انتخابی اصلاحات اور نئی سیاسی صف بندی

177

میاں منیر احمد
1970ء سے ملک میں اب تک دس عام انتخابات ہوچکے ہیں، لیکن ان میں سے کسی ایک کے بھی نتائج دل سے تسلیم نہیں کیے گئے۔ پہلے عام انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر ملک ٹوٹ گیا، 1977ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں ہوئے اور پیپلزپارٹی کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ اور بعد میں ہونے والے انتخابات کے نتائج بھی تسلیم نہیں کیے گئے بلکہ انتخابات میں ہارنے والی پارٹی نے نتائج پر تحفظات ظاہر کیے لیکن نظام بچانے کے نام پر قبول کیے جاتے رہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے دھرنا دیا اور اس کے نتیجے میں انتخابی نتائج کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اس کمیشن نے فیصلہ دیا کہ انتخابات میں منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس تمام مشق کے بعد انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا باب بند نہیں ہوا اور انتخابی اصلاحات کے لیے قومی اسمبلی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے ڈیڑھ سال کے بعد سفارشات مرتب کیں اور ان سفارشات کے مطابق قانون سازی کے لیے مسودہ تیار ہوا، تاہم اراکینِ پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلق شقوں 62۔63 کو مزید مؤثر بنانے، ترامیم کرنے یا ختم کرنے کے معاملے پر تاحال سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا ہے۔ آئین میں یہ شقیں موجود ہونے کے باوجود ان کو عضوِ معطل بناکر رکھ دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ارکان پارلیمان ہی ایک دوسرے پر چور، ڈاکو، لٹیرے، خائن اور ٹیکس چور جیسے آوازے کستے ہیں اور مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رہے گا، تاہم متفقہ سفارشات کی منظوری کابینہ کے اجلاس میں دی گئی ہے جس کی روشنی میں ایک جامع قانون بنے گا جس میں 9 انتخابی قوانین کو سمو دیا جائے گا۔ آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں منظوری کے نتیجے میں یہ ایکٹ بن جائے گا۔ الیکشن کمیشن کو انتظامی اور مالیاتی حوالے سے مکمل طور پر بااختیار بنایا گیا ہے۔ قانون سازی کے لیے مسودہ اب قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کی پابند ہوں گی، اس طرح کسی بھی حلقے میں خواتین ووٹرز کی 10 فیصد سے کم پولنگ پر نتیجے کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ سفارشات میں نتائج کے حوالے سے نیا جدید طریقہ کار متعارف کرایا گیا جس کے تحت کسی بھی پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ موبائل فون کے ذریعے بیک وقت پریذائیڈنگ افسر اور الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر میں آجائے گا۔ اس مقصد کے لیے اسپیشل موبائل ایپلی کیشن بنائی گئی ہے۔ ہر دس سال کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی، اگر کسی حلقے میں کسی بھی امیدوار کی جیت کا فرق دس ہزار ووٹ تک ہوگا تو اعتراض کی صورت میں اسی حلقے کی دوبارہ گنتی ہوسکے گی اور امیدوار کو ایک ہی بار گنتی کی درخواست دینے کا اختیار ہوگا۔ ان اصلاحات کے تحت امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کے موقع پر اثاثوں اور ٹیکس ادائیگیوں کی صاف شفاف جانچ پڑتال بھی ہوسکے گی اور اثاثوں اور اکاؤنٹس کے حوالے سے امیدوار وہی دستاویز انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جمع کرا سکیں گے جو وہ ایف بی آر میں ویلتھ اسٹیٹمنٹ دیں گے۔ معذور ووٹروں کے لیے پوسٹل بیلٹ کی سہولت کی منظوری دی گئی ہے۔ انتخابی اصلاحات میں انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے میڈیا کے کردار کو غیر معمولی حد تک محدود کردیا گیا ہے، بلکہ خلاف ورزی پر سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔ اس مجوزہ مسودے میں میڈیا پر 24 قسم کی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس ملک میں میڈیا کی کوریج کے خلاف کم و بیش 124 قانون موجود ہیں جن کی بنیاد پر پریس اور میڈیا پرسن پر پابندیاں لگائی گئی ہیں اور حالیہ انتخابی اصلاحات میں شامل چوبیس قانونی پابندیاں ان سے الگ ہیں۔ انتخابات کی شفافیت اور مستند حیثیت کے لیے انتخابی اصلاحات ممد و معاون ثابت ہوں گی، تاہم ان میں اصلاح کی مزید گنجائش ہے۔ معاملہ پارلیمنٹ میں جائے گا تو پارلیمنٹیرین مزید تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے لیے معروضی حالات کے ساتھ ساتھ ماضی سے سیکھنے اور مستقبل کی ضروریات کو مدمنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
جوں جوں2018ء کے عام انتخابات قریب آرہے ہیں، ملک میں سیاسی ہلچل بھی پیدا ہونے لگی ہے۔ اگلے عام انتخابات کیسے ہوں گے اور کیا متوقع نتائج سامنے آسکتے ہیں، اگر ہونے والی موجودہ سیاسی پیش رفت کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اگلی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا نقشہ بھی واضح طور پر سمجھ میں آسکتا ہے۔ سیاسی پیش رفت یہ پتا دے رہی ہے کہ اگلے عام انتخابات میں کراچی، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابی نتائج ماضی سے بہت مختلف ہوں گے، کسی کو کلی اکثریت ملے گی اور نہ کوئی دو جماعتیں مل کر حکومت بناسکیں گی۔ حکومت بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں وسیع البنیاد سیاسی اتحاد کرنا ہوں گے جس کے لیے اگلے عام انتخابات سے قبل نئی سیاسی صف بندیاں ہوں گی اور بہت سے غیر سیاسی چہرے بھی سامنے آنے کی توقع ہے۔
ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ اور اس کے بعد مصطفی کمال کی انٹری، بعد میں نئی صف بندی کی کوششوں کا آغاز ہی سلیم شہزاد کی وطن واپسی کی بنیاد بنا ہے۔ طویل عرصے کے بعد ان کی واپسی کسی ہدف کے بغیر نہیں ہوئی۔ نئی صف بندی میں متحدہ کے ایک دھڑے یا اہم شخصیات کا اگلا پڑاؤ پیپلزپارٹی ہے جس کے لیے خیمے تیار کیے جارہے ہیں۔ جلد ہی حالات موافق ہوتے ہی ڈاکٹر عشرت العباد کے بعد سلیم شہزاد اور ان کے ہم خیال پیپلز پارٹی کی چھتری تلے آجائیں گے، اور وہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اعتماد میں لے کر کراچی پہنچے ہیں، اسی لیے وہ لندن سے پہلے دبئی پہنچے اور وہاں سے کراچی آئے ہیں۔ دبئی میں ان کے نہ صرف پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطے ہوئے بلکہ سابق گورنر سندھ عشرت العباد اور پرویزمشرف سے بھی ملاقاتیں کیں، جس کے بعد چودھری شجاعت حسین بھی دبئی پہنچے جہاں وہ پرویزمشرف سے ملے ہیں۔ امکان ہے کہ مسلم لیگ قاف، پیپلز پارٹی اور متحدہ کا پرویزمشرف کے قریب دھڑا سندھ میں سیاسی اتحاد بناکر یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ فی الحال ان تینوں کے مابین اتحاد کے لیے ابتدائی بات چیت ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی اور جنرل(ر) پرویزمشرف نے قاف لیگ سے استفسار کیا ہے کہ وہ پنجاب میں ان کے لیے کتنی اور کس طرح مددگار بن سکتی ہے؟ اب مسلم لیگ قاف پارٹی کے اندر مشاورت کررہی ہے۔ جب تک یہ مشاورت مکمل ہوگی اُس وقت تک متحدہ کے اندر بھی مشاورت کا عمل مکمل کرلیا جائے گا اور باہمی اعتماد کے فروغ کے لیے پیپلزپارٹی سندھ کی حد تک متحدہ کے قابلِ قبول دھڑے سے وابستہ افراد کو مقدمات کے اثر سے محفوط رکھے گی۔ طے شدہ پلان کے تحت ہی سلیم شہزاد کو کراچی واپسی پر پیپلزپارٹی کے ایک منظورِ نظر افسر نے گرفتار کیا ہے اور دوسرے ہی دن عدالت میں پیش کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر 18 فروری تک جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت میں ان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے اصرار ہی نہیں کیا۔ یہ سب کچھ اُس سمجھوتے کا حصہ تھا جس کے تحت سلیم شہزاد کی واپسی ہوئی ہے۔ عدالت میں رینجرز کے لا افسر نے تفتیشی عمل سے گزارے بغیر سلیم شہزاد کو جیل بھیجنے کا راستہ ہموار کرنے کے معاملے کو تفتیشی افسر کی بدنیتی قرار دیا۔ یہ طے تھا کہ ایئرپورٹ پر سلیم شہزاد کی ڈرامائی گرفتاری پولیس کے ہاتھوں ہوگی، گرفتاری کے بعد سلیم شہزاد سے ملزمان جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا، تفتیشی افسر جسمانی ریمانڈ پر اصرار نہیں کرے گا، اور یہ کہ ڈاکٹر عاصم کیس میں ضمانت کے بعد سلیم شہزاد کو جن دیگر مقدمات کا سامنا ہے، اُن میں بھی قانون کے مطابق جتنی سہولت دی جا سکتی ہے، وہ دی جائے گی۔ سلیم شہزاد کے خلاف ڈاکٹر عاصم کیس کے علاوہ دیگر 23کیس درج تھے۔ سلیم شہزاد کی واپسی سے ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردوں کو تحفظ دینے اور ان کا علاج کرنے سے متعلق کیس اب تیزی سے آگے بڑھے گا۔ اس کیس میں ڈاکٹر عاصم، وسیم اختر اور رؤف صدیقی اور پیپلزپارٹی کے قادر پٹیل کی ضمانتیں پہلے ہی منظور ہوچکی ہیں۔ کیس کے چھٹے ملزم سلیم شہزاد کو انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے عدم حاضری پر اشتہاری ملزم قرار دے رکھا تھا۔ امکان ہے کہ اس کیس میں بھی سلیم شہزاد کی ضمانت جلد ہوجائے گی۔ جب ایک کیس میں بہت سے ملزمان کی ضمانتیں ہوچکی ہوں تو قانونی طور پر باقی ملزمان کی ضمانت بھی آسانی سے ہوجاتی ہے۔ اگرچہ عدالت ایک مرحلے پر آکر اشتہاری ملزم کی غیر موجودگی میں بھی باقی ملزمان کے خلاف کیس چلا کر فیصلہ سنا سکتی تھی، لیکن یہ مرحلہ آنے سے قبل ہی سلیم شہزاد سب کچھ طے کرکے واپس آئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نئی سیاسی صف بندی میں پیپلزپارٹی سے کچھ توقعات باندھے ہوئے ہے کہ وہ پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی مخالف سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اس کا ساتھ دے گی۔ کہا جارہا ہے کہ سلیم شہزاد پچھلے چند ماہ سے واپس آنے کی کوششیں کررہے تھے لیکن انہیں گرین سگنل نہیں مل رہا تھا، جس کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطہ کرکے دوسرا آپشن اختیار کیا۔ یہ رابطہ کرانے میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کاری سے متعلق کیس کو تیزی سے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پیپلزپارٹی کو سلیم شہزاد کی ضرورت تھی جو اب ان کی وطن واپسی کے بعد پوری ہوگئی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کی جانب سے این آر او کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد سارے مقدمات کھل چکے ہیں، تاہم ان میں سے بیشتر کیسوں کی فائلیں غائب ہیں۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی رہائی پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی اولین ترجیح ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے خلاف فوجداری کا واحد مقدمہ دہشت گردوں کی سہولت کاری اور ان کے علاج سے متعلق تھا۔ اس کیس سے نجات کی صورت میں ان پر نیب کی طرف سے دائر کرپشن کے دو بڑے مقدمات باقی بچیں گے، اس کے لیے پس پردہ پی پی قیادت کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے بات چل رہی ہے۔ ان کیسوں کا بھی وہی انجام ہوگا جو سابق صدر آصف زرداری کے بہنوئی منور تالپور کے خلاف جاری انکوائری کا ہوا ہے۔ میر منور تالپور کے خلاف نیب نے غیرقانونی اثاثے بنانے کے الزام کی انکوائری یہ کہہ کر بند کردی ہے کہ ٹھوس شواہد نہیں مل سکے۔ پیپلزپارٹی عام انتخابات سے قبل ڈاکٹر عاصم کو ہر صورت قید سے رہائی دلانا چاہتی ہے تاکہ ان کے ذریعے ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ دورانِ قید ہی ڈاکٹر عاصم کو کراچی میں پیپلزپارٹی کا صدر منتخب کرایا گیا ہے۔ اس سے پیپلزپارٹی کے سیاسی اہداف کی عکاسی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم کو آصف زرداری کی ہدایت پر کراچی ڈویژن کی صدارت کا پارٹی عہدہ دیا گیا ہے۔ اس فیصلے نے انہیں ’’سیاسی قیدی‘‘ بنا دیا ہے۔ پیپلزپارٹی ان کے ذریعے متحدہ سے مل کر شہری علاقوں میں اپنے اثرات قائم کرنا چاہتی ہے۔
سندھ میں گورنر کی تقرری بھی ایک موضوع ہے۔ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ زبیر عمر کو کیوں گورنر بنایا گیا؟ سندھ کی گورنرشپ کے لیے ابتدا میں 13 افراد کے ناموں کی فہرست بنائی گئی تھی اور زبیر عمر کے علاوہ معروف صنعت کار ایس ایم منیر کا نام ابتدا سے ہی اس فہرست میں شامل رہا۔ صوبے کی حساسیت اور متحدہ کی توڑپھوڑ کے باعث پالیسی ساز اور فیصلہ ساز قوتیں صوبے میں غیر سیاسی پس منظر کے حامل شخص کو گورنر دیکھنا چاہتی تھیں۔ اس منصب کے لیے مشاہد اللہ خان کے نام کے حوالے سے بہت سی باتیں کی جارہی ہیں، لیکن ان سمیت سیاسی پس منظر کی حامل کسی بھی شخصیت کا نام زیر غور ہی نہیں آیا۔ تیرہ افراد کی فہرست میں شامل تمام افراد کے انٹرویو کراچی اور راولپنڈی میں ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں گیارہ افراد کی فہرست بنی، اس میں بھی زبیر عمر اور ایس ایم منیر کے نام شامل تھے، پھر مزید چھانٹی ہوئی تو سات افراد کی فہرست بنی، اس کے بعد تین اور سب سے آخر میں دو افراد کی فہرست بنی۔ اس میں بھی زبیر عمر اور ایس ایم منیر کے نام شامل تھے۔ اب ان دونوں میں سے کسی ایک کے نام قرعہ فال نکلنا تھا، یہی فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ متحدہ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے ایس ایم منیر کے نام کی مخالفت کی تھی لیکن اس کے باوجود وہ انٹرویو کرنے والے پینل کی متفقہ ترجیح تھے۔ ایس ایم منیر سے کہا گیا کہ اگر وزیراعظم ان کی سفارش کردیں تو ان کی تقرری ہوسکتی ہے۔ جس پر انہوں نے وفاقی وزراء عبدالقادر بلوچ، خرم دستگیر اور اسحاق ڈار سے رابطہ کیا، لیکن اسحاق ڈار نے وزیراعظم کے سامنے ان کا کیس ہی پیش نہیں کیا، جس پر زبیر عمر کے حق میں فیصلہ ہوا۔

حصہ