سے اب بھی قوم کو امید ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کسی صورت میں دہشت گردوں کو دوبارہ ملک میں فعال ہونے نہیں دیں گی۔
گزشتہ جمعرات تک محض چند روز کے دوران ملک کے چاروں صوبوں میں یکے بعد دیگرے خودکش سمیت بم دھماکوں کے آٹھ واقعات ہوئے جس میں سو سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ ان واقعات سے حکمرانوں اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھل گئی، جس کے نتیجے میں عام لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکمرانوں میں تھوڑی سی بھی غیرت ہوتی تو کم ازکم اپنی ناکامیوں کا اعلان کرکے وہ مستعفی ہوجاتے۔ دھماکوں کے ان واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ دہشت گرد ہمارے درمیان ہی ہیں، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے اداروں کے لوگ اپنے فرائض اپنی ترجیحات کے مطابق ادا کرتے ہیں، مگر ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ قوم سمجھتی ہے کہ ان اداروں نے جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی اپنے آپ کو بدل لیا ہے۔ اب ان کا قوم کے تحفظ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ یہ بھی عام پولیس کی طرح ہوگئے ہیں۔ تاہم قوم کے باشعور افراد کی سوچ اس سے مختلف ہے۔ انہیں یقین ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ، راحیل شریف سے زیادہ ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہوں گے۔
سیہون شریف میں خودکش حملے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قوم سے پرامن رہنے کی بھی اپیل کی اور کہا کہ ’’مسلح افواج دشمن قوتوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی، ہم اپنی قوم کے دفاع میں کھڑے ہیں‘‘۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ قوم کے ضائع ہونے والے خون کے ہر قطرے کا فوری طور پر بدلہ لیا جائے گا۔آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ’’اب کسی سے بھی رعایت نہیں ہوگی‘‘۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خبردار کیا ہے کہ دہشت گرد ایک بار پھر افغانستان میں منظم ہورہے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مخالف ایجنسیاں خطے کے امن و استحکام سے کھیلنے سے باز رہیں، اس قسم کی مخالفانہ سرگرمیوں کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
آرمی چیف کا یہ عزم کہ پاکستان اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا، قوم کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے بہت اہم ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گرد دوبارہ افغانستان میں منظم ہورہے ہیں اور افغانستان سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مل کر دہشت گردوں کی کوششوں کو ناکام بنانا ہوگا۔
پاک آرمی کے سپہ سالار کی باتیں اور عزم و ارادے اپنی جگہ، لیکن حالیہ واقعات کا تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن نہ صرف ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کررہا ہے بلکہ اب اس نے ’’پراکسی وار‘‘ بھی شروع کردی ہے۔ مگر حیرت ہے کہ وہ حساس تحقیقاتی اور سیکورٹی ادارے جو لاہور میں بم دھماکے سے پہلے ہی باخبر تھے کہ شہر میں دہشت گردی کی کارروائی کی جاسکتی ہے، اِس کارروائی کے بعد بھی چوکنا نہیں ہوسکے، تو کیوں؟
یہ ادارے گزشتہ سال 12نومبر کو درگاہ شاہ نورانی میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کے بعد ہی نئی حکمت عملی کے تحت پھیل کر چوکنا رہتے تو نہ لاہور کا واقعہ ہوتا اور نہ ہی سیہون شریف میں جمعرات کو خودکش بم دھماکا کیا جاسکتا تھا۔ لیکن بم دھماکا ہوا اور مزید تقریباً 75 افراد ہلاک اور ڈھائی سو سے زائد زخمی ہوگئے، لیکن حکمران اپنی روایات کے مطابق بیانات دے کر قوم کو یہ یقین دلانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کہ ’’ان کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے‘‘۔ لیکن کب؟ قوم کا یہی سوال ہے۔ سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر پر بم دھماکے کا واقعہ ہوا اور طوطوں کی طرح حکمرانوں نے بھی رٹی رٹائی باتیں شروع کردیں۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا کہ ’’ہم میں سے کسی ایک پر حملہ تمام پر حملہ ہے، یہ حملہ پاکستان کے مستقبل پر، ترقی پسند پاکستان پر حملہ ہے۔گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ ’’یہ ایک بزدلانہ حملہ ہے‘‘۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہاکہ ’’درگاہ پر حملہ بہت ہی افسوسناک ہے‘‘۔ ایسے بیانات متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
حکمراں شاید یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ اس طرح کی کارروائیوں کو افسوسناک نہیں بلکہ باعثِ مسرت سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے انہیں خوش فہمی ہو کہ حملے کو پاکستان کی ترقی پر حملہ قرار دینے سے ملک کو تنزل کی طرف لے جانے والے حاکموں کو قوم گلے لگا لے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے بیانات سن کر لوگوں کا دل حکمرانوں کو گلے لگانے کے بجائے ان کے گریبان پکڑنے کا چاہتا ہوگا۔
دہشت گردوں کی جانب سے ایسی کارروائیوں کو بزدلانہ قرار دے کر ہم کب تک اپنے آپ کو دھوکا دیں گے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن مسلسل اپنے طاقتور ہونے کا پیغام دینے کے ساتھ اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کررہا ہے۔ 13فروری کے لاہور میں ہونے والے واقعے کے بعد یہ اطلاعات کہ رانا ثناء اللہ نے شہبازشریف کو جائے وقوع پر احتجاجیوں سے مذاکرات کے لیے جانے سے روک دیا تھا، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ کیا کوئی ادارہ پنجاب کے وزیر قانون سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ ’’چودھری صاحب آپ نے کن وجوہات کی بناء پر وزیراعلیٰ پنجاب کو دھرنا دیے بیٹھے فارما سیوٹیکل اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے مذاکرات کے لیے جانے سے منع کیا تھا؟‘‘
اب ایسی اطلاعات کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اگر رانا ثناء اللہ پر کالعدم تنظیموں سے روابط کا الزام لگاتے ہیں تو کون اس الزام پر توجہ نہیں دے گا؟ شک تو کوئی بھی کسی پر کرسکتا ہے۔ مگر شاید ہمارے حساس اداروں کے ذمے داران کو حکمرانوں پر شک کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ قوم یہ بھی سوال کررہی ہے کہ کہاں گیا آپریشن ضربِ عضب؟ کیا یہی اس آپریشن کی کامیابی ہے کہ دہشت گرد جہاں چاہیں لوگوں کو نشانہ بناسکتے ہیں؟
وقت کا تقاضا ہے کہ حکمرانوں اور عسکری قیادت کو نظام کی کمزوریوں کو تلاش کرکے نئی حکمت عملی کے ساتھ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ بھارت ہو یا افغانستان، جو بھی ملوث ہو، اُس سے نمٹنا سیاسی اور عسکری اداروں کا کام ہے، یہ کام انہیں ہی کرنا ہوگا۔ پوری قوم کے مایوس ہونے سے قبل یہ بتانا پڑے گا کہ اس کے حکمران اور ادارے قوم کے لوگوں کو تحفظ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے عسکری قیادت کو جامع منصوبے اور حکمت کے تحت ’’آستین کے سانپوں‘‘ کا پتا لگانا ہوگا۔ اس کے بغیر دشمنوں کی پراکسی وار اور سرجیکل اسٹرائیک کو روکنا مشکل نظر آتا ہے۔ لاہور کا واقعہ دشمن کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی تھا۔ اس لیے سوال اب بھی وہی ہے کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے 7 فروری کو دہشت گردی کی اطلاع دیے جانے کے باوجود پنجاب حکومت نے صوبائی اسمبلی کے سامنے حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کیے؟ اور کیوں وہاں احتجاجیوں کا دھرنا ہونے دیا؟ نیکٹا جس وزیر داخلہ کی نگرانی میں کام کرتی ہے وہ بھی تو اسی مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر ہیں جس کے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ ہیں۔ شکوک و شبہات سب کو ہوسکتے ہیں، سب کو اس کا حق ہے۔ اگر پنجاب کا واقعہ ہونے سے روک لیا جاتا تو دہشت گرد جو بھلے کسی بھی ملک سے آئے ہوں، پاک سرزمین کو چھوڑ جاتے اور پھر پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔
nn

حصہ