(جامعۃ المحصنات کراچی تیغ عصیاں نے غضب ڈھایا(ربیعہ محمود

202

 صفیہ کھانا بنانے میں مصروف تھی کہ ننھا مصعب دوڑتا ہوا آیا اور نہایت معصومیت سے پوچھا ’’مما، مما آپ کے ویلنٹائن تو بابا جانی ہیں، میری ویلنٹائن کون ہے؟ مجھے بھی تو اس کو پھول اور چاکلیٹ دینی ہے‘‘۔ ’’بیٹا یہ آپ کو کس نے کہا کہ بابا جانی میرے ویلنٹائن ہیں؟‘‘ صفیہ نے ایک صدمے کی کیفیت میں مصعب سے سوال کیا۔ ’’مما وہ مس ارفع نے کہا تھا کہ آپ سب کی مما کے ویلنٹائن آپ کے فادر ہیں اور 14فروری کو سب اپنے ویلنٹائن کو کارڈ، پھول اور چاکلیٹ دیتے ہیں‘‘۔ چھ سالہ مصعب کے منہ سے یہ تمام باتیں سن کر صفیہ حیرت زدہ ہوگئی۔
***
“This is for you” جنید نے اپنی کلاس ٹیچر عائزہ ملک کے ہاتھ میں سرخ گلابوں کا بکے پیش کرتے ہوئے اک ادا سے کہا۔ جنید کی اس حرکت پر عائزہ کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہوگیا، جسے ضبط کرتے ہوئے وہ صرف اتنا بول سکیں ’’یہ کیا بدتمیزی ہے جنید!‘‘ جنید نے عائزہ کے غصے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بدتمیزی نہیں میم، یہ تو ویلنٹائن ڈے کا تحفہ ہے۔۔۔‘‘
***
’’پاپا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں ناں۔۔۔؟‘‘ فائقہ نے عمران کی گود میں چڑھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’کیوں نہیں، میری گڑیا تو بہت پیاری ہے اور میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں‘‘۔ عمران نے فائقہ کے سر پر بوسہ دیا۔ ’’بابا پھر آپ نے مجھے ریڈ روز کیوں نہیں دیا؟‘‘ فائقہ نے جلدی سے اگلا سوال داغا۔ ’’میری گڑیا کو ریڈ روز کیوں چاہیے؟‘‘ عمران فائقہ کے سوال پر کچھ حیران ہوا۔ ’’پاپا آج ٹی وی پر بتایا تھا کہ14فروری کو آپ جس سے بہت پیار کرتے ہیں اسے ریڈ روز دیتے ہیں، آپ کو یاد نہیں آج 14فروری ہے۔۔۔!‘‘
یہ تمام مثالیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی مغربی تقلید کا نتیجہ ہیں۔ معصوم بچے جن کے ذہن ابھی محبت کے تصور سے آشنا ہی نہیں، ان میں محبت کا تصور کس انداز میں پھیلایا جارہا ہے۔۔۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس دن کی حقیقت کو سمجھے بغیر جوش و خروش سے اس دن کو مناتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ویلنٹائن ڈے کے پیغامات بھیجنا۔۔۔ ٹی وی پر یوم محبت کے حوالے سے رنگارنگ اشتہارات اور نوجوانوں کو اس جانب رغبت دلانے کے نت نئے طریقے۔۔۔ اسکولوں میں اس بیہودہ رسم کی ترویج اور بچوں کے درمیان سرخ گلاب کا تبادلہ۔۔۔ اخبارات میں عشقیہ پیغامات کا شائع ہونا، یہ سب اشارہ ہے کہ قوم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لغو اور حیا سے عاری معاشرے کی طرح بنانے کی کوشش جاری ہے۔
یہ دن جسے سینٹ ویلنٹائن کے نام پر منایا جاتا ہے، خود مغرب کے پادریوں کے نزدیک معتوب ہے، اور وہ اس دن کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں، اس دن کو محبت کی تذلیل قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں ہندو پنڈت ایسی کئی دکانوں کو ہر سال نذرِ آتش کرتے ہیں جن میں ویلنٹائن کے کارڈ اور تحائف فروخت کیے جا رہے ہوں۔۔۔ جبکہ پاکستان میں اسے یومِ محبت اور تمام افراد کے ساتھ اظہارِ محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اور میڈیا اس کی پوری کوریج کرتا ہے۔ اگر یہ اظہارِ محبت ایک شوہر کا بیوی کے لیے ہے تو اس کے لیے کسی دن کا مخصوص کرنا یا ہونا کیا کسی دلیل سے ثابت ہے؟
اگر یہ اظہارِ محبت بہن بھائی اور ماں باپ کے لیے ہے تو یہ ہر لمحہ انسان کے ساتھ ہے۔ اگر یہ محبت مغرب کی طرح جنس پرستی اور نفسانی خواہشات کے لیے ہے تو اسلامی اقدار کے منافی ہے۔
اسلام نے اظہارِ محبت کے لیے پاکیزہ طریقوں کی تعلیم دی ہے۔ اگر یہ محبت قرابت داروں سے ہو تو صلۂ رحمی کہلاتی ہے، اگر اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں سے ہو تو یہ حقوق العباد ہیں۔۔۔ اور اگر یہی محبت ایک شوہر کو بیوی اور بیوی کو شوہر سے ہو تو اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔
اسلام نے ہر اُس راستے کی نفی کی ہے جو معاشرے کو اخلاقی انحطاط کا شکار بنائے۔ مغرب نے ویلنٹائن ڈے کے نام پر مسلمانوں کی اقدار کو تباہ کرنے کا کاری وار کیا تھا جس میں وہ ایک حد تک کامیاب ہوچکا ہے ۔ گزشتہ سال نوروز اور فاطمہ کی اجتماعی خودکشی، ہر سال خلع کے کیسز میں اضافہ، طلاق کی شرح کا مسلسل بڑھنا۔۔۔ یہ اسی بے ہودہ رسم کا شاخسانہ ہے۔
ویلنٹائن ڈے محبت بڑھانے کا دن ہے یا معاشرے کو بے حیائی کے گڑھے میں دھکیلنے کی مذموم سازش ہے۔۔۔؟ یہ دن ہمیں محبتیں پھیلانے کا پیغام دے رہا ہے یا پھر اسلام کے احکامات سے انکار کی دعوت۔۔۔؟ یہ دن ہمارے عزت و وقار میں اضافہ ہے یا ہمارا تشخص تباہ کرنے کی مغربی سازش۔۔۔؟ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔
nn

حصہ