(مشاعرے کی روایت۔۔۔۔ا(ڈاکٹر اسلم فرخی

2702

یہ بات بڑی دل چسپ ہے کہ اردو شاعری نے مشاعرے کی روایت اور مشاعرے کی روایت نے اردو شاعری کو پروان چڑھایا۔ مشاعرے کی روایت ایک تہذیبی قوت‘ علمی موشگافیوں اور تخلیقی جودت کے بھرپور اظہار کی وجہ سے ہماری ثقافتی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ دور دراز کے دیہات میں بھی مشاعرے ہوتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان میں شریک بھی ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے اداروں میں موقع موقع سے مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں کراچی میں برماشیل کے سالانہ مشاعروں کو ادبی سطح پر بڑی اہمیت حاصل تھی کیوں کہ یہ اردو شاعری کے کسی نامور استاد کے حوالے سے منعقد ہوتے تھے۔ برماشیل پر کیا منحصر‘ کراچی میں مشاعروں کی روایت کو خود روزنامہ ’’ڈان‘‘ نے بڑی دھوم دھام سے فروغ دیا ہے۔ ’’ڈان‘‘ کے سالانہ مشاعروں کو جنہیں تفننِ طبع کے طور پر ’’عظیم الڈان‘‘ مشاعرے کہا جاتا تھا‘ ایک قابلِ قدر ادبی تقریب کی حیثیت حاصل تھی۔ مجھے یاد ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جگرؔ صاحب پہلے پہل کراچی ’’ڈان‘‘ ہی کے مشاعرے میں شرکت کرنے آئے تھے۔
مشاعروں کی شعری‘ ادبی اور علمی اہمیت کے حوالے سے ڈھائی تین سو برس کی شعری تاریخ میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ دلّی میں ایک شاعر تھے حضرت خواجہ میر دردؔ وہ نقش بندی سلسلے کے بڑے بزرگ تھے۔ اُن کے یہاں ہر مہینے مشاعرہ ہوتا تھا جسے زبانِ اردو کے پرانے نام ’’ریختہ‘‘ کی مناسب سے ’’مراختہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ خواجہ صاحب نے میر تقی میرؔ سے کہا یہ مراختہ تم اپنے یہاں کیا کرو۔ مطلب یہ تھا کہ مشاعرہ میرؔ کے یہاں ہوگا تو انہیں شاعروں میں اعتبار بھی حاصل ہوگا‘ لوگوں سے شناسائی بھی بڑھے گی اور ادبی حیثیت بھی مستحکم ہوگی۔ کیا دل نواز طریقے تھے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کے۔ پھر اسی دلّی کے ایک مشاعرے میں انشاؔ اور عظیمؔ کا وہ مشہور معرکہ ہوا جس نے اردو شاعری کو ایک ضرب المثل مصرع ’’وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے‘‘ عطا کیا۔ یہ مقابلے کا پہلو تھا۔ شعرا ایک ایک قافیے کے لیے جان لڑا دیتے تھے۔ ہر ہر پہلو سے غور کرتے تھے۔ کوئی قافیہ رہ نہ جائے۔ شعر میں کوئی عیب نہ ہو ورنہ سرِ مشاعرہ اعتراض ہوگا۔ استاد اپنے شاگردوں کو ساتھ لیے مقابلے پر کمربستہ مشاعروں میں اپنے اپنے مقام پر بیٹھے پہلے اپنے شاگردوں اور دوسرے اساتذہ کے شاگردوں کا کلام دشمن کے کانوں سے سنتے اور جب شمع اساتذۂ فن کے سامنے آتی تو سب سنبھل کر بیٹھ جاتے اور اعتراض کے پہلو تلاش کرتے رہتے۔ مشاعرے ہی شاعر اور شاعری کے کھوٹے کھرے کی آزمائش ہوتے تھے۔
مقابلے ہوتے تو ایسے کہ شاہ نصیرؔ نے سنگ لاخ زمین میں غزل لکھی ’’قفس کی تیلیاں‘ نفس کی تیلیاں‘‘ اور ترنگ میں آکر یہ کہہ دیا کہ سال بھر اس زمین میں مشاعرے ہوں۔ سال بھر اسی زمین میں مشاعرے ہوتے رہے اور مکھیاں اُڑتی رہیں۔ غالبؔ کی مشکل پسندی پر طنز کرنے کے لیے ان کے ایک خوش گو معاصر حکیم آغا جان عیشؔ نے مشاعرے کی طرحی غزل میں یہ شعر پڑھے تھے:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلامِ میر سمجھے اور زبانِ میرزاؔ سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
یہ مشاعرے کی تنقیدی روایت تھی اور اس روایت کی پاس داری میں غالبؔ نے ان اشعار کا جواب بھی لکھا۔
شروع شروع میں صرف دلّی ہی اردو شاعری کا مرکز تھی۔ لکھنؤ تہذیب اور حکومت کے ایک مرکز کی حیثیت سے ابھرا تو شاعری اور مشاعرے دونوں کی روایت نے وہاں بھی فروغ پایا۔ یہ روایت ادبی‘ علمی اور تہذیبی زندگی کا جزو بن گئی۔ محمد حسین آزادؔ کے بقول میر تقی میرؔ لکھنؤ گئے‘ سرائے میں ٹھہرے۔ معلوم ہوا کہ قریب ہی میں مشاعرہ ہے۔ سن کر رہ نہ سکے‘ پہنچ گئے اور پھر آزادؔ نے میرؔ اور اُن کی وضع قطع‘ حلیے اور لباس کی وہ زندہ تصویر پیش کی جو اردو شاعری کے تاریخی مرقعے میں لازوال ہوگئی ہے۔ میرؔ کے اندازِ قدیمانہ کو دیکھ کر اہلِ مشاعرہ میں جو چہ میگوئیاں ہوئیں‘ اس کے جواب میں میرؔ صاحب نے طرحی غزل میں یہ اشعار پڑھے:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے
اور سارے شہر کو معلوم ہوگیا کہ میرؔ صاحب شہر میں وارد ہوئے ہیں۔
لکھنؤ میں مشاعروں کی ادبی افادیت‘ باریک بینی اور مسابقت کے جذبے کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ ایک مشاعرے میں دیر سے پہنچے۔ شمع ان کے استاد مصحفی کے سامنے تھی۔ ناسخؔ نے حریفانہ انداز میں کہا ’’خواجہ صاحب آپ دیر میں تشریف لائے۔ اس بچے نے ایسا مطلع پڑھا ہے کہ لاجواب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر شمع مصحفیؔ کے سامنے سے اٹھا کر اس لڑکے کے سامنے رکھ دی اور کہا ’’ہاں میاں پڑھو۔‘‘ لڑکے نے پڑھا:
جس کم سخن سے میں کروں تقریر بول اٹھے
مجھ میں کمال یہ ہے کہ تصویر بول اٹھے
آتشؔ استاد کے سامنے سے اس طرح شمع اٹھائے جانے پر آگ ہوگئے۔ کہنے لگے ’’واہ شیخ صاحب! ایسے مطلعے پر داد تحسن جس میں نقص اتنا واضح ہے۔‘‘ پھر کہا یہا ں تصویر کم سخن نہیں ہوتی اس طرح پڑھو:
جس بے زباں سے میں کروں تقریر بول اٹھے
مجھ میں کمال یہ ہے کہ تصویر بول اٹھے
یہ حریف کو ترکی بہ ترکی جواب اور مشاعرے کے تنقیدی مرکز سے تنقیدِ شعر کا مؤثر اظہار تھا۔ ایسے اظہار اکثر و بیشتر ہوتے رہتے تھے۔ آتشؔ نے مشاعرے میں مطلع پڑھا:
دخترِ رز مری مونس ہے مری ہمدم ہے
میں جہانگیر ہوں وہ نورجہاں بیگم ہے
معترض نے کہا خواجہ صاحب بیگم ترکی زبان کا لفظ ہے اور بیگم نہیں بیگُم ہے۔ (انگریزی میں ترکی سے آیا ہے اس لیے Begum لکھا جاتا ہے۔) آتشؔ نے کہا ہاں جب ہم ترکی جائیں گے تو بیگُم ہی کہیں گے مگر یہاں بیگم ہی صحیح ہے۔ یہ اس لسانی اصول کی طرف اشارہ ہے کہ جو لفظ کسی زبان میں کسی دوسری زبان سے آگیا‘ وہ لفظ کو قبول کرنے والی زبان کے محاورے کے مطابق استعمال ہوگا۔ حریفانہ چپقلش اور نوک جھونک میں علمی اور ادبی پہلو ہمیشہ مد نظر رہتا تھا اور حریفانہ انداز کے حوالے سے وہ مشاعرہ جس میں آتش نے اپنی مشہور غزل ’’سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا‘‘ پڑھی تھی‘ مشاعروں کی تاریخ میں یادگار حیثیت کا حامل ہے۔
1857 کے بعد مشاعروں کی روایت دلّی اور لکھنؤ سے نکل کر رام پور‘ حیدرآباد‘ عظیم آباد اور لاہور میں پھولی پھلی۔ امیرؔ و داغؔ کی وجہ سے رام پور کے مشاعروں میں بڑا زور پیدا ہوگیا تھا۔ مشاعرے میں کسی شاعر کا شعر سن کر اُسے تخلیقی انداز سے اپنے رنگ میں ڈھال لینے کی روایت یہاں بہت کامیاب رہی۔ ایک مشاعرے میں داغؔ نے مطلع پڑھا:
یہ تری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھا ہے
ایک کا حال برا‘ ایک کا حال اچھا ہے
شمع جلالؔ لکھنوی کے سامنے آئی تو انہوں نے غزل میں یہ شعر پڑھا:
دل مرا‘ آنکھ تری دونوں ہی بیدار مگر
ایک کا حال برا‘ ایک کا حال اچھا ہے
داغؔ کے یہاں کوئی ثبوت نہیں تھا۔ جلال نے ثبوت فراہم کردیا۔
انیسویں صدی کے آخر ہوتے ہوتے تک تعلیم کے فروغ‘ تہذیبی پاس داری‘ ذرائع آمدورفت کی سہولت اور لسانی قربت کی وجہ سے مشاعروں کی روایت برصغیر کے گوشے گوشے میں عام ہوگئی۔ نئے شعری اور ادبی مرکز وجود میں آئے اور مشاعرے کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ سیال کوٹ کے ایک نوجوان طالب علم شاعر نے جب مشاعرے میں اپن غزل پڑھی اور یہ شعر سنایا:
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تو صرف اُس کی تحسین نہیں ہوئی بلکہ ایک نئے شعری مرکز اور مشاعرے کی روایت کی عالم گیری کا احساس بھی عام ہوگیا۔
بیسویں صدی میں کچھ عرصے تک طرحی مشاعروں کا سلسلہ جاری رہا۔ طرحی مشاعرے مقابلے اور مسابقت کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں مگر پھر مشاعروں کی کثرت اور مقامی کے بجائے ملکی مشاعروں کے انعقاد نے طرحی کی پابندی کو ختم کردیا۔ وہ جو مقابلے کی روح تھی‘ اصلاحِ ادب کا جذبہ تھا‘ وہ ختم ہوگیا۔ شعرا مشاعروں میں اپنا بہترین اور مخصوص کلام پیش کرنے لگے۔ اس کا ایک نتیجہ جو خوش گوار نہیں تھا‘ یہ بھی نکلا کہ شعرا نے ہَر پھر کر ہی مشاعرے میں اپنی خال غزلیں سنانا شروع کردیں اور اس طرح تازہ بہ تازہ نو بہ نو والی کیفیت رخصت ہوگئی۔ ایک اور نمایاں تبدیلی یہ ہوئی کہ شعرا نے تحت اللفظ کے بجائے ترنم سے پڑھنا شروع کردیا جو عام سننے والوں کے لیے بڑا خوش آئند تھا۔ اردو شاعری میں زبان اور لہجے کی بڑی اہمیت ہے۔ تحت اللفظ پڑھنے والا جب زبان اور لہجے کی مناسبت کو مدنظر رکھ کر شعر پڑھتا تھا تو معنویت کی تہیں کھلتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ ترنم میں معنویت کی تہیں نہیں کھلتیں۔ ترنم شعر کی معنویت پر غالب آجاتا ہے۔ بہرحال ترنم نے مشاعروں کو عوامی سطح کی دل چسپی اور ہر دل عزیزی کا حامل بنا دیا۔ پھر یہ ہوا کہ مشاعرے میں غزل کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی پڑھی جانے لگیں۔ مشاعرہ بڑا ملنسار ہے‘ اُس نے نظم کو بھی گلے لگایا اور آزاد نظم کو بھی اپنی محفل میں جگہ دی‘ کسی صنف پر کوئی پابندی عائد نہیں کی اس وجہ سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا۔
آج کے دور میں فاصلے گھٹ گئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگئے ہیں۔ اردو زبان ملکوں ملکوں پھیل گئی ہے۔ اس پھیلاؤ میں مشاعرے بھی برابر کے شریک ہیں۔ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ انگلستان‘ ناروے‘ سویڈن‘ کناڈا‘ امریکا‘ آسٹریلیا‘ جنوبی افریقا ہر ملک میں مشاعرے ہوتے ہیں‘ دھوم دھام سے ہوتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے شاعر بھی ان میں شریک ہوتے ہیں اور تارکینِ وطن سے تعلق رکھنے والے شاعر بھی ہوتے ہیں۔ مشاعرے اور تفریح سے دل چسپی رکھنے والے جوق در جوق ان میں شریک ہوتے ہیں مگر اس ساری مقبولیت کے باوجود یہ نکتہ بھی اپنی جگہ پر ہے کہ آج کے مشاعرے میں علمی اور ادبی پہلو کی نشان دہی نہیں ہوتی۔ اس روایت کے بجائے تفریحی اور وقت گزاری کا پہلو زیادہ نمایاں ہوگیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ روایت بھی بدلتی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے اسے وقت سے ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔ ریڈیو کا آغاز ہوا تو مشاعرے کی سمعی روایت نے فروغ پایا۔ ٹی وی نے سمعی اور بصری دونوں روایتوں کو برقرار رکھا اور مشاعرے کی مقبولیت میں یوں اضافہ کیا کہ ایک مخصوص مشاعرے میں ملک کے سبھی ناظرین کو شریک کرکے مشاعرے کو گھر گھر پہنچا دیا۔ غالبؔ نے اپنی مکتوب نگاری کے بارے میں فخریہ کہا تھا کہ ’’میں نے وہ طرزِ سخن ایجاد کیاہے کہ مراسلے کو مکالمے بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے بزبانِ قلم باتیں کیا کرو۔ ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔‘‘ اب شعر و سخن کے شیدائی ہزار کوس دور بیٹھے اپنے شاعروں کی نغمہ سرائی سنتے ہیں اور ویڈیو کیسٹ پر ریکارڈ شدہ دبئی‘ ابوظہبی‘ جدہ‘ نیویارک کے مشاعرے دیکھتے ہیں۔ زبانی روایت فلم پر محفوظ ہو کر دائمی سرور کا وسیلہ بن گئی ہے۔ گھر سے نکلنے اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں‘ مشاعرہ خود گھر گھر پہنچ گیا ہے۔
علوم کی فراوانی نے شاعری کو متاثر کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں شاعری کا مطالعہ بہت کم ہو جائے گا اور یہ جزوِ زندگی نہیں رہے گی مگر مشرق کا مزاج شعری آہنگ کا مزاج ہے۔ شاعری کا مطالعہ کم ہو یا زیادہ۔ مشاعرے کی علمی‘ ادبی‘ تہذیبی اور شعور کو جلا بخشنے والی خصوصیت برقرار رہے یا نہ رہے‘ مشاعرہ برقرار رہے گا کیوں کہ اب مشاعرہ محض ایک زبان یعنی اردو کی میراث نہیں رہا۔ ذولسانی مشاعرے‘ اردو سندھی مشاعرے‘ اردو پنجابی مشاعرہ بھی عام ہوگیا ہے۔ مجھے کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ انگلستان اور امریکا میں اردو انگریزی مشاعروں کا دور بھی جلد شروع ہونے والا ہے۔

ڈاکٹر تیمور حسن تیمورؔ

ابھی مری سانس چل رہی ہے مجھے بچا لو
کہ مجھ میں تھوڑی سی زندگی ہے مجھے بچا لو
بنا کے بم آدمی پکارا کہ میں ہوں محفوظ
اور آدمیت پکارتی ہے مجھے بچا لو
شجر کو جب کاٹنے لگے تو صدا یہ آئی
کہ مجھ میں شاخ اِک ابھی ہری ہے مجھے بچا لو
میں بچ گیا تو تمہیں بتاؤں گا رازِ ہستی
سمجھ لو وہ راز قیمتی ہے مجھے بچالو
بڑی محبت سے جس کو تم نے کیا تھا تخلیق
تمہیں وہ تخلیق کہہ رہی ہے مجھے بچا لو
ہمیں بچا لو بچانے والوں سے کب کہا ہے
سبھی کے ہونٹوں پہ بس یہی ہے مجھے بچا لو
اسی لیے تو اندھیرے مجھ کو مٹانا چاہیں
کہ مجھ میں کچھ روشنی بچی ہے مجھے بچا لو
میں اِک عمارت کی چھت کو تھامے لٹک رہا ہوں
گرفت ڈھیلی سی پڑ رہی ہے مجھے بچاؤ
مجھے بچا کر تمہاری طاقت بڑھے گی تیمورؔ
مجھے بچانے میں بہتری ہے مجھے بچالو

شاہد ذکی

مٹی میں کون شے ہے جو ڈالی نہیں گئی
لیکن زمیں کی حرصِ خصالی نہیں گئی
برسات اس قدر کہ میرے کھیت بہہ گئے
خیرات اس قدر کہ سنبھالی نہیں گئی
پنجرہ کھلا تو پنجۂ صرصر میں آ گئے
اُڑ کے بھی اپنی بے پر و بالی نہیں گئی
بستی سے رزق اُٹھ گیا تو ہم بھی اٹھ گئے
ہجرت مثالِ مرگ تھی ٹالی نہیں گئی
تقدیر تھی کہ تشنۂ ترمیم ہی رہی
تعبیر تھی کہ خواب میں ڈھالی نہیں گئی
اس نہر میں ہے اس لیے دریا دِلی کی لہر
نکلی ہے اپنے آپ نکالی نہیں گئی
شاہد چراغِ لمس میں اتری نہ روشنی
جب تک کہ لَو کسی سے لگا لی نہیں گئی

حصہ