(ماں تو ماں ہے ۔۔۔۔۔(افشاں نوید

246

امریکی شہری ٹیری والس کی عمر اس وقت 40 برس تھی جب وہ 19 برس بے ہوش رہنے کے بعد ہوش میں آیا تھا۔ وہ اس وقت محض 21 برس کا تھا جب پچیس فٹ کی بلندی سے ایک خشک دریا میں اس ٹرک سے گر گیا تھا جس پر وہ سوار تھا۔ وہ سر کے بل گرا تھا اور دماغ پر چوٹ آئی تھی۔ بے ہوشی کے عالم میں اس کو نالیوں کے ذریعے خوراک دی جاتی رہی۔ ڈاکٹر اس نوجوان کی پوری طرح حفاظت کررہے تھے اس امید پر کہ وہ ایک دن ہوش میں ضرور آئے گا۔ 19 برس ’’کوما‘‘میں رہنے کے بعد اِس صبح اسے اچانک معمولی سا ہوش آیا، اس کی پلکوں پر جنبش ہوئی۔ ڈیوٹی پر موجود عملہ اس کے گرد جمع ہوگیا، ان پر شادئ مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ٹیری پر جھکے ہوئے تھے کہ اب ٹیری کے ہونٹ جنبش میں آئیں گے۔ کتنا خوبصورت ہوگا وہ لمحہ، جب انیس برس بعد ٹیری کی زبان حرکت کرے گی۔۔۔!!! ٹیری شادی شدہ اور ایک بچی کا باپ تھا۔ اس کی شیر خوار بچی، اس کی بے ہوشی میں اب 19 برس کی ہوچکی تھی۔ اس کی بیوی اور بیٹی اس کی آنکھوں کے سامنے تھیں۔ اس کے ہونٹوں نے جنبش کی اور پہلا لفظ جو اس پر جھکے ہوئے لوگوں نے سنا، اس نے کمزور سی آواز میں پکارا۔۔۔’’مام‘‘ (ماں)
ہم ہوش میں ہوں یا بے ہوش، حقیقت تو یہی ہے کہ ساری عمر اپنی ’’ماؤں‘‘ کو ہی پکارتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ نو ماہ رحم مادر میں گزارنے کے بعد جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو بظاہر ماں کے وجود سے الگ ہوجاتا ہے مگر ماں تو اس کے وجود کا حصہ بن کر اس کے اندر سرایت کررہی ہوتی ہے۔ وہ ماں ہی کے جسم کا حصہ رہتا ہے ساری عمر۔ دنیا کی ہر ماں سچا عشق کرتی ہے اپنی اولاد سے۔ ہر ماں مجنوں ہوتی ہے اور اس کے بچے اس کی لیلیٰ ہوتے ہیں۔
یوں تو شرق وغرب میں ایک ہی شکوہ ہے کہ اخلاقی اقدار روبہ زوال ہیں اور سائنسی ترقی اور انسان کی تیز رفتاری نے رشتوں کو کمزور کردیا ہے۔ لیکن ’’ماں‘‘ کا رشتہ وہ رشتہ ہے جس کو حالات کا کوئی بھی مدوجزر کمزور نہیں کرسکتا، کیوں کہ نوماہ رحم میں رکھنے کے بعد وہ زندگی بھر اپنی اولاد کو ممتا کی ٹھنڈی چھاؤں میں رکھتی ہے۔
ماں اور میکے کی یادیں بڑھاپے کی عمر تک بلکہ آخری سانسوں تک ایک عورت کی زندگی میں جیون رس گھولتی ہیں!!! ماؤں کے بغیر کتنی ویران ہے یہ دنیا کہ اس کائنات کے سارے رنگ ہی ماؤں کی پرچھائیاں ہیں۔ ایک عورت کا اصل روپ ہی ماں کا روپ ہے جو دراصل اس کے وجود کی تکمیل ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر عورت کے لیے ماں بننا اس کی زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی ماں کو جاننے کے لیے کسی کتاب کو پڑھنے یا کسی کی رائے جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ کسی انسان کے لیے یہ بات بہت اہم بھی نہیں ہوتی کہ اس کی ماں کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہے؟ یہاں تک کہ لوگوں کی رائے اس کی رائے کو تبدیل بھی نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ ہر بچہ اپنی ماں کے بارے میں سب سے اہم حقیقت یہ جانتا ہے کہ وہ اس کی ’’ماں‘‘ ہے اور اُس جیسا اس بھری دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ ماں دراصل ایک رویّے کا نام ہے، ایک قربانی کا عنوان ہے، ایک عشق کی داستان ہے جو بچوں کی جان ہے اور اولاد پر مہربان ہے۔ اس لیے جب کسی کے احسان کو ہم دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں تو شکریے کے طور پر بے اختیار ہماری زبان پر یہ الفاظ آجاتے ہیں کہ ’’آپ تو میری ماں جیسی ہیں۔‘‘
ہماری ماؤں کو دنیا سے گزرے ہوئے جتنا بھی عرصہ ہوجائے، نہ ماؤں کی یادوں میں کوئی کمی آتی ہے نہ اُن کے ذکر میں، نہ دل و دماغ کبھی ان کے احسانوں کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی ماؤں کا حق ادا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اور اللہ رب کریم نے قرآن میں اپنے حقوق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر کرکے ان کے حقوق پر مہر ثبت کردی ہے۔
ہماری مائیں
ایک طرف ہمارا رونگٹا رونگٹا اپنی ماؤں کا سپاس گزار ہے، دوسری طرف ہم اپنی اُن ماؤں کو جانتے تک نہیں جو امت کی مائیں ہیں۔ رہتی دنیا تک امتی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتے۔ ان کی قربانیاں اسلامی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ازواجِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ بیتِ رسولؐ کی یہ عظیم ہستیاں جن کی عظمت کے لیے اگرچہ یہی کافی تھا کہ ان کا تعلق اور نسبت دنیا کی سب سے عظیم ہستی کے ساتھ ہے، لیکن ان کی اپنی بلند کرداری اور استقامت نے بھی یہ گواہی پیش کی کہ وہ اس کی مستحق تھیں کہ یہ اعزاز ان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوں، کیوں کہ تاریخ عالم گواہ ہے کہ اللہ کے نبیؐ بہترین قبیلے اور اعلیٰ کنبے میں مبعوث فرمائے گئے۔
رول ماڈل
آج نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بات کی جائے تو اکثریت کی رائے یہی ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں رول ماڈلز کا فقدان ہے۔ یہ اسلامی تاریخ سے سراسر لاعلمی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے تاریخ کے ہر دور میں مثالی نمونے موجود ہیں، اور سب سے بڑھ کر تو اہلِ بیتِ رسولؐ نے اپنی زندگیوں سے اتنی عظیم الشان مثالیں پیش کی ہیں۔ یہ آج ساڑھے چودہ سو برس کے بعد بھی وہ روشنی چھن چھن کر ہم تک پہنچتی ہے تو ہمارے قلب وجاں کو معطر کردیتی ہے۔
محسنِ نسواں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عورت کو ماں کی حیثیت میں وہ بلند اور عظیم مرتبہ عطا فرمایا کہ بنی نوع انسان کو اس کا احسان مند کردیا۔
حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کا بحیثیت ’’ماں‘‘ مثالی کردار آنے والی نسلوں کی قیامت تک رہنمائی کرتا رہے گا۔ ہمیں ضرورت ہے تاریخ کے ان دریچوں میں جھانکنے اور آبِ حیات تلاش کرنے کی۔ یہ کیسی بدنصیبی کی بات ہے کہ تاریخ ان ہستیوں کی ضوفشانیوں سے منور ہو اور ہم آنکھیں بند کیے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے اور کسی رول ماڈل کو مغرب میں تلاش کرتے پھریں۔
بتول
آئیے مومنوں کی عظیم ماں فاطمۃ الزہرہؓ سے تعارف حاصل کرتے ہیں۔ جی ہاں یہی وہ ہستی ہیں جن کی پیدائش کی خبر روح الامین حضرت جبریلؑ نے آپؐ کو دی تھی کہ بیٹی پیدا ہوگی تو آپؐ اس کا نام فاطمہ رکھیے گا۔ جس کے معنی پاک، بابرکت اور پاکیزہ اطوار کے ہیں۔ دیگر القابات کے علاوہ آپ کا لقب ’’بتول‘‘ بہت مقبول ہے۔ اور اس کی شہرت کی ایک بڑی خاص وجہ ہے۔ قرآن میں سورۂ مزمل میں رب کریم نے ارشاد فرمایا:
وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلَا ۔۔۔ اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔
(سورۂ مزمل :8)
آپؓ نے دنیا اور اس کی لذتوں اور خواہشوں سے قطع تعلق کرکے رب کریم، خالقِ حقیقی سے اپنا رشتہ استوار کرلیا تھا۔ یہ بات کہنے میں بہت آسان ہے لیکن اپنی پوری زندگی سے اس کی گواہی پیش کرنا اتنا آسان ہوتا تو آج صرف سیدہ فاطمہ ہی ’’بتول‘‘ کے لقب سے نہ جانی جاتیں۔ آپؓ نے بچپن سے اللہ کی جناب میں حاضری تک مستقل یہ گواہی دی کہ واقعتا وہ بتول ہیں۔ سب سے کٹ کر اپنے رب کی ہو رہنے والی ہستی ہیں۔ اور یہ لقب اسی کو زیبا ہے جس کے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ماں حضرت خدیجہؓ جیسی شخصیت ہیں، شوہرِ نامدار بلند علمی مرتبہ رکھنے والے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور آپؓ کے فرزند حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ ہیں جو نوجوانانِ جنت کے سردار ہونے کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
وہی سیدہ فاطمہؓ جو اپنے عظیم باپ اور ان کے نام لیواؤں پر ظلم وجبر کے پہاڑ ٹوٹتے ہوئے دیکھتیں تو حد درجہ آزردہ ہوجاتیں، مگر اپنے ہم عمر بچوں کے برعکس دورِ رسالت کی آزمائشوں میں ہمیشہ اپنے عظیم باپ کی غمگسار رہیں۔ ایسے ہی کسی موقع پر ننھی سیدہ فاطمہ روپڑی ہوں گی۔ ہتھیلیوں سے آنسو پونچھتی جاتی ہوں گی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو تسلی دیتے ہوئے یہ الفاظ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’میری بچی گھبراؤ نہیں، خدا تمہارے باپ کو تنہا نہ چھوڑے گا۔‘‘
اور وقت نے دیکھا اور رقم کیا کہ واقعی اللہ رب کریم نے نہ باپ کو تنہا چھوڑا نہ بیٹی کو۔ مگر زندگی تو نام ہے امتحان کا، اور ننھی سیدہ کے لیے اونٹ کی اوجھ اپنے باپ کے مقدس شانوں کے درمیان سے ہٹانا کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ اس شرارت کی اطلاع پاتے ہی دوڑتی ہوئی کعبۃ اللہ پہنچتی ہیں، کفار کھڑے ہنس رہے ہیں، تمسخر کررہے ہیں اور آپؐ کی لختِ جگر اور نورِ نظر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے گردنِ مبارک سے اوجھ ہٹارہی ہیں اور دل کا درد لبوں تک آجاتا ہے کہ ’’شریرو! اللہ تمہیں ضرور ان شرارتوں کی سزا دے گا۔‘‘
اور سیدہ فاطمہؓ کی تربیت تو شعبِ ابی طالب میں بھی خوب ہوئی تھی۔ وہ گھاٹی جہاں تین برس تک اہلِ ایمان اس جرم کی پاداش میں محصور رہے کہ انہوں نے وقت کے خداؤں کی چاکری کے بجائے ایک خدا کی پرستش کا مطالبہ کیوں کیا تھا؟ محاصرہ ایسا سخت کہ گیہوں کا ایک دانہ تک مشرکینِ مکہ اس درّہ میں نہ پہنچنے دیتے۔ بچے بلبلاتے، عورتیں غذائی قلت کے باعث شیر خواروں کو دودھ پلانے سے عاجز ہوگئیں۔ محصورین غذائی بندش کے باعث درختوں اور جھاڑیوں کے پتّے ابال ابال کر اپنا پیٹ بھرتے۔ ببول کے درختوں کے پتّے کھانے سے منہ میں چھالے پڑگئے، یہاں تک کہ سوکھے چمڑے کے ٹکڑے کا ستو بناکر پینے پر مجبور ہوگئے۔ حضرت فاطمہؓ بھی اس محاصرے میں اپنے بابا (ان پر لاکھوں سلام اور ہمارے جیسے لاکھوں بار آپؐ پر قربان) کے ہمراہ رہیں۔ تین برس تک خوف ناک مصائب برداشت کرکے سیدہ کی شخصیت استقامت اور عزیمت کا لازوال نمونہ بن گئی۔
باپ کی نصیحت
عظیم باپ نے اپنی بیٹی کو نصیحت یہ فرمائی تھی کہ عورت کا سب سے بڑا فرض خاوند کی اطاعت اور فرماں برداری ہے۔ اس لیے سیدہ اپنے شوہر کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتیں۔ روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے درمیان کسی بات پر چپقلش ہوگئی۔ آپؐ اپنی بیٹی کے گھر تشریف لے گئے۔ اس وقت چہرے پر کرب کے آثار تھے۔ آپؐ نے دونوں میں صلح صفائی کرائی اور جب گھر سے باہر تشریف لائے تو آپؐ کا چہرۂ مبارک خوشی سے دمک رہا تھا۔ اصحابِ رسول نے اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا: ’’میں نے ان دو لوگوں میں صلح صفائی کرا دی ہے جو مجھے بہت زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ (مدارج النبوۃ)
ایک روایت کے مطابق آپؐ نے اس موقع پر یہ ارشاد فرمایا: ’’بیٹی میری بات غور سے سنو، کوئی میاں بیوی ایسے نہیں ہیں جن کے درمیان کبھی اختلافِ رائے پیدا نہ ہو، اور ایسا کون سا مرد ہے جو ہر کام بیوی کے مزاج کے مطابق ہی کرتا ہو اور بیوی کی کسی بھی بات پر ناخوشی کا کبھی اظہار نہ کرتا ہو۔‘‘
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سن کر حضرت علیؓ پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے فرمایا ’’خدا کی قسم آئندہ میں کبھی کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جو تمہارے مزاج کے خلاف ہو یا جس سے تمہاری دل شکنی ہو۔‘‘ (طبقات ابن سعد واصابہ لابن حجرؒ )
ایک دن نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت علیؓ کو نہ پایا۔ پوچھا: میرے ابنِ عم کہاں ہیں؟ بولیں: ان کا مجھ سے جھگڑا ہوگیا ہے اور دوپہر کو گھر میں نہیں لیٹے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تشویش لاحق ہوئی۔ ایک صحابی کو دوڑایا کہ جاکر تلاش کریں حضرت علیؓ کہاں ہیں۔ انہوں نے آکر خبر دی کہ وہ مسجد میں سورہے ہیں۔ آپؐ وہاں تشریف لے گئے۔ حضرت علیؓ لیٹے ہوئے تھے۔ چادر جسمِ مبارک سے سرک گئی تھی اور مٹی جسم پر لگ گئی تھی۔ آپؐ ان کے قریب بیٹھ کر جسم سے مٹی جھاڑتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: ’’اٹھو! ابوتراب، اٹھو! ابوتراب‘‘۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے ہمراہ گھر لائے اور دونوں میاں بیوی کی ناراضی دور کرا دی۔ اہلِ سِیَر کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے ابوتراب اتنا پسند آیا کہ ساری زندگی خود کو ابوتراب کہلوانا پسند کیا۔
بے مثال شریکِ حیات
عورت کی ہستی بھی کیا چیز ہے؟ اس کا تو دماغ بھی اس کے دل کا حصہ ہوتا ہے۔ اپنے معاملات کے ذریعے سیدہؓ نے عورت پر وہ کردار آشکار کیا جس سے خود عورت بھی بے خبر تھی۔ ذرا توجہ تو کیجیے یہ سیدہ فاطمہؓ ہیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی شہزادی۔ رات بھر بخار میں مبتلا رہی ہیں، سخت بے چینی میں رات گزری ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا۔ پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا فاطمہؓ وضو کررہی ہیں۔ میں مسجد چلاگیا۔ واپس آیا تو دیکھا فاطمہؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں (رات بھر بخار میں مبتلا فاطمہؓ کو آرام کرنا چاہیے تھا)۔ میں نے کہا: فاطمہؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا! رات بھر بخار، پھر صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو، اب چکی پیس رہی ہو، خدا نہ کرے کہ زیادہ بیمار ہوجاؤ۔ فاطمہؓ نے سن کر سر جھکا لیا اور جواب دیا: ’’اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جاؤں تو کوئی پروا نہیں ہے۔ میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی، یہ رب کی اطاعت تھی، اب چکی پیس رہی ہوں یہ آپ کی اور بچوں کی خدمت ہے۔‘‘ ان چند لفظوں میں معنی کی ایک دنیا پنہاں ہے اور بہت سے حجاب ہٹ جاتے ہیں۔ شہزادی سیدہ فاطمہؓ کا یہ جواب آج سماج کے بہت سارے مسائل کی گتھیاں سلجھانے کو کافی ہے۔ جو مغرب میں امیج ہے ایک مسلمان عورت کا کہ اس کو گھر کی باندی بنا کر رکھا جاتا ہے، مرد اس پر ظلم کرتا ہے، وہ ظلم کی چکی میں پستی ہے، اس کو سماجی دوڑ میں شامل کرنے اور رفاہی خدمات انجام دینے کے بجائے گھر کی خادمہ سمجھا جاتا ہے، پھر گھر کے کام عورت ہی کیوں کرے؟ جب کہ گھر میاں بیوی دونوں کا ہے اور بچے بھی دونوں کے ہیں، پھر قربانی کا بکرا عورت ہی کیوں بنے؟ خدمت کا عنوان وہی کیوں قرار پائے؟ اسے احساس دلانا کہ تم خدمت کے لیے پیدا نہیں کی گئیں۔ (جاری ہے)

سوچیے! بھلا ہم مسلمان عورتوں کے لیے اس ہستی کے ماسوا کون رول ماڈل ہوسکتا ہے جو جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ جنت کے سوا بھی کوئی گوہرِ مقصود ہوسکتا ہے! سیدہ فاطمہؓ نے رہتی دنیا تک مسلمان عورتوں کے مسائل کی ساری گرہیں سلجھا دیں۔ ہم نہ سمجھنا چاہیں، ہماری اور چودہ سو برس پرانی تاریخ کے درمیان حجاب حائل رہیں تو اور بات ہے۔ درس تو قیامت تک کی مسلمان عورتوں کے لیے کافی شافی تھا کہ مسلمان عورت جس طرح حالتِ بیماری میں نماز چھوڑنے کا تصور نہیں کرسکتی اس لیے کہ وہ اللہ کا حق ہے اُس پر۔۔۔ اسی طرح جو حقوق اللہ رب کریم نے عائد کردئیے ہیں وہ ان سے بھی غافل نہیں ہوسکتی۔ جس طرح ٹھنڈے پانی سے وضو اللہ پر معاذ اللہ کوئی احسان نہیں ہے اسی طرح شوہر اور بچوں کی خدمت ان لوگوں پر احسان نہیں ہے بلکہ عین اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے۔ نماز کی ادائیگی کا مقصد اگر رب کی رضا ہے
سب کچھ تیرا، میرا ہے کیا
دل میرا یہ جاں میری
یہ جان جو اسی کی عطا کردہ ہے اگر اس کے راستے میں خرچ ہو تو یہ سعادت ہے۔ اس کی بندگی کا بھی کوئی حق ادا کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے بھلا! احسان تو اس ذات کا ہے جس نے ہمیں اسلام جیسی قیمتی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ہمیں اس خوش نصیب گروہ میں شامل فرمایا جس سے اس کے جنت کے وعدے ہیں۔ شوہر اور اولاد کے حقوق ایک مسلمان عورت اس لیے ادا نہیں کرتی کہ وہ مجبور ہے، بلکہ عین اللہ کے عائد کردہ فرائض سمجھ کر نبھاتی ہے۔ ایسی عورت کے لیے آسمان پر جنتیں ہی اس کی منتظر نہیں ہیں بلکہ زمین پر خود اس کا گھر اس کے لیے جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ کتنے پیارے ہیں یہ الفاظ کہ ’’اگر اس راستے میں موت بھی آجائے تو کوئی پروا نہیں‘‘۔ کسی ریاست کو اس کی ایف آئی آر کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ عورتوں کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس کو پورا تحفظ شریعت مہیا کرچکی ہے اس کو خاندان کی ملکہ بناکر اور اس کے قدموں کے نیچے جنت بسا کر۔ یہاں تو عورت الحمدللہ مکمل تحفظ کے حصار میں ہے۔ باپ اور شوہر کے، بیٹے اور بھائی کے۔۔۔ اور گھر اور گھر والوں کی خدمت زبردستی کی چاکری نہیں بلکہ عین عبادت ہے، رب کی رضا کا ذریعہ ہے۔ جس ہستی کا لقب ’’بتول‘‘ ہو اس کا وژن ہی یہاں تک جاسکتا ہے، کہ اس کو امت کی عورتوں کے لیے مثال جو بننا تھا۔
گواہی
سیدنا حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ گھر کے تمام کام کاج، کھانا پکانا، چکی پیسنا، جھاڑو دینا وغیرہ سب کام ہماری ماں خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں۔ روایات میں ہے کہ امورِ خانہ داری کی انجام دہی کے لیے کبھی رشتہ دار یا ہمسایہ کو مدد تک کے لیے نہیں بلاتی تھیں۔ نہ مشقت سے گھبراتی تھیں۔ جب تک شوہر اور بچوں کو کھانا نہ کھلادیتیں خود بھوکی رہتیں چاہے کتنے ہی وقت کے فاقے سے کیوں نہ ہوں۔۔۔!
روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ سر پر گھاس کا گٹھا اٹھا کے گھر میں تشریف لائے اور سیدہ کی مدد چاہی، ان کو آواز دی۔ وہ کسی کام میں مصروف تھیں، آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ حضرت علیؓ نے گٹھا زمین پر دے مارا اورپوچھا کہ گٹھا اتارنے میں مدد کرنے میں وہ کیوں اپنی سبکی محسوس کررہی تھیں؟ حضرت فاطمہؓ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں کام میں مصروفیت کی وجہ سے جلدی نہ آسکی، میں جس باپ کی بیٹی ہوں وہ اپنے دستِ مبارک سے کوئی بھی کام کرنے میں کبھی بھی اپنی سبکی محسوس نہ کرتے تھے۔‘‘ حقیقت تو یہی ہے کہ انہوں نے اپنے عظیم باپؐ کے ہر درس کو حرزِ جاں بنا لیا تھا اور ایک پیغمبر کی بیٹی ہونے کے شرف کو روح کی گہرائی سے محسوس کیا تھا کہ جو جو کام میرے بابا جان نے کیے ہیں وہی امت کے لیے مثال ہیں، اور یہ ساری عملی مثالیں اہلِ بیتِ رسولؐ ہی سے منتقل ہونا تھیں۔ خود سیرتِ مطہرہؐ کا درس بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے ہمراہ گھر کے کسی بھی کام کو کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔ بالوں میں کنگھی سے لے کر جوتے تک خود گانٹھ لیتے تھے اور ازواج مطہرات کا خانگی امور میں ہاتھ بٹا کر فرحت محسوس کرتے تھے کہ ’’میں تم میں سب سے اچھا ہوں اپنے گھر والوں کے لیے۔‘‘ (متفق علیہ)

حصہ