(نہ دیکھ رشک سے تہذیب کی نمائش کو ۔۔۔۔۔(ربیعہ فاطمہ

385

جامعۃالمحصنات ٹوبہ ٹیک سنگھ
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
آج کل مغرب کی بے پردہ تہذیب میں پھنسی ہوئی خواتین پردے کو اپنے لیے گراں سمجھتی ہیں۔ لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ بھی عورتیں تھیں جنہوں نے جب پردے کے احکامات سنے تو اپنے جسم کی چادریں پھاڑ کر اپنی اوڑھنیاں بنا لیں۔ یہ اتنا فرق کیوں اور کیسے۔۔۔!!! میرے نزدیک یہ ترقی صرف اور صرف فکر کے زاویے کی بنا پر ہے، کیوں کہ دورِِ اول کی عورت اپنے آپ کو روحانی ترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے کوشاں رہتی تھی، جبکہ آج کی عورت نام نہاد ترقی کے جھانسے میں آکر بے پردہ ہورہی ہے۔ یہ ترقی نہیں تنزلی ہے۔ عورت کی زینت اور زیور اس کی شرم و حیا ہے۔ اور اس زیور کی حفاظت ایمان سے مشروط ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
الحیا من الایمان
حیا ایمان سے ہے
جو اپنے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتا وہ حیا کی حفاظت کیوں کر کرے گا! ایک عورت اُس وقت تک محفوظ ہے جب تک وہ حجاب میں ہے۔ آج شیطان کا سب پہلا ہتھکنڈا یہی ہے کہ عورت کو برہنہ کردے۔ لیکن اگر برتن کھلا ہو تو مکھیاں اس کو آلودہ کردیتی ہیں، اور ڈھکا ہوا برتن اس گندگی سے محفوظ رہتا ہے۔
دوسری چیز جو مغربی طاقتوں کا ہدف ہے، وہ ہمارا عائلی نظام ہے، کیوں کہ یہ واحد چیز ہے جو مسلم معاشرے کی اساس اور بقا ہے، جو اپنی خالص اور اصل صورت میں صرف مشرق ہی میں موجود ہے۔ اس کام کے لیے بھی عورت کو حجاب سے باہر لانا ضروری ہے۔ کیوں کہ جب تک مشرقی عورت کو بے پردہ نہیں کیا جائے گا اس کے عائلی نظام پر ضرب نہیں لگائی جا سکے گی۔ آج مشرقی عورت کے لیے مغرب کا پُرفریب نعرہ یہ ہے کہ پردہ ایک قید ہے اور آزادی تمھارا حق ہے جو حجاب کی موجودگی میں تمھیں حاصل نہیں ہوسکتی۔ جتنی آزادی اسلام نے عورت کو دی ہے کسی اور مذہب نے نہیں دی۔ ماں، بہن اور بیٹی کی صورت میں تکریم سے لے کر وراثت، معیشت اور معاشرت میں بھرپور حصہ۔۔۔ جبکہ مغرب میں عورت کا درجہ کیا ہے۔۔۔؟ صرف اور صرف گرل فرینڈ۔ اس لیے مظلوم تو مغربی عورت ہے۔۔۔ قید میں تو مغرب کی عورت ہے۔ مشرقی عورت تو حجاب میں بھی آزاد اور خودمختار ہے۔ اپنا الگ مقام، تشخص اور وقار رکھتی ہے۔ آج مشرقی عورت کو اسی پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
nn

حصہ