کشمیر کے ہیرو۔ بھارت کے ولن

201

سید عارف بہار
کشمیر کے رواں انقلاب کے بانی مقبول بٹ کے بارے میں مشیر حکومتِ آزادکشمیر سردار خان بہادر خان کی ’’گوہر افشانی‘‘ سے پھوٹ پڑنے والا تنازع سوشل میڈیا میں پوری طرح گرم ہی تھا کہ دنیا نیوز کے بیوروچیف برادر اسلم میر کی طرف سے سری نگر کے گلی کوچوں، پیلٹ گن کے زخمیوں سے بھرے ہسپتالوں، تاریخی جامع مسجد کے میدانِ جنگ بنے دالان، بھارتی فوجیوں کی مغلظات بھری باتوں، نابینا ہوجانے والی افراح کی چھوٹی چھوٹی باتوں، کندھوں پر اُٹھائے لاشوں اور شہدا کے جنازوں پر گائے جانے والے گیتوں پر مبنی چھبیس منٹ دورانیے پر محیط ایک رپورٹ کی وڈیو اس تبصرے کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی کہ ’’کے بی خان صاحب دیکھیے کشمیری کس طرح اپنے ہیروز کا احترام کرتے ہیں اور آپ انہیں ڈاکو کہتے ہیں!‘‘ یہ ایک رُلا دینے والی رپورٹ ہے جس کا اختتام ایک ایسے شخص کے جملوں پر ہوتا ہے جس کے سامنے اکیس سالہ بیٹے انجینئر سمیر کا لاشہ ہے، جو کشمیر کے موجودہ حالات کے باعث چند ماہ قبل ہی مسلح حریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوا تھا۔ چاروں طرف آہ و بکا جاری ہے، خواتین ٹولیوں میں ماتم کررہی ہیں، کچھ بین کررہی ہیں اور کچھ سمیر کے خون سے انقلاب آنے کے نعرے بلند کررہی ہیں تو پُرنم آنکھوں والے سوگواروں میں گھرا سمیر کا ادھیڑ عمر والد الجزیرہ ٹی وی کی خاتون رپورٹر کے سامنے چند تاریخی مگر جگر پاش جملے انگریزی میں ادا کرتا ہے۔ یہ جملے ہر اُس شخص کے لیے ہیں جو بے مقصد بحث، کٹ حجتی پر مبنی نظریات پر اصرار، تاویلوں اور دلیلوں کا سہارا لے کر اہلِ وادی کی قربانیوں کا سفر طویل بنارہا ہے۔ سمیر کے والد، رپورٹر سے انگریزی میں کہتے ہیں
”No parent should see the coffin of their children .This is the most painful thing in the world .I can tell you from my experience today.Do something.Our children are no less than the other children in the world.They have high dreams.Give them a chance”
اس گہری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے بچے دنیا بھر کے بچوں سے کسی طور کم نہیں۔ ان کے خواب بہت بلند ہیں، بس انہیں ایک موقع دیجیے۔
راولاکوٹ میں ایک تنازعے کی ابتدا اُس وقت ہوتی ہے جب گیارہ فروری کو دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری محمد مقبول بٹ کا یوم شہادت منا رہے تھے تو راولاکوٹ میں مسلم لیگ (ن) کے راہنما سردار طاہرانور کے والد کے ایک تعزیتی ریفرنس میں وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر خان سمیت اعلیٰ سیاسی اور سماجی شخصیات شریک تھیں۔ اس موقع پر مشیرِ حکومت سردار خان بہادر خان نے مقبول بٹ کو ڈاکو اور لٹیرا قرار دیا۔ جس پر جلسہ گاہ میں ہی احتجاجی آوازیں بلند ہوئیں اور اسٹیج سیکرٹری نے اس پر معذرت کرکے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سردار خان بہادر خان کے یہ الفاظ میڈیا میں رپورٹ ہوئے تو سوشل میڈیا پر بلاتخصیص سیاسی وابستگی نوجوانوں کی طرف سے شدید احتجاج کیا جانے لگا۔ قوم پرست سیاسی کارکنوں نے خان بہادر خان اور حکومت کے خلاف سخت زبان کا استعمال شروع کردیا۔ معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے اپنے فیس بک پیج پر اس واقعے کی تفصیل بیان کرنے کے ساتھ اُن تمام لوگوں سے معذرت کی جن کی دل آزاری ہوئی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ جب راولاکوٹ میں ایک تعزیتی ریفرنس جاری تھا تو قریب ہی مقبول بٹ کے یوم شہادت کے حوالے سے قوم پرست تنظیموں کا جلسہ ہورہا تھا اور اس جلسے کے مقررین تعزیتی ریفرنس کے شرکاء کے حوالے سے نازیبا گفتگو کررہے تھے جس کے جواب میں کے بی خان کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے مقبول بٹ کے بارے میں وہ ریمارکس دئیے جو انہیں نہیں دینے چاہیے تھے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کی طرف سے مقبول بٹ کو کشمیرکا فخر قرار دینے اور معذرت کے بعد یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جاناچاہیے تھا، مگر راولاکوٹ میں بیک وقت ہونے والے دو جلسوں میں ہونے والی توتکار کا نزلہ مقبول بٹ شہید پر گرنا بھی عجیب سی بات ہے۔ سردار خان بہادر خان پیرانہ سالی اور علالت کا شکار ہیں، اس پر مستزاد وزارت سے محرومی کا رنج ہے۔ محمد مقبول بٹ کے بارے میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ آج کے دور میں بھارت کا بیانیہ ہے۔ بھارت کے خیال میں مقبول بٹ ایک قاتل تھا جس نے بھارتی پولیس افسر کو قتل کیا تھا۔ اسی الزام میں انہیں سزائے موت دی گئی تھی۔ بھارت کشمیر میں شہید ہونے والے لاکھوں افراد کو دہشت گرد کہتا ہے۔ حتیٰ کہ حال ہی میں شہید ہونے والے برہان مظفر وانی کو بھی دہشت گرد قرار دیتا ہے، جسے مغربی میڈیا بھی کشمیریوں کا ہیرو کہہ رہا ہے۔ بھارت کا یہ لب ولہجہ قطعی ناقابلِ فہم نہیں۔ کشمیری عوام بھارت سے مصروفِجنگ ہیں۔ دونوں دہائیوں سے ایک دوسرے سے صف آرا ہیں۔ دونوں کے ہیروز اور ولن جدا جدا ہیں۔ دونوں کی خوشیاں اور غم الگ ہیں۔ دونوں کی فتح اور شکست کے پیمانے مختلف ہیں۔ ایک غاصب ہے اور دوسرا مجبور و محکوم۔۔۔ اور دونوں میں یہ فرق اور دوئی فطری اور لازمی ہے۔ مقبول بٹ اہلِ کشمیر کے متفقہ ہیرو ہیں، یہ ان کی قربانی اور آج کے کشمیر کی سب سے بڑی اور واضح حقیقت ہے۔ بھارت مقبول بٹ کو کیا سمجھتا ہے، کس نام سے یاد کرتا ہے، ان کی پھانسی کے لیے کیا جواز تلاش کرتا ہے؟ یہ کشمیریوں کا مسئلہ نہیں۔ کشمیریوں کے لیے وہ ایک ہیرو ہیں جن کی قربانی نے بقول اقبالؒ موت کے آئینے میں رخِ دوست دکھا کر انہیں خوف کے سایوں سے آزاد کردیا۔ اس طرح مقبول بٹ کو ڈاکو اور قاتل کہنا آزاد کشمیر میں بھارت کے مؤقف کو فروغ اور تقویت دینے کے مترادف ہے۔ بھارت یہی چاہتا ہے کہ آزادکشمیر کے عوام مقبول بٹ سے برہان وانی تک کشمیریوں کے سب ہیروز کو ولن سمجھنے لگیں۔ ان کی جدوجہد کو بے مقصد شدت پسندی قرار دیں۔ اس پس منظر میں خان بہادر خان صاحب کو اپنے مقام کا تعین کرنا چاہیے۔
دوسری طرف مقبول بٹ کے پورٹریٹ اُٹھا کر جلوس اور جلسے کرنے والے ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔ وہ مقبول بٹ کے لہو سے سری نگر میں جلنے والے آزادی کے چراغ کو اسپانسرڈ تحریک کہتے ہیں جو بھارت کا ہی بیانیہ ہے۔ وہ ایک ایسے ملک کا بیانیہ فروخت کرتے ہیں جس نے مقبول بٹ کو پھانسی دی اور جو ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کرچکا ہے۔ پاکستان کو کشمیر کی تحریک سے کاٹنا، الگ کرنا یا گالم گلوچ سے ناراض کرکے دور کرنا وادئ کشمیر کے عوام کو ہاتھ پاؤں باندھ کر بھیڑیئے کے آگے ڈالنے کے مترادف ہے۔ بلاشبہ سردار عبدالقیوم خان ایک صاحبِ بصیرت سیاست دان تھے، 1980ء کی دہائی میں وہ مشتعل قوم پرست تنظیموں کی یلغار کا مقابلہ کرتے ہوئے اکثر اپنی تقریروں میں ایک جملہ دہرایا کرتے تھے کہ خودمختار کشمیر کبھی پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر نہیں بن سکتا۔ خودمختار کشمیر پاکستان کے ذریعے ہی بن سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو گالی دینے والے آزادکشمیر میں فکری انتشار تو پھیلا سکتے ہیں مگر خودمختار کشمیر کی طرف پیش رفت نہیں کرسکتے۔ آج جب سردار صاحب کی اس بات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس وقت اصل مسئلہ وادی کشمیر میں چلنے والی تحریک ہے۔ وادی اور بھارت آمنے سامنے ہیں۔ بھارت اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس وقت پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اعلانیہ طور پر وادی کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ وادی کے عوام کو مظالم سے نجات دلانے کے نام پر پاکستان بار بار ’’آؤٹ آف باکس‘‘ حل کی بات کررہا ہے۔ پاکستان کے ایک فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے مقبول بٹ کی رہائی کے لیے بھارت کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع کررکھا تھا، اور اس بات کی تصدیق 1993ء میں مقبول بٹ کے صاحبزادے شوکت مقبول بٹ نے میرے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کی تھی۔ یہ انٹرویو فرائیڈے اسپیشل کے کشمیر نمبر میں شائع ہوا تھا جس میں شوکت مقبول بٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مقبول بٹ کی رہائی کے بدلے بھارتی فوج کے ایک میجر کی رہائی کی پیشکش کررکھی تھی۔ پاکستان کے ایک اور فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف نے تو بھارتی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہوجائے تو پاکستان سری نگر پر اپنے روایتی دعوے سے دست بردار ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان’’شہ رگ‘‘ کے مؤقف سے دو قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہے، اور اس کی وجہ وادی کے عوام کی قربانیاں اور ان کا لب ولہجہ ہے۔ اس لیے آزادکشمیر کی قوم پرست تنظیموں کو بھی اس مرحلے پر مقصد اور سیاست میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ صرف بھارت اور عالمی برادری کے لیے ہی نہیں بلکہ نظریاتی سرپھٹول میں مصروف آزاد کشمیر اور بیرونی دنیا میں بسنے والے آزادکشمیر کے باشندوں سے بھی سمیر کے والد کی درخواست ہے کہ Give them a chance ۔ وہ آزادی کی کسی بھی شکل اور صورت کے لیے میرٹ پر پورا اترتے ہیں، یقین نہیں آتا تو Kashmir: Born to fightکے نام سے الجزیرہ ٹی وی کی یہ رپورٹ دیکھ لیں جسے دیکھ کر ایک سنگ دل سے سنگ دل شخص بھی اس بہادر قوم کی رائے کے آگے سر تسلیم خم کر نے پر مجبور ہوسکتا ہے، پاکستان کے فیصلہ ساز تو کشمیر کے معاون،دوست اور مددگار ہیں۔
کشمیر کے رواں انقلاب کے بانی مقبول بٹ کے بارے میں مشیر حکومتِ آزادکشمیر سردار خان بہادر خان کی ’’گوہر افشانی‘‘ سے پھوٹ پڑنے والا تنازع سوشل میڈیا میں پوری طرح گرم ہی تھا کہ دنیا نیوز کے بیوروچیف برادر اسلم میر کی طرف سے سری نگر کے گلی کوچوں، پیلٹ گن کے زخمیوں سے بھرے ہسپتالوں، تاریخی جامع مسجد کے میدانِ جنگ بنے دالان، بھارتی فوجیوں کی مغلظات بھری باتوں، نابینا ہوجانے والی افراح کی چھوٹی چھوٹی باتوں، کندھوں پر اُٹھائے لاشوں اور شہدا کے جنازوں پر گائے جانے والے گیتوں پر مبنی چھبیس منٹ دورانیے پر محیط ایک رپورٹ کی وڈیو اس تبصرے کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی کہ ’’کے بی خان صاحب دیکھیے کشمیری کس طرح اپنے ہیروز کا احترام کرتے ہیں اور آپ انہیں ڈاکو کہتے ہیں!‘‘ یہ ایک رُلا دینے والی رپورٹ ہے جس کا اختتام ایک ایسے شخص کے جملوں پر ہوتا ہے جس کے سامنے اکیس سالہ بیٹے انجینئر سمیر کا لاشہ ہے، جو کشمیر کے موجودہ حالات کے باعث چند ماہ قبل ہی مسلح حریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوا تھا۔ چاروں طرف آہ و بکا جاری ہے، خواتین ٹولیوں میں ماتم کررہی ہیں، کچھ بین کررہی ہیں اور کچھ سمیر کے خون سے انقلاب آنے کے نعرے بلند کررہی ہیں تو پُرنم آنکھوں والے سوگواروں میں گھرا سمیر کا ادھیڑ عمر والد الجزیرہ ٹی وی کی خاتون رپورٹر کے سامنے چند تاریخی مگر جگر پاش جملے انگریزی میں ادا کرتا ہے۔ یہ جملے ہر اُس شخص کے لیے ہیں جو بے مقصد بحث، کٹ حجتی پر مبنی نظریات پر اصرار، تاویلوں اور دلیلوں کا سہارا لے کر اہلِ وادی کی قربانیوں کا سفر طویل بنارہا ہے۔ سمیر کے والد، رپورٹر سے انگریزی میں کہتے ہیں
”No parent should see the coffin of their children .This is the most painful thing in the world .I can tell you from my experience today.Do something.Our children are no less than the other children in the world.They have high dreams.Give them a chance”
اس گہری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے بچے دنیا بھر کے بچوں سے کسی طور کم نہیں۔ ان کے خواب بہت بلند ہیں، بس انہیں ایک موقع دیجیے۔
راولاکوٹ میں ایک تنازعے کی ابتدا اُس وقت ہوتی ہے جب گیارہ فروری کو دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری محمد مقبول بٹ کا یوم شہادت منا رہے تھے تو راولاکوٹ میں مسلم لیگ (ن) کے راہنما سردار طاہرانور کے والد کے ایک تعزیتی ریفرنس میں وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر خان سمیت اعلیٰ سیاسی اور سماجی شخصیات شریک تھیں۔ اس موقع پر مشیرِ حکومت سردار خان بہادر خان نے مقبول بٹ کو ڈاکو اور لٹیرا قرار دیا۔ جس پر جلسہ گاہ میں ہی احتجاجی آوازیں بلند ہوئیں اور اسٹیج سیکرٹری نے اس پر معذرت کرکے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سردار خان بہادر خان کے یہ الفاظ میڈیا میں رپورٹ ہوئے تو سوشل میڈیا پر بلاتخصیص سیاسی وابستگی نوجوانوں کی طرف سے شدید احتجاج کیا جانے لگا۔ قوم پرست سیاسی کارکنوں نے خان بہادر خان اور حکومت کے خلاف سخت زبان کا استعمال شروع کردیا۔ معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے اپنے فیس بک پیج پر اس واقعے کی تفصیل بیان کرنے کے ساتھ اُن تمام لوگوں سے معذرت کی جن کی دل آزاری ہوئی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ جب راولاکوٹ میں ایک تعزیتی ریفرنس جاری تھا تو قریب ہی مقبول بٹ کے یوم شہادت کے حوالے سے قوم پرست تنظیموں کا جلسہ ہورہا تھا اور اس جلسے کے مقررین تعزیتی ریفرنس کے شرکاء کے حوالے سے نازیبا گفتگو کررہے تھے جس کے جواب میں کے بی خان کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے مقبول بٹ کے بارے میں وہ ریمارکس دئیے جو انہیں نہیں دینے چاہیے تھے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کی طرف سے مقبول بٹ کو کشمیرکا فخر قرار دینے اور معذرت کے بعد یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جاناچاہیے تھا، مگر راولاکوٹ میں بیک وقت ہونے والے دو جلسوں میں ہونے والی توتکار کا نزلہ مقبول بٹ شہید پر گرنا بھی عجیب سی بات ہے۔ سردار خان بہادر خان پیرانہ سالی اور علالت کا شکار ہیں، اس پر مستزاد وزارت سے محرومی کا رنج ہے۔ محمد مقبول بٹ کے بارے میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ آج کے دور میں بھارت کا بیانیہ ہے۔ بھارت کے خیال میں مقبول بٹ ایک قاتل تھا جس نے بھارتی پولیس افسر کو قتل کیا تھا۔ اسی الزام میں انہیں سزائے موت دی گئی تھی۔ بھارت کشمیر میں شہید ہونے والے لاکھوں افراد کو دہشت گرد کہتا ہے۔ حتیٰ کہ حال ہی میں شہید ہونے والے برہان مظفر وانی کو بھی دہشت گرد قرار دیتا ہے، جسے مغربی میڈیا بھی کشمیریوں کا ہیرو کہہ رہا ہے۔ بھارت کا یہ لب ولہجہ قطعی ناقابلِ فہم نہیں۔ کشمیری عوام بھارت سے مصروفِجنگ ہیں۔ دونوں دہائیوں سے ایک دوسرے سے صف آرا ہیں۔ دونوں کے ہیروز اور ولن جدا جدا ہیں۔ دونوں کی خوشیاں اور غم الگ ہیں۔ دونوں کی فتح اور شکست کے پیمانے مختلف ہیں۔ ایک غاصب ہے اور دوسرا مجبور و محکوم۔۔۔ اور دونوں میں یہ فرق اور دوئی فطری اور لازمی ہے۔ مقبول بٹ اہلِ کشمیر کے متفقہ ہیرو ہیں، یہ ان کی قربانی اور آج کے کشمیر کی سب سے بڑی اور واضح حقیقت ہے۔ بھارت مقبول بٹ کو کیا سمجھتا ہے، کس نام سے یاد کرتا ہے، ان کی پھانسی کے لیے کیا جواز تلاش کرتا ہے؟ یہ کشمیریوں کا مسئلہ نہیں۔ کشمیریوں کے لیے وہ ایک ہیرو ہیں جن کی قربانی نے بقول اقبالؒ موت کے آئینے میں رخِ دوست دکھا کر انہیں خوف کے سایوں سے آزاد کردیا۔ اس طرح مقبول بٹ کو ڈاکو اور قاتل کہنا آزاد کشمیر میں بھارت کے مؤقف کو فروغ اور تقویت دینے کے مترادف ہے۔ بھارت یہی چاہتا ہے کہ آزادکشمیر کے عوام مقبول بٹ سے برہان وانی تک کشمیریوں کے سب ہیروز کو ولن سمجھنے لگیں۔ ان کی جدوجہد کو بے مقصد شدت پسندی قرار دیں۔ اس پس منظر میں خان بہادر خان صاحب کو اپنے مقام کا تعین کرنا چاہیے۔
دوسری طرف مقبول بٹ کے پورٹریٹ اُٹھا کر جلوس اور جلسے کرنے والے ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔ وہ مقبول بٹ کے لہو سے سری نگر میں جلنے والے آزادی کے چراغ کو اسپانسرڈ تحریک کہتے ہیں جو بھارت کا ہی بیانیہ ہے۔ وہ ایک ایسے ملک کا بیانیہ فروخت کرتے ہیں جس نے مقبول بٹ کو پھانسی دی اور جو ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کرچکا ہے۔ پاکستان کو کشمیر کی تحریک سے کاٹنا، الگ کرنا یا گالم گلوچ سے ناراض کرکے دور کرنا وادئ کشمیر کے عوام کو ہاتھ پاؤں باندھ کر بھیڑیئے کے آگے ڈالنے کے مترادف ہے۔ بلاشبہ سردار عبدالقیوم خان ایک صاحبِ بصیرت سیاست دان تھے، 1980ء کی دہائی میں وہ مشتعل قوم پرست تنظیموں کی یلغار کا مقابلہ کرتے ہوئے اکثر اپنی تقریروں میں ایک جملہ دہرایا کرتے تھے کہ خودمختار کشمیر کبھی پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر نہیں بن سکتا۔ خودمختار کشمیر پاکستان کے ذریعے ہی بن سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو گالی دینے والے آزادکشمیر میں فکری انتشار تو پھیلا سکتے ہیں مگر خودمختار کشمیر کی طرف پیش رفت نہیں کرسکتے۔ آج جب سردار صاحب کی اس بات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس وقت اصل مسئلہ وادی کشمیر میں چلنے والی تحریک ہے۔ وادی اور بھارت آمنے سامنے ہیں۔ بھارت اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس وقت پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اعلانیہ طور پر وادی کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ وادی کے عوام کو مظالم سے نجات دلانے کے نام پر پاکستان بار بار ’’آؤٹ آف باکس‘‘ حل کی بات کررہا ہے۔ پاکستان کے ایک فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے مقبول بٹ کی رہائی کے لیے بھارت کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع کررکھا تھا، اور اس بات کی تصدیق 1993ء میں مقبول بٹ کے صاحبزادے شوکت مقبول بٹ نے میرے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کی تھی۔ یہ انٹرویو فرائیڈے اسپیشل کے کشمیر نمبر میں شائع ہوا تھا جس میں شوکت مقبول بٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مقبول بٹ کی رہائی کے بدلے بھارتی فوج کے ایک میجر کی رہائی کی پیشکش کررکھی تھی۔ پاکستان کے ایک اور فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف نے تو بھارتی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہوجائے تو پاکستان سری نگر پر اپنے روایتی دعوے سے دست بردار ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان’’شہ رگ‘‘ کے مؤقف سے دو قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہے، اور اس کی وجہ وادی کے عوام کی قربانیاں اور ان کا لب ولہجہ ہے۔ اس لیے آزادکشمیر کی قوم پرست تنظیموں کو بھی اس مرحلے پر مقصد اور سیاست میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ صرف بھارت اور عالمی برادری کے لیے ہی نہیں بلکہ نظریاتی سرپھٹول میں مصروف آزاد کشمیر اور بیرونی دنیا میں بسنے والے آزادکشمیر کے باشندوں سے بھی سمیر کے والد کی درخواست ہے کہ Give them a chance ۔ وہ آزادی کی کسی بھی شکل اور صورت کے لیے میرٹ پر پورا اترتے ہیں، یقین نہیں آتا تو Kashmir: Born to fightکے نام سے الجزیرہ ٹی وی کی یہ رپورٹ دیکھ لیں جسے دیکھ کر ایک سنگ دل سے سنگ دل شخص بھی اس بہادر قوم کی رائے کے آگے سر تسلیم خم کر نے پر مجبور ہوسکتا ہے، پاکستان کے فیصلہ ساز تو کشمیر کے معاون،دوست اور مددگار ہیں۔

حصہ