(برصغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحریکیں(نجیب ایوبی

347

جہاں تک انگریز سے آزادی حاصل کرنے کا تعلق تھا، تو اس پر آل انڈیا کانگریس اور مسلم لیگ ایک نکتے پر متفق تھے۔
اس سلسلے میں اہم ترین پیش رفت معاہدۂ لکھنؤ تھا جو 1916ء میں طے پایا۔ اس سیاسی معاہدے کی اہمیت اس لیے بھی بہت اہم تھی کہ یہ غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ کا پہلا اور آخری سیاسی سمجھوتا تھا۔
ہندوستان کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر ہندو، مسلم اتحاد برقرار رہے گا تو آسانی کے ساتھ انگریز سے آزادی ممکن ہوسکتی ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر بہت سے رہنماؤں نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ دونوں جماعتوں میں ایسے رہنما موجود تھے جو اس خیال کے حامی تھے۔ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستان ایسے بین الاقوامی حالات اور اندرونی مسائل سے دوچار ہوا کہ ہندوستان کی سیاسی فضا یکلخت تبدیل ہوگئی۔
ایسے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان مفاہمت پیدا ہونے کے لیے حالات سازگار ہونا شروع ہوئے۔ انگریز سرکار کی جانب سے تریپولی میں اٹلی کی کارروائی کی حمایت، کانپور میں بڑے پیمانے پر قتلِ عام، اور بلقان کی جنگوں میں انگریز کی اسلام دشمن سرگرمیوں اور پالیسیوں نے اسلام مخالف فضا کو پروان چڑھایا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں تیزی سے انگریز سرکار کے خلاف نفرت کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔
معاہدۂ لکھنؤ کے پس منظر میں ہندوستان کے سیاسی حالات کا ذکر تو کردیا گیا ہے مگر ان کے علاوہ چند امور ایسے تھے جن پر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ ان میں:
* سیکریٹری آف اسٹیٹ کی کونسل کو ختم کرانا
* امپیریل لیجسلیٹو کونسل اور بڑے بڑے صوبوں میں صوبائی لیجسلیٹو کونسلوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ حقِ انتخاب کا دائرہ وسیع کرانا شامل تھا۔
ہندو مسلم اتحاد کے لیے حالات سازگار تھے۔ ان سیاسی حالات میں پہلی عالمی جنگ کی ابتدا ہوئی۔ اس شدت پسندی نے ہندو مسلم اتحاد کے نظریے کو مزید تقویت پہنچائی۔ اب دونوں قومیں (ہندو اور مسلمان) اپنے مشترکہ دشمن انگریز کے خلاف برسرپیکار ہوگئیں، اور کوئی مؤثر اور مربوط لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے موقع کا انتظار کرنے لگیں۔
بہرحال مذاکرات کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں، جس کے نتیجے میں 1915ء میں دونوں جماعتوں کے اجلاس ممبئی میں ایک ہی مقام پر منعقد ہوئے، جہاں دونوں پارٹیوں کی طرف سے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تاکہ دونوں جماعتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور مفاہمت کے کسی فارمولے پر بالمشافہ بات چیت ہوسکے۔ نومبر 1916ء میں ان کمیٹیوں کا ایک مشترکہ اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں کافی غور وخوص کے بعد ایک معاہدہ طے پایا۔ دسمبر 1916ء میں آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے اپنے اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں اس معاہدے کی توثیق کردی۔
معاہدۂ لکھنؤ کے حوالے سے جن امور و نکات پر اتفاقِ رائے ہوا ، وہ یہ ہیں:
1۔ کانگریس نے مسلم لیگ کا اوّلین مطالبہ برائے جداگانہ انتخاب تسلیم کرلیا۔
2۔ مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے بھی کانگریس نے اتفاق کرلیا۔
3۔ ہندوؤں کو پنجاب اور بنگال میں توازن بخشا گیا۔ ان صوبوں میں ہندو نشستوں میں اضافے پر مسلم لیگ نے اتفاق کرلیا۔
4۔ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں تھی وہاں مسلم نشستوں میں اضافہ کردیا گیا۔
5۔ اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ کوئی ایسا بل یا قرارداد جس کے ذریعے اگر ایک قومیت متاثر ہوسکتی ہے اور اسی قومیت کے تین چوتھائی اراکین اس بل یا قرارداد کی مخالفت کریں تو ایسا کوئی مسودۂ قانون کارروائی کے لیے کسی بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جائے گا۔
یہ معاہدہ انگریز کی پالیسی ’’Divide and Rule‘‘کے خلاف ایک مؤثر اور بہترین حکمتِ عملی تھی، ہم اسے (Be united and get ruined the British Imperialism in India)کا نام دے سکتے ہیں۔
اس حکمت عملی کو اپنانے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں جن رہنماؤں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان میں بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا نام سرفہرست ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو ان خدمات کے اعتراف کے طور پر Ambassador of Hindu Muslim کے خطابات سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں اس یادگار واقعے کی یاد میں آپ ہی کے نام پر ممبئی میں ’’جناح ہال‘‘ بھی تعمیر کیا گیا۔ یہ قائداعظم کی سیاسی زندگی کا پہلا دور تھا۔ اس پہلے دور میں آپ ہندو، مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ یہ معاہدہ آپ کی طرف سے ہندو مسلم اتحاد کا پہلا تجربہ تھا۔ لیکن بعد کے حالات و واقعات اور خاص کر ہندوؤں کے رویّے نے آپ کو اس نظریے سے منحرف کردیا۔
اس معاہدے کی شرائط پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ معاہدہ قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی ایک بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی۔ اس کی رو سے انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک علیحدہ اور کامل قوم منوایا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بھی تسلیم کروایا۔ انہوں نے مسلمانوں کے لیے اس معاہدے کے ذریعے ویٹو کا حق حاصل کیا، جو بلاشبہ ان کے بہترین مفاد میں تھا کیونکہ اس کے ذریعے وہ ہر ایسے بل کو ویٹو کرسکتے تھے جو ان کے مذہب، ثقافت یا روایات پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے کی رو سے ہندوؤں کی کوشش یہ تھی کہ کسی طریقے سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان نفاق کے بیج بو دیے جائیں۔ ان کے خیال میں اس کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوگا وہ ہندوؤں کے مفاد میں ہوگا۔ لیکن جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد حالات تبدیل ہوگئے، تحریکِ ہجرت اور تحریکِ خلافت کے ذریعے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان براہِ راست تصادم کا آغاز ہوا تو اس صورتِ حال میں ہندوؤں کے لیے معاہدۂ لکھنؤ کی اہمیت ختم ہوگئی، اس لیے کانگریسی لیڈرشپ نے اس معاہدے کو پس پشت ڈال دیا۔ معاہدۂ لکھنؤ ہندو، مسلم اتحاد کے لیے ایک آزمائش تھی، لیکن ہندو مسلم اتحاد کا نظریہ اس آزمائش میں سرخرو ہوکر نہیں نکلا۔اس طرح یہ معاہدہ ہندوؤں کی تنگ نظر ذہنیت کی بھینٹ چڑھ گیا۔
اسی طرح ہندو ذہنیت نے مزید گل بھی کھلائے ہیں جن میں ہندو بنانے کی تحریک کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ یہ تحریک ایک ہندو رہنما سوامی شردھانند نے شروع کی، جس کو مہاتما گاندھی کی پوری حمایت حاصل تھی۔ 1923ء میں ’’بھارتیہ ہندو شدھی مہا سبھا‘‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔
’’بھارتیہ ہندو شدھی مہا سبھا‘‘ نامی تنظیم کا بنیادی مقصد یہ بتایا گیا کہ ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونے والے لوگوں کو شدھی یعنی ’’پاکیزہ‘‘ کرنا اور انہیں دوبارہ ہندو مذہب میں داخل کرنا ہے۔ اس مفروضے کو سچ ثابت کرنے کے لیے جو تاویلات پیش کی گئیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مسلمان اور ان سے پہلے عیسائی اس خطے میں جب داخل ہوئے تو وہاں بسنے والے ہندو مت کے ماننے والے تھے۔ لہٰذا ان سب کو دوبارہ ہندو بنانا ضروری ہے۔ اس تحریک کو ہندو اکثریت کے خطے میں ہندو رہنماؤں کی بھرپور تائید حاصل ہوئی تو ہندوؤں نے غریب اور لاچار مسلمانوں کو دھونس اور دباؤ کے ساتھ ساتھ پیسے کا لالچ دے کر ہندو بنانا شروع کردیا۔ میو آبادی کا علاقہ میوات شدھی تحریک کا خاص نشانہ بنا۔ لگ بھگ تین سال بعد تحریک نے بتایا کہ کئی ہزار مسلمانوں کو ہندو بنادیا گیا ہے۔
اس پر غیرتِ مسلم جاگ اٹھی، اور پھر 23 دسمبر 1926ء کو عبدالرشید نامی مسلمان نوجوان نے دہلی کے نیا بازار میں واقع سوامی شردھانند کے گھر میں داخل ہوکر سوامی شردھانند کا فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔
( جاری ہے )

حصہ