سندھ کے عوام گٹر کا پانی پینے پر مجبور احتساب کون کرے گا؟

209

سندھی تحریر: سہیل میمن
ترجمہ: اسامہ تنولی
جمعرات 26 جنوری 2017ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار سہیل میمن نے محولہ بالا عنوان سے جو تحریر قلم بند کی ہے اس کے مطالعے سے جہاں ایک طرف سندھ اور وفاق پر مسلط ہمارے حکمران طبقے کا مکروہ اور گھناؤنا چہرہ بے نقاب ہوتا ہے جس کی ساری سیاست اور حکومت محض اپنے ذاتی مفادات کے گرد ہی گھومتی ہے، اور دوسری جانب ہمارے ملک کے ایسے عام افراد کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے جو ہر بار انتخابات میں اسی بے حس اور ظالم ٹولے کو اپنے ووٹوں سے نوازتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
’’سندھ کے لوگ گٹر کا پانی پی رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ زندہ کس طرح ہیں؟
یہ الفاظ کسی عام فرد کے نہیں، بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ ہائی کورٹ کے جج صاحب کی زیرصدارت قائم عدالتی کمیشن کے ہیں۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو ہیں، جنہوں نے یہ الفاظ سندھ کے کچھ شہروں لاڑکانہ، جیکب آباد، شکارپور، سکھر، حیدرآباد، کوٹری اور کراچی کے دورہ میں ان شہروں کے پینے کے پانی اور گندے پانی کی نکاسی کا نظام دیکھنے کے بعد کہے ہیں۔ معزز عدلیہ کے یہ الفاظ ان کے لیے تازیانہ سے کم نہیں ہیں جو اپنی نسلوں کو گٹروں کا پانی پلانے کے بعد بھی اس کے ذمہ دار اربابِ اختیار، کرپٹ بیوروکریسی اور کرپٹ سیاست دانوں کے حامی دانش وروں کے استقبال میں ناچتے گاتے ہوئے مصروف رہتے ہیں۔ ’’اسّی لاکھ ہیپاٹائٹس کے مریضوں والا بیمار سندھ‘‘، بجائے عدالتی کمیشن کے ایسی رپورٹ امریکہ اور یورپ تو ٹھیرے ایک طرف، اگر دبئی اور شارجہ جیسی ریاستوں میں بھی آتی تو ایک نوع کا طوفان برپا ہوجاتا۔ اسپیشل ٹریبونل قائم ہوتا اور متعلقہ ذمہ داران اس جرم کی پاداش میں لٹکائے جا چکے ہوتے۔ سو یا ہزار نہیں بلکہ کروڑوں افراد کو سلوپوائزن کے طریقے سے زہر دینے کے اس عمل پر عام افراد کا احتجاج بھی قابلِ دید ہوتا۔ لیکن یہ بدنصیب سندھ ہے جو تاریخ کے بدترین حکمران کے ہاتھوں میں کچھ اس طور سے یرغمال بنا ہوا ہے کہ گٹر کا پانی پینے پر مجبور ہے۔
آفرین ہے لندن کے کنگز کالج سے قانون کی ماسٹر ڈگری کے حامل سندھ دوست وکیل شہاب اوستو کو، جنہوں نے محنت کرکے ایسی مضبوط پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی، کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ڈویژن بینچ کے جسٹس امیر ہانی مسلم نے اس پر فوراً ایک کمیشن قائم کرنے اورکمیشن کو چھے ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا، جس نے حد درجہ برق رفتاری، مہارت اور محنت سے سندھ کے کچھ شہروں کا دورہ کیا تو نتیجہ جج صاحب کے ایک جملے ’’سندھ کے لوگ گٹر کا پانی پی رہے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ زندہ کس طرح ہیں؟‘‘ میں سمو کر سامنے آیا ہے۔ کمیشن کی جانب سے شہروں کا دورہ کرنے کے بعد اس وقت تک جو حالتِ زار اس کے سامنے آئی ہے، وہ اہلِ سندھ کے لیے ازخود اپنے اوپر ماتم کرنے جیسی ہے۔
لاڑکانہ کی حالتِ زار:
عدالتی کمیشن نے لاڑکانہ کا دورہ کیا۔ اس دورے سے قبل ہی یہ خبر تو سبھی کو تھی کہ لاڑکانہ کی رائیس کینال گٹر میں تبدیل ہوچکی ہے، لیکن مذکورہ دورے کے بعد اب تو اس خبر پر عدالت نے بھی اپنی طرف سے مہرِتصدیق ثبت کردی ہے۔ لاڑکانہ میں صرف شہر کا گندا پانی ہی کینال میں نہیں آرہا بلکہ تمام اسپتالوں کے بیماروں کا فضلہ، جراثیم اور وائرس بھی رائیس کینال میں شامل ہوکر نلکوں کے پانی کے ذریعے اہلِ لاڑکانہ کے گھروں میں پہنچ رہے ہیں اور لاڑکانہ کے شہری اس پانی کو استعمال کررہے ہیں۔ کمیشن کے اس سوال پر کہ اسپتالوں کا فضلہ کہاں ٹھکانے لگایا جاتا ہے؟ چانڈکا اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ ’’فضلہ کو جلانے والا پلانٹ گیس نہ ہونے کی وجہ سے بند ہے، اس لیے وہ اسپتال کا سارا گند کچرا میونسپلٹی والوں کے حوالے کردیتے ہیں‘‘۔ کمیشن نے جب پبلک ہیلتھ والوں سے پوچھا: ’’پانی صاف کرنے والا آر او پلانٹ کیوں بند ہے؟‘‘ جواب ملا: ’’پمپنگ اسٹیشن پر قبضے قائم ہوچکے ہیں‘‘۔ ’’شہرکی صفائی کیوں نہیں ہورہی؟‘‘ کے استفسار پر کمیشن کو جواب یہ دیا گیا: ’’یہ معاملہ نساسک کے سپرد ہے اور وہی اس کام کے ذمہ دار ہیں۔‘‘
نساسک نے سندھ کے چھے تعلقوں میں کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے اپنی زیرنگرانی آنے والے شہروں کو گندگی کا ڈھیر بنادینے میں اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ لاڑکانہ میں ہی کمیشن کو اس امر کی خبر بھی ملی کہ نساسک کے ادارے سے معاہدہ ختم ہوچکا ہے، لیکن پھر بھی حکومتی پارٹی کے بااثر افراد اس ادارے کو قائم رکھتے چلے آرہے ہیں اور مبینہ طور پر کروڑوں روپے کا بجٹ اس ادارے کے ذریعے ڈکار جاتے ہیں۔ لاڑکانہ کی رائیس کینال کا گٹر والا پانی صرف لاڑکانہ کے شہری ہی نہیں، بلکہ شہر دادو تک کے باسی بھی پیتے ہیں، بھلے ان کے ہاں بورنگ لگی ہوئی ہو۔ اس سے پانی محض سفید ہوتا ہے، جراثیم نہیں مرتے۔ شہریوں کو گٹر کا پانی پلانے والے حکمران، بدعنوان افسر شاہی اور چھوٹے سرکاری ملازم سب ایک ہیں۔ اس کی مثال اس طور سے بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ کمیشن کو کافی مقامات پر جھوٹی رپورٹ دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ تو جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور وکیل شہاب اوستو کی محنت و لگن ہے کہ وہ جھوٹ بولنے والوں کی دی گئی رپورٹوں پر چلنے کے بجائے ازخود ان مقامات پر جاکر حقیقی صورتِ حال کا مشاہدہ کرتے اور ان کے جھوٹ کو پکڑتے رہے۔ حیرت ہے کہ سرکاری بیوروکریٹس اور ملازمین کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ عدالتِ عالیہ کے کمیشن کے سامنے بھی اب جھوٹ بولنے سے نہیں ڈرتے۔
جیکب آباد کی حالتِ زار:
عدالتی کمیشن جیکب آباد پہنچا تو یہ بات سامنے آئی کہ علاقے کے 70 فیصد باشندے گدھا گاڑی والوں سے پانی منگوا کر خریدتے ہیں۔ بقیہ جن30 فیصد افراد کے گھروں میں بذریعہ واٹر سپلائی پانی پہنچتا ہے ان کا پانی گٹروں والا مکس پانی ہے۔ جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر نے بھی کمیشن کو رپورٹ دیتے ہوئے نساسک کے ادارے کو کافی خرابیوں کا گڑھ قرار دیا۔ میونسپل کے حکام نے بتایا: سارے اختیارات نساسک کے پاس ہیں۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ شہریوں نے نکاسئ آب اور واٹر سپلائی کے کیسز نیب کو بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
شکارپور کی حالت:
شکارپور کا اچار سارے برصغیر میں مشہور ہوا کرتا تھا۔ اس میں یہ ذائقہ اور تاثیر کسی اسپیشل فارمولے کے تحت نہیں بلکہ اس علاقے کے پانی کی وجہ سے ہوا کرتی تھی۔ شاندار عمارات، شاندار افراد اور باذوق خاندانوں کا شکارپور، سندھ کا پیرس شکار پور آج پورے سندھ کی طرح برباد ہوچکا ہے۔ گندگی اورگٹر کے پانی سے تالاب بنی ہوئی سڑکوں کے شہر شکارپور میں جب عدالتی کمیشن پہنچا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ سندھ کینال اور کیرتھر کینال بھی شکارپور کے (لاڑکانہ کی مانند) رائیس کینال بن چکے ہیں۔ گٹروں کا گندا پانی ان میں براہِ راست ڈالا جاتا ہے۔ کمیشن کے علم میں آیا کہ پبلک ہیلتھ، آب پاشی اور اسکارب کے محکمے اپنی ذمہ داریاں سرانجام نہیں دے رہے ہیں۔ باقی رہا سہا شہر کی صفائی کا جنازہ میونسپلٹی اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر نساسک کے ادارے نے نکال دیا ہے۔ شکارپور کی بربادی اور تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کمیشن کی ہدایت پر جب سیشن جج پانی کے نمونے لینے کی خاطر شہر میں نکلے تو ان کی گاڑی سڑکوں پر کھڑے ہوئے گٹر کے پانی میں پھنس کر رہ گئی۔ شکارپور کی یہ حالتِ زار دیکھتے ہوئے کمیشن کو بریفنگ دیتے وقت شہاب اوستو جن کی پٹیشن پر سپریم کورٹ نے یہ کمیشن تشکیل دیا ہے، انتہائی غم زدہ دکھائی دیے، کیوں کہ شکارپور ہی موصوف کا آبائی شہر ہے۔
سکھر کی حالت:
سکھر کی حالتِ زار اس لیے کہیں زیادہ عبرت انگیز ہے کہ یہاں پر یہ خبر پڑی کہ لاڑکانہ کی تو رائیس کینال، شکارپور کی سندھ واہ اور کیرتھر کینال کو گٹروں میں تبدیل کردیا گیا ہے لیکن سکھر کے پاس تو سارا دریائے سندھ ہی گٹر میں بدل دیا گیا ہے۔ عدالتی کمیشن نے دورۂ سکھر کے موقع پر نساسک، ضلعی حکام اور میونسپل سمیت سائیٹ ایریا کے عمّال کے بیانات قلم بند کیے۔ بندرروڈ کے نزدیک دریائے سندھ میں چھوڑے گئے گٹروں کے پانی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری کا معائنہ کیا۔ تمام کے تمام ادارے تباہ حال، اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو ادا نہ کرنے والے، غلط سلط رپورٹیں اوپر ارسال کرنے والے اور کرپٹ پائے گئے۔ اس موقع پر سندھ کے تعلقہ جات لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد، سکھر، روہڑی اور خیرپور کی رہی سہی کسر بھی پوری کرنے والے ادارے نساسک کے جی ایم بھی کمیشن کے روبرو پیش ہوئے۔ جی ایم موصوف نے بتایا کہ سکھر کو پانی کی روزانہ کی ضرورت 30 ایم جی ڈی ہے۔ 2018ء تک اگر تین پلانٹ بحال ہوئے اور سکھر پراجیکٹ مکمل ہوا تو اس ضرورت کو پورا کیا جاسکے گا۔ سکھر کے ڈپٹی کمشنر نے بھی نساسک کو بہت ساری خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نساسک کو پیسے دینا گویا انہیں کسی کنویں میں پھینکنے کے مترادف ہے۔
حیدرآباد کی حالتِ زار:
یہاں پر بھی سکھر جیسی صورتِ حال ہی دیکھنے کو ملی۔ کمیشن کو دریائے سندھ یہاں پر بھی گٹر میں تبدیل شدہ حالت میں ملا۔ شہر کی نکاسی کا گندا پانی پھلیلی، اکرم اور پنجاری کینال میں ڈالنے کا اعتراف ڈی سی حیدرآباد نے ازخود مذکورہ کمیشن کے سامنے کیا۔ اسپتالوں کا زہریلا، جراثیم آلود فضلہ بھی ان تینوں نہروں میں ڈالنے کا اعتراف ڈی سی حیدرآباد نے کمیشن کے روبرو کیا۔ ان نہروں کے کنارے پر قائم بھینسوں کے باڑے کی گندگی اور قصابوں کے ہاتھوں ذبح شدہ جانوروں کی آلائش بھی براہِ راست ان تینوں نہروں میں ڈال دی جاتی ہے۔ خوبصورت وادھو واہ نہر کو قاسم آباد کے باشندوں نے ایک گٹر نالے میں تبدیل کرڈالا ہے۔ اسی قاسم آباد کی بستی میں حکمران پیپلزپارٹی کے ستّر سے بھی زائد قومی، صوبائی اور سینیٹ کے ارکان کے گھر واقع ہیں۔ قاسم آباد کے تین سو میں سے اکثر پلازہ کے ہاں کسی ایک کا بھی باقاعدہ نکاسی آب کا نظام موجود نہیں ہے۔ یہ سارے اپنا گند، کچرا وادھوواہ (نہر) میں پھینکتے ہیں۔ قاسم آباد کی میونسپل کمیٹی میں گھوسٹ ملازمین کی ایک فوج بھرتی کردہ ہے۔ میونسپل کمیٹی میں پچاس خاکروب ایسے ہیں جو سفید پوش ہیں اور جنہوں نے کبھی جھاڑو نہیں لگائی ہے، بس ہر ماہ اپنی تنخواہ ہی وصول کیا کرتے ہیں۔ کمیشن کے سامنے یہ بات بھی آئی کہ اربوں روپے کے بجٹ پر مبنی اسپتالوں میں سے کسی ایک کے ہاں بھی ویسٹ مینجمنٹ کا سسٹم نہیں ہے۔ کمیشن کے سامنے یہ بات آئی کہ چار سو ملین روپے خرچ کرنے کے باوجود ڈرینج کا نظام نہیں ہے۔ کمیشن نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ اربوں روپے آئے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ آخر وہ گئے کہاں؟ کمیشن کے سامنے یہ بات بھی آئی کہ کوٹری کا ٹریٹمنٹ پلانٹ ایک ارب روپے میں تعمیر ہوا، لیکن پہلے دن ہی خراب بھی ہوگیا جو تاحال بند پڑا ہوا ہے۔ اتنی بڑی کرپشن کے باوجود کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے۔ کیوں کہ سب باہم ساجھی دار ہیں۔ اس پلانٹ کا ٹھیکہ ایم کیو ایم والوں کے پاس تھا اور اس پلانٹ کے نہ چلنے پر کوٹری کی صنعتوں کا سارا زہریلا پانی (کیمیکل سے بھرپور) دریائے سندھ کے ذریعے کینجھر جھیل سے ہوتا ہوا اہلِ کراچی کے پینے کے پانی میں جا ملتا ہے۔
عدالتی کمیشن کا کام جاری ہے۔ کراچی کا دورہ اور تھر میں اربوں روپے کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی کرپشن (جس کا الزام شرجیل میمن پر عائد کیا جارہا ہے) کے راز سے پردہ اٹھانا ابھی باقی ہے۔ کمیشن کو لاکھ آفرین ہو، لیکن جب تک سندھ کے لوگ ازخود ہمت کرکے کرپٹ اربابِ اختیار کا احتساب نہیں کریں گے، اُس وقت تک یہ ساری محنت ادھوری رہے گی۔ کرپٹ سیاست دانوں، افسر شاہی اور ان کے مددگار اہلِ دانش کے ساتھ سول سوسائٹی اور وکیل برادری بلاشبہ جنگ لڑ سکتی ہے۔ وکیل اپنی طاقت سے اگر پرویزمشرف جیسے آمر کو جھکا سکتے ہیں تو سندھ کے کرپٹ حکمران اور ان کے ساتھی کیا شے ہیں؟‘‘

حصہ