(جامعۃالمحصنات کراچی روداد عمرہ(صائمہ بدر

564

حج و عمرہ کا سنتے ہی مکہ اور مدینہ کا تصور ذہن میں گھومنے لگتا ہے۔ رب کعبہ کے در پر حاضری وہ سعادت ہے جس کو پانے کی تمنا ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ وہ میری زندگی کا حسین دن تھا جب مالکِ دوجہاں کی طرف سے میرا اور میرے چھوٹے بھائی کا اس گھر سے بلاوا آیا۔ لیکن افسوس، جانے سے کچھ دن قبل والدہ محترمہ کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث ہمیں یہ سفر کچھ دنوں کے لیے موقوف کرنا پڑا۔ والدہ صاحبہ کی طبیعت کی بہتری میں دس دن لگے، اس کے بعد ہم نے دوبارہ سفر کا قصد کیا۔ بالآخر وہ دن آگیا جب ہمیں اللہ کے گھر پر حاضری دینی تھی۔
دل بہت خوش تھا، لیکن ساتھ یہ خدشات بھی سر اٹھا رہے تھے کہ کہیں کوئی آزمائش پھر نہ پیش آجائے۔ لیکن اللہ کا اذن آچکا تھا کہ یہ سفر آج ہوکر رہے گا۔ بعد نمازِ ظہر ہم نے عمرے کا احرام باندھا اور لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک کی صدا لگاتے ہوئے عازمِ سفر ہوئے۔ ہماری فلائٹ شام کی تھی۔ میں تمام وقت یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں تھی کہ یااللہ کیا تُو نے واقعی ہمیں اُن خوش نصیب لوگوں میں شامل کرلیا ہے جو آج تیرے گھر کا طواف کریں گے۔۔۔ اس گھر کے سامنے نماز پڑھیں گے۔۔۔ اس گھر کو اپنے اِن گناہ گار ہاتھوں سے چھوئیں گے۔۔۔ اپنے سینے سے چمٹائیں گے۔۔۔ یا اللہ ہمارا یہ خواب حقیقت ہوجائے گا!
حدیث میں آتا ہے کہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنے پر جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ میں کیا دعا مانگ پاؤں گی، یا مانگنے کا یارا ہوگا بھی یا نہیں۔۔۔! بس اسی خیال میں مسافروں کے لیے جہاز پر بیٹھنے کا اعلان ہونے لگا۔ پھر ہم بھی اپنا سامان اٹھائے تیز تیز قدموں کے ساتھ جہاز کی طرف بڑھے۔ جہاز پر بیٹھتے ہی اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے سواری تک تو پہنچا دیا، اب منزل تک بھی خیر وعافیت کے ساتھ پہنچا دے۔ تھوڑی دیر بعد جہاز رن وے پر دوڑنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا میں بلند ہوگیا۔ جہاز کی بلندی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی قسمت کی بلندی پر بھی رشک آنے لگا۔ ہر آن خانہ کعبہ کا نقشہ ذہن میں گھومتا رہا۔ چار گھنٹے کے صبر آزما سفر کے بعد جدہ ایئرپورٹ آگیا۔ جدہ ایئرپورٹ سے مکہ مکرمہ کا سفر بس سے تقریباً دو گھنٹے کا ہے۔ جب ہم بس میں بیٹھے تو رات کے تقریباً گیارہ بج رہے تھے۔ اور یوں رات کے وقت ہم مکہ مکرمہ پہنچے۔ جوں ہی مکہ میں داخل ہوئے تو نظر اِدھر اُدھر گھومنے لگی کہ کہیں سے خانہ کعبہ نظر آجائے۔ لیکن خانہ کعبہ ایسے کہاں نظر آتا ہے۔ خیر بس نے ہمیں ہوٹل کے قریب اتارا۔ ہم بس سے اپنا سامان اتار کر ہوٹل کے کمرے میں پہنچے۔ سامان رکھ کر ڈیڑھ بجے ہم حرم کی طرف نکل پڑے۔ ہوٹل سے نکلنے کے بعد ہم نے حرم جانے کا راستہ معلوم کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ یہاں سے سیدھے چلیں تو 15 منٹ کے فاصلے پر آپ کو حرم نظر آجائے گا۔ ہم سیدھے چلنے لگے اور ہر جانب خانہ کعبہ کو محسوس کررہے تھے۔ چلتے چلتے جب ہم حدودِ حرم میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کا ایک اُمنڈتا ہوا سیلاب ہے۔۔۔ مرد دو چادر لپیٹے، جبکہ عورتیں پورے حجاب میں۔۔۔ بس ایک ہی دُھن میں سب سیدھے چلے جا رہے ہیں۔ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ رات کے دو بج رہے ہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ وہاں رات ودن ایک ہی سماں ہوتا ہے۔ ہم بھی ان چلنے والوں کے ساتھ چل رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ لبیک اللھم لبیک کی صدا لگا رہے تھے۔
مسجدِ حرم کے آثار نظر آنے لگے، اندر سے آواز آئی: ’’بس اب رک جاؤ اور اپنی نظریں جھکا لو، اب اللہ کے گھر کا نظارہ ہونے والا ہے‘‘۔ زبان پر دعاؤں کا ورد جاری تھا۔ ہم بابِ عبدالعزیز سے جیسے ہی اندر داخل ہوئے ہماری نظریں ٹھیر گئیں، زبان کنگ ہوگئی اور آنکھیں منجمد ہوگئیں۔ ہاں وہ گھر جسے دیکھنے کی آرزو، تمنا برسوں سے ہمارے دلوں میں تھی، آج ہمارے روبرو تھا۔ یااللہ کیا مانگوں سمجھ نہیں آرہا، تُو نے ہمیں کہاں پہنچا دیا، ہم تو اس قابل نہیں تھے، یہ محض تیرا فضل ہے، کرم ہے۔ ہم بت بنے کھڑے تھے۔ آگے پیچھے سے دھکے لگ رہے تھے لیکن ہم اس گھر کو دیکھنے میں محو تھے۔ دل تھا کہ بھر ہی نہیں رہا تھا۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ یہاں ہر آن نور کی تجلی رہتی ہے، ہزاروں فرشتے اس کے گرد طواف کرتے رہتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ ہم نے طواف کی نیت کرتے ہوئے کعبہ سے قریب ہونے کی کوشش کی۔ پہلا چکر شروع کیا۔ کہتے ہیں کہ طواف کرتے وقت کعبے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ میں نے بارہا کوشش کی لیکن میری نظریں خانہ کعبہ پر ہی جمی رہیں۔ سات چکر مکمل کرنے کے بعد دو رکعت واجب الطواف ادا کرنے کے لیے مقامِ ابراہیم کی طرف دیکھا تو وہاں لوگوں کا ایسا ہجوم کہ پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ بہت کوشش کے بعد مطاف کی آخری صف میں جگہ ملی۔ زندگی میں پہلی بار ہماری سجدہ گاہ کے سامنے وہی گھر تھا جس کی طرف آج سے پہلے رخ اور تصور ہوا کرتا تھا۔ بس دل پہ اختیار نہ رہا، دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔
قربِ الٰہی کی سیلابی موجوں میں گریہ وزاری کرتے کرتے وقت کا احساس ہی نہ ہوا کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ نماز ادا کرنے کے بعد سعی کی غرض سے صفا و مروہ کا رخ کیا۔ صفا و مروہ واقعی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو بی بی ہاجرہ کا اضطراب یاد دلاتی ہے۔ آج اس صفا و مروہ کو سنگِ مرمر کے پتھروں سے مزین کردیا گیا ہے۔ سعی کرنے کے بعد پاؤں تھکنے لگے، اس وقت شدت سے بی بی ہاجرہ کی دوڑ کا احساس ہوا اور ساتھ میں وہ بچہ جو پیاس کی شدت سے بلک رہا تھا، ایسے میں ماں کی کیا کیفیت ہوگی۔۔۔ اللہ اکبر۔ تب ہی تو اللہ کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے اسے اپنے دین کا شعار بنادیا۔ سبحان اللہ۔ صفا ومروہ کی سعی کی، اور جب ہمارا عمرہ ادا ہوا تو دل ایک خوشی اور طمانیت سے بھر گیا۔ بارگاہِ الٰہی میں شکرانے کے نفل ادا کیے۔ ہمارا مکہ میں پانچ دن کا قیام تھا۔
اپنے سفر کے ابتدائی دن مکہ مکرمہ میں گزارنے کے بعد ہمیں بحمداللہ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ پانچ دن بعد صبح10 بجے ہم پرائیویٹ گاڑی کے ذریعے مدینہ روانہ ہوئے۔ مکہ سے مدینہ کا فاصلہ تقریباً 277 کلومیٹر ہے۔ ماضی میں یہ سفر طویل ہوا کرتا تھا لیکن اب مختصر ہوگیا ہے۔ خیر، سامان کو گاڑی میں رکھنے کے بعد ہم گاڑی پر سوار ہوئے اور یوں مکہ کی گلیوں اور سڑکوں سے ہوتے ہوئے ہم مرکزی شاہراہ پر آگئے۔ یہ سڑک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کے راستوں سے ہوتی ہوئی مدینہ پہنچتی ہے۔ لہٰذا پورے راستے ذہن اُس دور میں گھومتا رہا جب ہادئ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ ان سخت راستوں سے ہوتے ہوئے مدینہ پہنچے تھے۔ کروڑوں دُرود و سلام ہوں آپؐ اور آپؐ کے جانشینوں پر، جنھوں نے ان سخت حالات میں بھی دین کے نفاذ کی کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر اس دین کو خطے میں نافذ کردکھایا۔
(جاری ہے)

آہستہ آہستہ ہم مدینہ کے قریب پہنچنے لگے اور ہمیں سڑک پر لگی رہنما تختی سے پتہ چلتا رہا کہ مدینہ تقریباً ۵۰ کلو میٹر دور ہے اتنی دور سے بھی مدینے کی انوار وبرکات واضح طور پر محسوس ہو رہی تھیں۔میرے موبائل پر صدا بہار نعت ’’ فاصلوں کو تکلف ہے ‘‘ چل رہی تھی اور بخدا آج اس نعت کا ہر مصرہ دل کی گہرائیوں اتر کر عملی نمونہ پیش کر رہا تھا اسی سرور میں ہم مدینے داخل ہو گئے تو چند ساعتوں کے بعد ہی مسجدِ نبوی کے بلند وبالا مینار ہماری نظروں کے سامنے تھے ہماری رہائش گاہ اُحد پہاڑ کے جانب تھی اپنی رہائش گاہ میں پہنچ کر غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر اور خوشبو لگا کر انتہائی عقیدت اور پُر نم آنکھوں کے ساتھ مسجدِ نبوی کی جانب بڑھنے لگے اور جنت البقیع کی طرف سے ہو تے ہوئے بابِ جبرائیل کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ بابِ جبرائیل وہ مقام ہے جہاں سے داخل ہونا سب سے افضل ہے اور آپﷺ کے دور میں حضرت جبرائیل بھی اسی دروازے سے داخل ہوتے تھے اور اسی وجہ سے اس دروازے کا نام بابِ جبرائیل ہے بابِ جبرائیل کے سامنے گنبدِ خضرا خوبصورت اور ایمان افروز نظارہ ہوتا ہے۔چنانچہ ہم جوں ہی یہاں پہنچے تو ہماری گناہ گارآنکھوں کے سامنے ( رحمت العا لمین ﷺ ) کے روضہ ءِ اطہر کاگنبد نظر آنے لگا۔
رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ، کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دوکانِ آئینہ ساز میں
گنبدِ خضرا کا دیدار ہر مسلمان کی دائمی آرزو ہوتی ہے یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب بندہ مومن کا ہر عضو ایمان سے سرشار ہوکر دورودِ سلام کا نذرانہ پیش کرنے لگتا ہے اس لمحے کی روداد الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہر مسلمان کو بنفسِ نفیس اس کے مشاہدے کی سعادت نصیب فرمائے ( آمین)
اس پُر کیف نظارے کی سعادت کے بعد ہم نے مسجدِ نبوی میں اپنی پہلی نماز ادا کی یہ نماز مغرب کی تھی جسء شیخ و امامِ مسجد نبوی کی امامت نے چار چاند لگا دئیے تھے عربوں کو قرآن پڑھنے کا جو وصف اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے وہ شاید ہی کسی قوم کو نصیب ہوا ہو۔نمازِ مغرب سے فراغت کے بعد ہم نے روضہ اطہر میں حاضری کا ارادہ کیا۔
روضہ پاک کی حاضری کے لئے تمام حاضرین ’’بابِ اسلام‘‘ سے داخل ہوتے ہیں اور پیش قدمی کرتے ہوئے ریاض الجنۃ تک پہنچ جاتے ہیں ریاض الجنۃ کے فوراً بعد وہ رحمت العالمینﷺ کے روضہ کے بالکل سامنے پہنچ جاتے ہیں جہاں سے محمدﷺ پر دورود وسلام بھیجتے ہیں اور اسی طرح دورود وسلام بھیجتے ہوئے دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں
مردوں کے لئے حاضری عشاء سے رات ۱۲ بجے تک تک کے علاوہ سارا دن ہوتی ہے اور خواتین کیلئے عشاءٗ سے رات ۱۲ بجے تک درود وسلام کا انتظام ہوتا ہے تاکہ اس اعلیٰ و ارفع مقام پر پردہ اور باقی اخلاقی ضوبط کو ملحوظِ حاضر رکھا جاسکے۔ بہر کیف اللہ کے فضل وکرم سے ہم نے بھی اپنی زندگی کی بہت ہی عزیز خواہش کو پورا کیا
اس مقام پر پہنچ کر انسان اپنی ذات کو بالکل ہی بھول جاتاہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بندہ آ پ ﷺ کے قدموں میں آ بیٹھا ہے دنیا کا ایک اصول ہے کہ کوئی عزیز اپنے پیاروں سے ملاقات کے وقت کچھ تحائف بھی لے کے جاتا ہے لیکن ایک گناہگار اپنے گناہوں کے بوجھ کے علاوہ اور کیا لے جاسکتا ہے۔
الغرض درود وسلام اور نمازِ عشاٗ سے فراغت کے بعد ہم واپس ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ہوٹل پہنچ کر اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ آپ نے ہمیں یہاں حاضری کا موقع دیا اور بعد ازاں رات کے کھانے سے فراغت اورپاکستان میں اپنے اہل وعیال سے بات چیت کرنے کے بعد ہم آرام کرنے کی غرض سے سو گئے۔
مدینہ میں ہمارا قیام تقریباً ۱۰ دن تھا اس دوران ہم نے مدینہ کے کئی مقامات کی زیارت کی، ہمارے ایک عزیز جو مدینے کے قریب میں واقع ایک فرم میں میکینکل انجیئنر ہیں وہ بھی ہم سے ملنے آگئے اور خود اپنی گاڑی میں ہمیں مدینہ کے تمام مقامات کی زیارت کروائی، اللہ پاک ان کو مہمان نوازی کی بھر پو ر جزا عطا فر ما ئے�آمین)
وقت کا پہیہ چلتا رہا اور مد ینے میں ہما رے قیام کا آخری دن آپہنچا اس دن ہم صبح سے ہی مسجد پہنچ گئے۔ ہم خواتین نے ایک را ت قبل ہی الوداعی درود و سلام پیش کر دیا تھا البتہ مرد حضرات کو دو بارہ مو قع ملا ہم سب نے ایک دوسرے سے واپسی کا وقت اور جگہ متعین کر کے انفرادی اعتبار سے عبادت کا ارادہ کیا تا کہ جس کا دل جہاں چا ہے اور مسجد کے جس حصے میں چاہے عبادت کرے اور اپنے دل کی حسرت پو ری کرے۔
بہر کیف ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا اور اس سے فراغت کے بعد ہم سب انتہائی عقیدت، محبت اور شدید غم و کرب میں مبتلا ہو کر حسرت بھری نگاہوں سے گنبدِ خضرا کا نظارہ کر تے ہوئے مسجدِ نبوی سے رخصت ہو گئے…..
اپنے شیڈول کے مطابق اب ہمیں دوبارہ مکہ روانہ ہونا تھا لہٰذا ہوٹل پہنچ کر فوراً احرام باندھا اور گاڑی میں سوار ہوگئے۔ تھوڑی ہی دیر میں مدینہ کی گلیوں اور سڑکوں سے رخصت ہوتے ہوئے مرکزی شاہراہ پر آ گئے اور اب ہم تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ کی جانب رواں تھے عصر اور مغرب کی نماز راستے میں ادا کرتے ہوئے ہم بعد نماز عشاء مکہ المکرمہ پہنچ گئے۔اس بار مکہ میں ہمارا قیام ۴ دن کا تھا اور ہماری رہائش کا بندو بست مکہ کے ہوٹل ’’فندق الزھرۃ ‘‘ میں تھا ہوٹل پہنچ کر وضو اور نوافل سے فراغت کے بعد ہم تلبیہ پڑھتے ہوئے بیت اللہ کی جانب روانہ ہو گئے اور تقریباً رات ۱۲ بجے حرم میں داخل ہوئے مطاف میں ایک کنارے میں کھڑے ہو کر خوب دعا مانگی اور مطاف میں اتر کر طواف شروع کر دیا۔ طواف، نوافل، سعی اور حلق سے فراغت کے بعد بحمد للہ ہمارا عمرہ مکمل ہو ا یہ تہجد کا وقت تھا۔ بیت اللہ میں تہجد کی بھی اذان ہوتی ہے یہ اذان اتنی خوش الحانی سے ہو تی ہے کہ قرب و جوار کا ہر ذرہ سمٹ کر اللہ کی بڑائی بیان کرتا محسوس ہو تا ہے لہذٰا ہم نے بھی نمازِ تہجد ادا کی اور رب کی بار گاہ میں شکر ادا کیا کہ اس نے ایک بار پھر ہم گناہ گاروں کو اپنے گھر آنے اور عمرہ ادا کرنے کی سعادت عنایت فرمائی۔
تھوڑی ہی دیر بعد فجر کا وقت ہو گیا چنانچہ ہم نے فجر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنے ہو ٹل کا رُخ کیا۔یہ جمعہ کا دن تھا۔حرم شریف میں عام دنوں کی بہ نسبت جمعہ کے دن کافی رش ہو تا ہے اور جمعہ کی نماز مین بیت اللہ کے قریب جگہ حاصل کرنے کے لئے بہت پہلے آنا پڑتا ہے چنانچہ ہم نے اس غرض سے ناشتہ اور بہت مختصر آرام کے بعد جمعہ کی تیاری کی اور بیت اللہ جا پہنچے۔
جمعہ کی نماز سے فراغت کے بعد ہمیں مکہ کے مقدس مقامات کی زیارت کرنا تھی ہمارے اسی عزیز نے اپنے ایک دوست کو ہمیں زیارت کرانے کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ چنانچہ نماز سے فراغت کے بعد انھوں نے ہم سے ملاقات کی بعد ازاں ہم انکی گاڑی میں سوار ہو کر زیارت کو روانہ ہو گئے سارے کے دوران ان کی مہمان نوازی قابلِ ستائش تھی جس کے سبب ہم نے تمام مقامات کی زیارت انتہائی اطمینان اور دل جمعی کے ساتھ کی ہماری دعا ہے کہ اللہ انھیں اس مہمان نوازی کی بھر پوجزٗ عطا کرے ( آمین)
یہ پُر کیف دن گزرتے گئے اور آخری دن آ پہنچا ہمیں مغرب کے بعد ہوائی اڈہ کے لئے روانہ ہو نا تھا چنانچہ صبح سے وقت کا تعین کر کے بیت اللہ میں داخل ہو گئے تاکہ حسرتوں کو پورا کرسکیں اس دن ہم نے کئی نفلی طواف کئے اور بار بار خانہ کعبہ سے جا چمٹے اور اسے بوسہ دیتے رہے۔رب کا بڑا ہی شکر ہے کہ اس نے ہمیں بار بار خانہ کعبہ کو چھونے کا موقع عنایت فرمایا۔عبادت ریا ضت کرتے کرتے اب عصر کا وقت ہو گیا ہمیں عصر پڑھتے ہی ہوٹل کے لئے روانہ تھا چنانچہ ہم نے آخری بار کعبہ کو بوسہ دیا اور بعد از نماز پُر نم آنکھوں کے ساتھ ہم حرم شریف سے روانہ ہوئے اور بار بار مڑ کر بیت اللہ کو دیکھتے اور دعا کرتے یا اللہ ! پھر یہاں آنا نصیب فرما۔(آمین)
پُر نم آنکھوں کے ساتھ ہم ہوٹل آ گئے اور فوراً تیاری کر کے ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے مکہ سے جدہ تک کے سفر کے دوران ہم بار بار اللہ کے حضور دعا کرتے رہے کہ یا اللہ ہم تیرے ان مقدس مقامات کا حق ادا نہ کر سکے۔ اے رب تو ہماری غلطیوں سے ناراض ہو کر ہمیں محروم نہ فرما اور ہماری ان ٹوٹی پھوٹی کوششوں کو قبول فرما کر اسے ہمارے لئے توشہٗ آخرت بنا۔(آمین)
ان خیالوں میں گم ہم جدہ ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ ہماری فلائٹ تین گھنٹے تاخیر کا شکار تھی چنانچہ کسٹم وغیرہ کے مراحل سے فارٖغ ہو کر ہم لاؤنچ میں بیٹھ گئے۔ تقریباً صبح ۴۵:۵ پر طیارے میں سوار ہوئے اور دن ۱۲ بجے کراچی ایئر پورٹ اتر گئے۔گھر واپس آکر بس یہ ہی دعا ہے کہ اے اللہ ہمیں بار بار اپنے حرم کے دیدار کی سعادت عطا فرما۔

حصہ