(اخبار ادب (ڈاکٹڑ نثار احمد نثار

274

صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر رسا چغتائی کی صدارت میں ادارۂ فکرِ نو کراچی نے پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کے لیے تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا، جس میں ڈاکٹر اکرام الحق شوق مہمان خصوصی تھے، رفیع الدین راز مہمانِ اعزازی تھے، رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوت کلامِ مجید کی سعادت علی کوثر نے حاصل کی، فرید احمد خورشیدی نے نعت پیش کی اور محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ اس موقع پر جن مقررین نے شاداب احسانی کے فن و شخصیت پر گفتگو کی، ان میں اجمل سراج، سلمان صدیقی، ڈاکٹر ذکیہ رانی اور احمد علی صابر شامل ہیں۔ ڈاکٹر اکرام الحق نجی مصروفیت کے باعث تقریب میں شرکت نہیں کرسکے، البتہ ان کا تحریر کردہ مضمون شاہد اقبال شاہد نے پیش کیا، جس میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر نشین رہے اور آج کل ادارۂ یادگارِ غالب کے منتخب صدر ہیں، ان کی ادبی اور تعلیمی خدمات قابلِ ستائش ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کے ممتاز دانش وروں میں شامل ہیں، یہ ہمہ جہت شخصیت ہیں اور اپنے متعلقہ شعبۂ زندگی میں کامیاب ہیں۔ انہوں نے اُردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے۔ احمد علی صابر نے کہا کہ پروفیسر شاداب احسانی کی نگرانی میں 16، 17 طالبانِ علم و فن نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ یہ چالیس، پینتالیس سال سے ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ منفرد اسلوب کے شاعر ہیں، ان کے اشعار میں ندرتِ خیال اور تازہ کاری موجود ہے۔ چوں کہ یہ ماہر علمِ عروض ہیں، لہٰذا ان کے کلام میں شعری محاسن کے ساتھ ساتھ مشکل بحروں میں بھی اشعار پائے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں کوئی فنی خرابی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ ان کے یہاں استعارے بھی بہت کم استعمال ہوئے ہیں، سہل ممتنع ہیں، ان کی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں۔ ڈاکٹر ذکیہ رانی نے اپنے طویل ترین مقالے میں کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر شاداب احسانی سے علمِ عروض سیکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت سے نئے الفاظ اردو زبان کو دیے ہیں، ان کا اندازِ تدریس مشفقانہ ہے، ان کی زندگی کامیابی سے گزر رہی ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر شاداب احسانی ایک معتبر شاعر، نقّاد اور ماہر تعلیم ہیں۔ اجمل سراج نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب احسانی نے بڑی محنت اور لگن سے ادبی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ یہ محبتوں کے انسان ہیں، انہوں نے زندگی بھر سچائیاں رقم کی ہیں۔ بحیثیت ماہر تعلیم ان کی خدمات پر ڈاکٹر ذکیہ رانی نے سیر حاصل گفتگو کی ہے، ہمیں یہ فخر ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی ہمارے علاقے کی پہچان ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر شاداب احسانی کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ ان کے حوالہ جات میں شعر گوئی، نثر نگاری، دوست داری اور تدریسی استعداد منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ یہ ایک انسان دوست شخصیت ہیں اور دامے، درمے، سخنے اپنے ہر دوست کی مدد کرتے ہیں، جن میں ہر طبقۂ زندگی کے افراد شامل ہیں۔ نثر نگاری میں ان کی شخصیت ایک طاقت ور ویژن کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے۔ ان کے خیالات و افکار پاکستان اور دنیا بھر کے اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ 1987ء میں ’’پسِ گرداب‘‘ کے نام سے ان کی غزلوں کا مجموعہ شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے داخلی اور خارجی احساسات و مشاہدات کو ایک ہی علامت کے تحت اظہار میں لا کر اپنے فن کی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی شاعری زندہ دلوں کی شاعری ہے، جس میں لطافتِ زباں کے علاوہ محاسنِ شعری بھی موجود ہیں۔ صاحبِ اعزاز پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنی غزلیں سنانے سے قبل ادارۂ فکرِ نو کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کے اعزاز میں اتنی شان دار محفل منعقد کی۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ لانڈھی، کورنگی مردم خیز علاقہ ہے۔ ایک زمانے میں یہاں اردو ادب کی کہکشاں موجود تھی اور یہ بستی فن و علم کے فروغ میں بہت اہم سمجھی جاتی تھی، لیکن وقت و حالات کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے سبب بہت سے اہم لوگ اس علاقے سے شفٹ ہوگئے جس کے باعث یہاں ادبی سرگرمیاں ماند پڑ گئی تھیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب ادبی سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں۔
تقریب میں ادارۂ فکرِ نو کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی اور رسا چغتائی کو کمالِ فن ایوارڈ پیش کیا گیا۔ پروفیسر رضیہ خورشید اور رئیس احمد خان کی خدمت میں بھی اعترافِ فن ایوارڈ پیش کیے گئے۔ تقریب کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں رسا چغتائی، رفیع الدین راز، شاداب احسانی، ظفر محمد خاں ظفر، راشد حسین راشد، اختر سعیدی، غلام علی وفا، فیروز خسرو، نور شمع نور، اجمل سراج، سلمان صدیقی، شاہد اقبال شاہد، سیلم فوز، اختر سروش، جون عظمی، محمد علی گوہر، رشید خاں رشید، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، سراج الدین سراج، یوسف چشتی، ماہ نور خان زادہ، سحرتاب رومانی، اسد لکھنوی، جمیل ادیب سیّد، سخاوت علی نادر، کشور عدیل جعفری، عارف نظیر، کامران محور، عاشق شوکی، علی کوثر اور غزالی بن جاوید نے کلام نذرِ سامعین کیا۔ اختر سعیدی نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے اپنے ادارے کی کارکردگی رپورٹ پیش کی، جس میں انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے علاقے کے نوجوان قلم کاروں کو پروموٹ کریں اور یادِرفتگاں کے سلسلے میں تقاریب منعقد کریں۔ اس سلسلے میں وہ ایک بڑا پروگرام کرنے جارہے ہیں، جس میں کراچی سمیت پاکستان کے تمام شہروں کے ادبی نمائندوں کو شریک کیا جائے گا۔
۔۔۔*۔۔۔
گزشتہ دنوں حلقہ آہنگِ نو کی ماہانہ تنقیدی نشست سمن آباد میں ہوئی، جس کی صدارت شاکر انور نے کی، جب کہ شفیق احمد شفیق نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تقریب کے پہلے دور میں نورالہدیٰ سیّد نے اپنا تحریر کردہ افسانہ ’’حادثہ‘‘ پیش کیا، جس پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے شفیق احمد شفیق نے کہا (Wagon) گاڑی پر رکھی ہوئی چارپائی دراصل پاکستان کے چاروں صوبوں کے حوالے سے ایک واضح علامت ہے۔ علامتی پیرائے میں لکھا گیا یہ افسانہ عام قارئین کی سمجھ میں بھی بآسانی آسکتا ہے۔ رازق عزیز نے کہا کہ یہ افسانہ پاکستان کے سیاسی پس منظر کا آئینہ دار ہے، لیکن چارپائی کا مسافر، Wagon کچھ ایسی علامتیں ہیں، جو عام قاری کے شعور سے بالاتر ہیں۔ افسانے میں مشکل زبان استعمال کی گئی ہے۔ احمد سعید فیض آبادی نے کہا کہ نورالہدیٰ سیّد ایک کامیاب علامتی افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانے میں اشاروں کنایوں اور علامتی پیرائے میں عصری تقاضے پیش کیے گئے ہیں۔ تاہم، اس افسانے کا ایک اہم مسئلہ اس کا ابلاغ ہے، جب تک کسی تخلیق کا ابلاغ نہیں ہوتا، وہ تخلیق کامیاب قرار نہیں پاتی۔ میرے نزدیک افسانہ اس انداز میں تحریر کیا جائے کہ وہ خاص و عام کی سمجھ میں آجائے۔ بہرحال، یہ افسانہ اوسط درجے کا افسانہ ہے۔ حامد علی سید نے کہا کہ یہ افسانہ چابک دستی کے لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے، لیکن ایک عام قاری کے لیے ابلاغ کا مسئلہ پیش آئے گا، جن لوگوں کا آئی کیوکم لیول کا ہوتا ہے انہیں مشکل زبان میں لکھا گیا افسانہ کیسے سمجھ میں آسکتا ہے! میرے نزدیک افسانوی زبان آسان ہونی چاہیے، جیسا کہ سہل ممتنع کے اشعار ہر شخص کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ ایم آر عارف نے کہا کہ مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر لکھی گئی یہ ایک عمدہ تخلیق ہے، مگر گاڑیWagon میں علامتی گڑیا کو بطور دعا پیش کیا گیا ہے، جو کہ عجیب منطق ہے۔ یہ افسانہ اس قدر مختصر ہے کہ تشنگی محسوس ہورہی ہے۔
صدر نشست شاکر انور نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’حادثہ‘‘ ایک علامتی افسانہ ہے جس میں صاحبِ افسانہ نے لفظوں کی جادوگری کا کمال دکھایا ہے، جب کہ اس نشست کے بعض لوگوں کے نزدیک یہ ایک مبہم افسانہ ہے اور بہت سے لوگوں نے اس افسانے کو کامیاب قرار دیا ہے۔ دراصل، اختلافِ رائے کی آزادی سے ادبی تخلیق کار بہت کچھ سیکھتا ہے۔ تنقیدی نشستوں کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ تخلیق کار کی کمزوریوں کی نشان دہی کی جائے اور اچھی تحریر کی ستائش کی جائے۔ تنقیدی نشست کے بعد شعری نشست کا آغاز ہوا، جس میں شفیق احمد شفیق، ڈاکٹر جمال نقوی، احمد سعید فیض آبادی، حامد علی سیّد، سیّد رزاق عز اور سعدالدین سعد نے کلام پیش کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
انجمن ترقی پسند مصنفین (پاکستان) کراچی کے زیر اہتمام گزشتہ کئی برسوں سے تنقیدی و شعری نشستوں کا انعقاد انجمن کے دفتر ایوانِ ادب میں کیا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی اسی تسلسل میں نشست کا انعقاد ہوا، جس کی صدارت ممتاز ترقی پسند ادیب، دانش ور اور شاعر مسلم شمیم نے کی، جب کہ مہمان خصوصی ہردلعزیز معروف شاعر کرامت بخاری تھے، جو آج کل اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں کراچی میں مقیم ہیں۔ نظامت کے فرائض انجمن کے سیکرٹری نشرواشاعت حامد علی سیّد نے انجام دیے۔ ابتدا میں معروف افسانہ نگار اے خیام نے اپنا تازہ افسانہ ’’جنت جہنم‘‘ پیش کیا، جس پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پروفیسر شاہد کمال نے کہا کہ اے خیام سینئر افسانہ نگار ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے افسانے میں جو ایک ڈرامائیت موجود تھی، وہ کلائمکس پر برقرار نہیں رہی۔ صبا اکرام نے کہا کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے تناظر میں یہ ایک اچھا افسانہ ہے۔ اس میں تیکنیک منفرد اور اسلوب نیا ہے، اس افسانے میں تازہ کاری موجود ہے۔ نسیم انجم نے کہا کہ ایک باپ اپنی بچیوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کررہا ہے، یہ ایک المیہ ہے۔ افسانے کا موضوع نیا نہیں، مگر اہم اور اپنے عہد سے جڑا ہوا ہے۔ مجید رحمانی نے کہا کہ اس افسانے کی تازگی ہمیں متاثر کرتی ہے، کوئی موضوع اگر پرانا بھی ہو تو لکھنے کا اسلوب اسے نیا بنادیتا ہے۔ نورالہدیٰ سیّد نے کہا کہ اے خیام حسّاس اور صاحب طرز افسانہ نگار ہیں اور افسانے میں ان کا ایک خاص اسلوب ہے۔ اس افسانے میں ایک اختتامی موڑ بھی ہے، جسے افسانہ نگار نے مہارت سے لکھا ہے۔ مہمانِ خصوصی کرامت بخاری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس افسانے میں میاں بیوی کے کردار بھی انتہا پسندی کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں۔ اے خیام ایک نامور افسانہ نگار ہیں، ہمیں افسانے میں کرداروں کو اعتدال پسند دکھانا چاہیے۔ صاحبِ صدر مسلم شمیم کا کہنا تھا کہ یہ ایک کامیاب افسانہ ہے، اس افسانے میں کچھ سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں، لیکن قاری کی توجہ اس کہانی میں برقرار نظر آتی ہے، مجھے اس افسانے میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ بعدازاں، شعری نشست میں صاحبِ صدر اور مہمانِ خصوصی کے علاوہ غلام علی وفا، پروفیسر شاہد کمال، علی اوسط جعفری، حامد علی سیّد، نقاش عابد، سعد الدین سعد، صفدر علی (انشا)، صدیق راز ایڈووکیٹ، تنویر سخن، اصغر باغی اور سمیع بلوچ نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
ادارۂ فکرنو کے زیراہتمام تنظیم فلاح خواتین کے تعاون سے رفیع الدین راز کی دو کتابوں کی تقریب پذیرائی النسا کلب، گلشن اقبال کراچی میں 12 فروری کو منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت پروفیسر جاذب قریشی نے کی۔ محسن اعظم ملیح آبادی مہمان خصوصی اور سعیدالظفر صدیقی مہمانِ اعزازی تھے، راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت نظر فاطمی نے حاصل کی، جب کہ صابر عظیم آبادی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ رشید خاں رشید نے استقبالیہ کلمات ادا کیے۔ تقریب کے پہلے مقرر شاہد اقبال شاہد نے کہا کہ رفیع الدین راز ایک کہنہ مشق شاعر و ادیب ہیں، ان کی شاعری میں زندگی کے تمام رنگ موجود ہیں۔ انہوں نے غالب کی زمینوں میں اشعار کہہ کر غالب کے طرف داروں میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ رخسانہ صبا نے کہا کہ رفیع الدین راز نے اپنے خوابوں کو شاعری میں ڈھالا ہے، ان کی شاعری مشاہدۂ باطن کا اظہاریہ ہے، جس میں صوفی ازم نمایاں ہے۔ ان کے یہاں تصوف کے مضامین نظر آتے ہیں، ان کی شاعری میں فنی پختگی کے ساتھ آئینہ، پتھر، خواب، چٹان، آئینہ خانہ کے استعارات پائے جاتے ہیں۔ خواب دیکھنا، آرزومندی کی علامت ہے۔ انہوں نے شکستہ پائی پر ماتم نہیں کیا بلکہ جواں مردی سے آگے بڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں بینائی کا استعارہ بہ کثرت استعمال ہوا ہے۔ آئینے اور بینائی کا گہرا تعلق ہے، اسی لیے انہوں نے ان دونوں استعاروں کو بہت سلیقے سے استعمال کیا ہے۔ رفیع الدین راز کی شخصیت میں عجز و انکسار ہے، ملن ساری ہے۔ ان کے یہاں مابعد جدیدیت پائی جاتی ہے، ان کی شاعری تازہ ترین لفظیات کی آئینہ دار ہے۔ سلمان صدیقی نے رفیع الدین راز کے فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری میں خودداری اور خود اعتمادی نظر آتی ہے۔ انہوں نے آئینہ کو نئی جہت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ’’دل کا نخلستان‘‘ رفیع الدین راز کی ہائیکوز کا مجموعہ ہے۔ ان کی ہائیکوز میں عصری حسیت کے تجربات موجود ہیں۔ یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے شعر و ادب سے جڑے ہوئے ہیں، اب پاکستان اور بیرونِ پاکستان اردو کے اکابرین میں شامل ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر دسترس حاصل ہے، لیکن غزل ان کی پہچان ہے۔ ان کی ہائیکوز کا مجموعہ سات سو ہائیکوز پر مشتمل ہے اور ہر ہائیکو جداگانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ سلمان صدیقی نے مزید کہا کہ ہائیکو جاپانی صنفِ سخن ہے، کراچی میں جاپانی سفارت خانے کے زیراہتمام ہائیکوز مشاعرے منعقد ہوتے رہے ہیں، تاہم یہ صنفِ سخن ابھی تک اردو میں اجنبی ہے۔ 5,7,5 ہائیکو کے ارکان ہیں، ہر ہائیکو مختصر بیانیہ ہے۔ پاکستان میں ہائیکو کا ویژن جاپانی ہائیکو سے مختلف ہے۔ وضاحت نسیم نے کہا کہ جاپانی ادب میں سب سے اہم صنفِ سخن ہائیکو ہے، اس صنفِ سخن میں اچانک نظر آنے والے مناظر نظم کیے جاتے ہیں۔ ہائیکو میں پیش منظر بیان نہیں ہوتا، لیکن پاکستان میں کہی جانے والی ہائیکوز کا انداز بہاریہ ہے، بہ الفاظ دیگر پاکستانی ہائیکوز میں غزل کا رنگ نظر آتا ہے۔ رفیع الدین راز نے اپنی ہائیکوز میں ارکان کی پابندی کے ساتھ ساتھ نئے مضامین نکالے ہیں۔ صاحبِ اعزاز رفیع الدین راز نے کہا کہ میں ادارۂ فکر نو کے روح رواں اختر سعیدی کا بے حد ممنون و مشکور ہوں کہ جن کی شبانہ روز کوششوں سے آج کی تقریب کا انعقاد ممکن ہوا۔ جاذب قریشی اور سراج الدین سراج نے بھی اس تقریب کے سلسلے میں میری مدد کی، میں ان حضرات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں مہمانان کا مشکور ہوں کہ وہ اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر میری لیے النسا کلب آئے۔ رفیع الدین راز نے مزید کہا کہ میں 1973ء میں کراچی آیا تھا، اُس وقت سے لے کر آج تک کراچی والے مجھ سے پیار کرتے ہیں اور میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔ کراچی علم دوست شہر ہے، یہاں پر ہر آنے والے کی عزت افزائی کی جاتی ہے، اسی لیے یہاں اردو ادب کی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ کوئی بھی موسم ہو، لیکن کراچی میں مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر صاحبِ اعزاز نے اپنی غزلیں اور ہائیکوز سنا کر سامعین سے داد وصول کی۔ مہمانِ اعزازی سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ رفیع الدین راز میرے قریبی دوستوں میں شامل ہیں، میں نے ان کی زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ میں ان پر گھنٹوں بول سکتا ہوں، لیکن میں مستند ناقد نہیں ہوں۔ میں نے ان کی کتاب کا مطالعہ کیا ہے، جس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے کلام میں فن کی گہرائی اور گیرائی بہ درجہ اتم موجود ہے۔ یہ بہت خاموشی سے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنے مشاہدات کو شاعری بنا دیتے ہیں، ان کی قادرالکلامی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، ان کے عام فہم لفظوں میں بھی گہری معنویت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ان کے یہاں علم عروض کے مسائل موجود نہیں ہیں، ان کی شاعری ہمیشہ باقی رہنے والی شاعری ہے، جب کہ انہوں نے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ ان کی شاعری کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان کے یہاں منفی رویّوں کے بجائے مثبت پیغام عمل نظر آتا ہے۔ تقریب کے مہمان خصوصی محسن اعظم محسن ملیح آبادی نے اپنے مقالے میں کہا کہ رفیع الدین راز کو خبر سے شعر بنانا آتا ہے۔ ان کی شاعری رواں دواں ہے، یہ صحتِ زبان کے معاملے میں بہت حسّاس ہیں۔ ہم ان کی شاعری پڑھنے کے بعد انہیں عہد حاضر کے صفِ اوّل کے شعرا میں شامل کرسکتے ہیں۔ ان کی شاعری ان کے مزاج کی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ عہد کا منظرنامہ بھی ہے۔ انہوں نے کھلی آنکھوں سے دنیا کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ حال و فردا کے شاعر ہیں، ان کے کلام میں شاعری کے تمام محاسن موجود ہیں۔ ان کی رباعیات، ان کی غزلیں، نظمیں، ان کی ہائیکوز پڑھ کر ہم پر عقل و دانش کے نئے ابواب کھلتے ہیں۔ صدر تقریبِ پذیرائی پروفیسر جاذب قریشی، جو کہ 80 کی دہائی سے نوجوان شعرا پر مضامین لکھ رہے ہیں اور نئی نسل کے شعرا کی پذیرائی کررہے ہیں، اس موقع پر انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ رفیع الدین راز ہمارے عہد کے ایک ایسے شاعر ہیں، جو کہ اپنی زندگی کے 80 برس پورے کرچکے ہیں۔ انہوں نے 60 برس اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے صرف کیے، یہ منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں، اپنے تخلیقی اظہاریوں کے اعتبار سے رفیع الدین راز بہت اہم نام ہے۔ ان کی تخلیقی قوت کہیں تھکن کا شکار نظر نہیں آتی، یہ تمام اصنافِ سخن کے شاعر ہیں، لیکن بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، انہوں نے اپنے سچے تجربوں کا حق ادا کردیا ہے۔ غزل رفیع الدین راز کی پہچان ہے، لیکن ہائیکو بھی ان کا ایک اہم حوالہ ہے۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ رفیع الدین راز کی شاعری میں نئے نئے مفاہیم نظر آتے ہیں، ان کی غزلیں ان گنت رنگوں سے عبارت ہیں، ان کی ہائیکوز میں شاعرانہ محاسن بھی ہیں اور مضمون آفرینی بھی۔ ہم رفیع الدین راز کو عہدِ حاضر کے اہم شعرا سے الگ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے اپنی محنت اور کاوشوں سے ادبی منظرنامے میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی شاعری ہر دور کی شاعری ہے۔ میں انہیں ان کی 21 ویں اور 22 ویں کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ درآئینہ رفیع الدین راز کی غزلوں کا مجموعہ ہے، دل کا نخلستان ان کی ہائیکوز کا مجموعہ ہے۔ رفیع الدین راز نے 700 ہائیکوز کہی ہیں، جن میں ان کی زندگی کے تجربات و مشاہدات رواں دواں ہیں۔ راز پر بنگلہ دیش میں پی ایچ ڈی ہوچکی ہے، بھارت میں بھی ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جارہا ہے۔ یہ وہ شاعر ہیں، جو بلا جواز شعر نہیں کہتے، ان کے حروف قاری کے ذہن و دل پر تادیر چھائے رہتے ہیں، یہ اپنے عہد کے بہت بڑے شاعر ہیں۔

حصہ