ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان ایجنڈا!

225

سید وجیہ حسن
ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایجنڈا دنیا کے سامنے واضح ہوتا چلا جارہا ہے۔ ان کی متنازع شخصیت کا فائدہ یہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں جس جس جگہ تصحیح (Correction) کی ضرورت تھی، وہاں وہاں تبدیلی بآسانی لائی جارہی ہے۔
پاکستان امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُس کا قریبی حلیف شمار ہوتا تھا، اسے ’’غیرناٹو اتحادی‘‘ ہونے کا شرف حاصل تھا، جس کے صلے میں 2001ء کے بعد سے اب تک اسے اربوں ڈالر کی فوجی وغیر فوجی امریکی امداد ملتی رہی۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھی حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اس امریکی جنگ میں شریک ہوکر اپنے ملک کا حلیہ ہی بگاڑ لیا۔2001ء سے قبل پاکستان میں کبھی خودکش حملے نہیں ہوئے تھے۔2001ء سے قبل اپنے ہی ملک میں پاک فوج کو اتنے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنوں کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ IDPs کی اصطلاح بھی اسی دور کی پیداوار ہے، یعنی اپنے ہی ملک میں لاکھوں لوگوں کو اپنا گھربار، کاروبار چھوڑنا پڑا اور وہ کیمپوں میں مہاجریت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ لاپتا افراد (Missing Persons) کی کڑوی گولی بھی 2001ء کے بعد اس ملک کے عوام کو نگلنی پڑی ہے۔ اس ملک کے کتنے ہی سپوتوں کو نہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ اسی دور میں ایک دن قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی دن دہاڑے بیچ شہر سے اغوا کرکے دشمنوں کے حوالے کردی گئی اور اس کے لیے آج تک کوئی جواب دہ نہیں۔ اسی دور میں جامعہ حفصہ اور آرمی پبلک اسکول جیسے ناقابلِ یقین خونیں واقعات بھی پیش آئے جن کا تصور بھی روح کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن یہ سب عمل اور ردعمل دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ملک کے حکمران ٹولے کی شمولیت کے فیصلے کا شاخسانہ تھا۔ جرنیلی آمریت ہو یا این آر او زدہ جمہوریت، سب نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔
2017ء تک پہنچتے پہنچتے حالات نے ایک اورکروٹ لے لی ہے۔ امریکہ افغانستان میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکا، جبکہ اس دوران خطے کی دوبڑی طاقتو چین اور روس نے اپنے اختلافات کو اتفاقات میں تبدیل کرکے دیگر ممالک کے لیے امکانات کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس صورت حال میں کہ جب خطے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہوئی ہے اور وہ ہزیمت سے دوچار ہے، ٹرمپ کی آمد نے امریکیوں کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کرسکیں۔ اگر صورتِ حال کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ نے درحقیقت تعلقات کی نئی بنیادیں اٹھانی شروع کردی ہیں جن کے تحت پاکستان کو ’’اتحادی‘‘ کے دائرے سے نکال کر ’’حریف‘‘ کے دائرے میں داخل کردیا گیا ہے۔
اسی مرحلے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی، امریکہ اور اُس کے مخالفین کی پراکسی وار کے نتیجے میں آگ اور خون اور لوٹ مار کا عذاب جھیلتا رہا، سینکڑوں نہیں ہزاروں لاشیں اس شہر میں گریں اور کئی بار ملک کی معاشی شہ رگ عضوِ معطل بن کر رہ گئی۔
پہلے پریس میں امریکی تھنک ٹینکس کی مشترکہ رپورٹ شائع کی گئی۔ اس رپورٹ میں ٹرمپ انتظامیہ کو یہ نصیحت کی گئی کہ وہ پاکستان کو ’’اتحادی‘‘ ملک سمجھنا ترک کردے کیونکہ پاکستان اُن طالبان حملہ آوروں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ٹرمپ انتظامیہ کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ چین اور خلیجی ریاستوں کو مجبور کرے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر طالبان کی حمایت سے اسے دست بردار کرائیں۔ اس کام کے لیے چھے ماہ سے زیادہ کا وقت پاکستان کو نہیں دینا چاہیے۔ اگر اس مدت میں پاکستان طالبان کی حمایت ترک نہیں کرتا تو اس کا ’’غیرناٹو اتحادی‘‘ اسٹیٹس فوری طور پر ختم کردینا چاہیے، جس کے بعد پاکستان کو ہر قسم کی فوجی امداد پر فوری پابندی لگائی جاسکے گی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں موجود طالبان لیڈرشپ کو امریکہ کو خود نشانہ بنانا چاہیے اور پاکستان کو یہ بتادینا چاہیے کہ اس کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اگر روڑے اٹکائے گئے تو اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔ اس رپورٹ کے مصنفین بھارت پر بہت مہربان ہیں۔ اُن کے نزدیک ٹرمپ کو کشمیر سمیت پاک بھارت تعلقات میں حائل کسی بھی مسئلے پر ثالثی کروانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ ٹرمپ کو پاکستان کی حکومت پر یہ بات واضح کردینی چاہیے کہ مسعود اظہر اور حافظ سعید سمیت تمام ایسی شخصیات کو جنہیں امریکہ اور بھارت دہشت گرد سمجھتے ہیں، فوری طور پر پابندِ سلاسل کرنا ہوگا، جبکہ پاکستان کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب کی جانے والی دراندازی کی کوششوں کو فوری طور پر بند کرنا ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لینے والے ماہرین میں ملک کے معروف سیاست دان، سابق وفاقی مشیر اورسفیرحسین حقانی بھی شامل ہیں۔
ابھی اس رپور ٹ کی بازگشت فضاؤں میں تحلیل نہ ہوئی تھی کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کے سربراہ جنرل J.W Nicolson کی طرف سے یکے بعد دیگرے پاکستان پر دو حملے کیے گئے۔ پہلے وہ امریکی سینیٹ کے سامنے اپنی پیشی کے دوران پاکستان پر قدرے محتاط الفاظ میں حملہ آور ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی پالیسی تذبذب کا شکار ہے ۔ دشمن سے لڑائی مشکل ہے کیونکہ اسے ’’بیرونی امداد‘‘ مل رہی ہے اور اسے محفوظ ’’ٹھکانے‘‘ بھی میسر ہیں۔ پھر ان کا ’’وائس آف امریکہ‘‘ کو دیا گیا انٹرویو تو پاکستان کے خلاف کھلی چارج شیٹ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا افغان ’’ایجنڈا‘‘ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔ ان کے بقول امریکی انتظامیہ کو پاکستان کے لیے اپنی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وہ افغانستان میں روس اور ایران کے رویّے سے بھی شاکی تھے۔
اسی دوران امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے جیشِ محمد کے رہنما مسعود اظہر کا نام اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں داخل کرنے کی کوشش کی جسے چین نے ناکام بنادیا۔ یاد رہے 30 دسمبر 2016ء کو بھی امریکہ نے ایسی ہی ایک کوشس کی تھی جسے چین کے ووٹ نے ناکام بنادیا تھا۔ اس دفعہ فرانس اور برطانیہ نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔
عمل کی دنیا میں امریکہ محض قراردادوں تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ اگرچہ 2001ء سے پاکستان امریکہ کا “Major Non-NATO Ally”ہے، لیکن امریکہ نے پاکستان کے خلاف اپنے عزائم کبھی مخفی نہیں رکھے ہیں۔ امریکہ نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستانی سیاست، میڈیا اور سول سوسائٹی میں اپنا حلقۂ اثر پیدا کیا ہے جو بوقتِ ضرورت اپنا کام کرتا ہے۔ امریکی پراکسی وار کے سلیپر سیل اس کے علاوہ موجود ہیں۔
امریکی انتظامیہ کی بدلتی ہوئی نظروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست، میڈیا اور امن و امان کی صورت حال بھی تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ لاہور میں ہونے والے اندوہناک واقعہ کی کڑیاں افغانستان سے ملائی جارہی ہیں، جہاں کے حالات افغان حکومت سے زیادہ بیرونی طاقتوں کے ریموٹ کنٹرول سے چلتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکمرانوں کے لیے دہشت گردی ہی سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوگی، کیونکہ سرمایہ کاری کے منصوبوں کے لیے اوّلین شرط ہی امن و امان ہے۔
پاکستانی سیاست میں موجود امریکی عنصر بھی مستقبل کے لیے اہم ہے۔ یکم فروری کو الطاف حسین کا ویڈیو میسج جس میں انہوں نے امام حسینؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ جانے کا عزم کیا ہے، اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ سیاست میں برطانیہ کے راستے امریکی مداخلت کے بڑے کھلاڑی کے طور پر اپنا رول ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پھر بھارت جیسے ہمسائے کی موجودگی میں جو امریکہ کے قریب ترین اتحادیوں میں شامل ہے، اس بات کا خطرہ ہر وقت موجود ہے کہ سرحدوں پر کسی بھی وقت فل اسکیل وار شروع کردی جائے۔ بھارت میں دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ خدانخواستہ اس کی بنیاد بن سکتا ہے۔
اسی طرح میڈیا میں موجود امریکہ کے لے پالک بھی وقت آنے پر امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے میدان میں آئیں گے۔ ان کی کارگزاری کی ایک جھلک ملک میں چار ’’بلاگرز‘‘ کے غائب ہوجانے اور پھر بازیاب ہوجانے تک ان کی کارکردگی میں دیکھی جاسکتی ہے۔
لیکن کیا امریکہ کی دلچسپی صرف دہشت گردوں کو سزا دلوانے اور افغانستان سے پاکستان کا کردار ختم کردینے تک محدود ہے؟ یا حقیقت کچھ اور ہے؟
پاکستان، چین، روس اور ترکی کا اتحاد اصل میں وہ خطرہ ہے جس کے سدباب کے لیے ٹرمپ انتظامیہ بیک وقت کئی محاذوں پر متحرک ہے۔ کہیں وہ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی پالیسی کے تحت آگے بڑھ رہی ہے اور کہیں اس کے پاس واحد آپشن طاقت کے (براہِ راست یا بالواسطہ) استعمال ہی کا باقی بچا ہے۔
نظر یہ آتا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکہ کے پاس دیگر آپشن تیزی سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں طاقت کا بالواسطہ استعمال ہی پاکستان سے نمٹنے کا علاج بچا ہے۔
پاکستان کے نکتہ نظر سے یہ بات اہم ہے کہ چین اس کے ساتھ اِس مشکل وقت میں کھڑا ہے۔ جبکہ افغانستان کے حوالے سے روس کا یہ مؤقف کہ ’’طالبان ایک سیاسی قوت ہیں اور داعش کے خلاف ان کی مدد کرنا ضروری ہے‘‘ پاکستان کے لیے تقویت کا باعث ہے۔
اس موقع پر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا روس اپنی ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کو امریکی کیمپ سے باہر آنے پر راضی کرسکے گا؟ چین اور روس دونوں نے بھارت کو علاقائی معاملات میں ساتھ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ماسکو میں ہونے والی آئندہ ’’افغان کانفرنس‘‘ میں چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت اور ایران بھی شریک ہوں گے۔ امریکہ اور بھارت کے موجودہ رومانس کو دیکھتے ہوئے یہ ایک دُور کی کوڑی ہے، لیکن بھارت کے لیے اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں کہ روس، چین، پاکستان اس خطے کی جغرافیائی حقیقتیں ہیں، جبکہ امریکہ سات سمندر پار کی ایک طاقت۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بھارت کو بھی خطے کے مسائل کے حل کے لیے گفت و شنید کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔
پاکستان کے حکمران طبقے کے نزدیک عوام ایک Manageable عنصر ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں اعتماد میں لینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے، بلکہ انہیں دانستہ اپنے دشمنِ حقیقی کی پہچان نہیں ہونے دیتے۔ سیاست دانوں میں سے بیشتر امریکہ میں اپنے اثاثے رکھتے ہیں اور اپنی سیاست کے کسی نہ کسی موڑ پر امریکی مدد کے ذریعے ہی سیاسی سفر طے کرتے رہے ہیں۔ جبکہ میڈیا یا تو حکمران طبقے کی ڈکٹیشن کا پابند ہے یا ڈالروں کا اسیر۔

حصہ