(اچھے رشتے کیوں نہیں ملتے ۔۔۔؟(مختار آزاد

661

پاکستان جیسے مشرقی ماحول رکھنے والے ملک میں ایک مسئلہ جس نے والدین کی نیندیں اچاٹ کردی ہیں، بیٹیوں کے لیے اچھے رشتے نہ ملنے کا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لڑکے والوں کے پاؤں کی جوتیاں لڑکی والوں کے گھر کے چکر لگاتے لگاتے گھس جاتی تھیں تب کہیں جاکر لڑکی والے ہاں کرتے تھے۔ اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر جاتی ہے لیکن اچھا بَر نہیں ملتا۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ایسی کنواری لڑکیاں موجود ہیں جن کے والدین اچھے اور مناسب رشتے کی راہ تکتے رہے اور اس دوران ان بیٹیوں کے سروں پر چاندی اترتی چلی گئی، اور پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ اب جو رشتہ آتا بھی ہے وہ یہ کہہ کر واپس چلے جاتے ہیں کہ ہمیں تو اپنے بیٹے کے لیے کمسن لڑکی کا رشتہ چاہیے، بڑھیا کا نہیں۔۔۔ ذرا سوچیے کہ اس صورتِ حال میں اُن والدین کی کیا حالت ہوتی ہوگی جن کی بیٹیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں گھر کی دہلیز پر بیٹھے بیٹھے ہی بوڑھی ہوئی جارہی ہیں۔ یہ ایسا سنگین سماجی مسئلہ ہے جس نے ہماری معاشرتی جڑوں کے اندر مادیت اور مفاد پرستی سرایت کرجانے کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی بات ہے جس نے ہمارے معاشرے کا رجحان تبدیل کردیا ہے؟ وہ کیا معیار ہے جو لڑکے والے، ہونے والی بہوؤں میں تلاش کرتے ہیں؟ آخر وہ کیا چیز ہے جو لڑکوں کے آنے والے رشتوں میں خامی بن کر بیٹیوں کے ماں باپ کو رشتہ قبول کرنے سے انکار پر مجبور کردیتی ہے؟
وقت گزرتا رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے انداز و اطوار بھی بدلتے رہتے ہیں، لیکن سماجی اقدار جو صدیوں کی مضبوط جڑوں سے پروان چڑھتی ہیں، کیا اتنی کھوکھلی ہوچکی ہیں کہ گزرتا وقت ان میں دراڑیں ڈال دے! وہ لوگ جو خود ساختہ بدلتی اقدار کا لبادہ اوڑھ کر بہوؤں کی تلاش میں بیٹی والوں کی دہلیز تک جاتے ہیں، واپس کیوں پلٹ آتے ہیں؟ بیٹی کے لیے اچھا سوچنا ہر ماں باپ کا فرض ہوتا ہے لیکن وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے بیٹی کے لیے آنے والا بَر انہیں قبول نہیں ہوتا، اور پھر جب بیٹیاں گھر کی دہلیز پر بیٹھے بیٹھے عمر بیت جانے کی تصویر بن جاتی ہیں تو وہ کفِ افسوس مَلتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اچھے رشتوں کا تو بس کال پڑگیا ہے، اب تو اچھے رشتے ملتے ہی نہیں۔‘‘
ہم نے یہی بات جاننے کے لیے 70 سالہ اصغری خالہ سے بات کی۔ اصغری خالہ آج خیر سے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی اولادیں بھی اپنی گود میں کھلا رہی ہیں۔ بحیثیت استاد تعلیم کے شعبے میں چالیس سال کا عرصہ گزارنے کے بعد ہیڈ مسٹریس کے طور پر ریٹائر ہونے والی اصغری خالہ کہتی ہیں کہ ’’وقت کے ساتھ ساتھ اقدار کا بدلنا سماج کا ارتقائی عمل ہے، یہ نہ رکا ہے اور نہ ہی آئندہ اسے روکا جاسکے گا، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ سماجی اقدار کے ارتقا میں کیا ہمیں اپنی اُن بنیادی روایتوں کو بھی تبدیل کردینا چاہیے جن پر اس سماج کی بنیاد کھڑی ہے؟ یقیناًنہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، لیکن افسوس کہ ایسا ہی ہورہا ہے۔ جب ہم بحیثیت فرد اس بات کا خیال نہیں رکھتے تو پھر ہمیں کسی دوسرے سے بھی شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔ بیٹیوں کے رشتے آج کے دور میں بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن اس دور میں اچھے رشتے نہ ملنے کا سب سے بڑا سبب خود ہمارا دو رُخا معیار ہے۔ اب اگر ہم اپنے بیٹوں یا بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کرتے ہیں تو لڑکی اور اُس کے گھرانے کا ایک بلند معیار اپنے ذہن میں قائم کرلیتے ہیں۔ یہ معیار خود ہمارے اپنے سماجی معیار سے بھی کہیں بلند ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم خود اپنی بیٹی یا بیٹیوں کے لیے آنے والے رشتے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے معیار بالکل بدل جاتے ہیں، ہم چاہتے ہیں لڑکے والے خواہ اُن کا سماجی و معاشی مقام ہم سے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، ہماری بیٹی سے صرف شرافت، سگھڑ پن اور اس کی سیرت کو دیکھ کر رشتہ کردیں۔ آپ خود سوچیے، جب ہم بیٹے والے بن کر لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں تب ہم خود یہ سب کچھ کیوں نہیں سوچتے؟ اُس وقت شرافت، سلیقہ شعاری اور سیرت کے بجائے ہم اُس کے والدین کے سماجی و معاشی قد کاٹھ سے اپنے ذہن میں قائم خودساختہ معیار کا موازنہ کیوں کرنے لگتے ہیں؟ میری نظر میں لڑکیوں کی شادی میں تاخیر اور اچھے رشتوں کے نہ ملنے کا رونا وہی لوگ روتے ہیں جن کی زندگی کے معیار دو رخے ہوتے ہیں۔ جو لوگ بدلتی ہوئی سماجی اقدار کے باوجود اس خیال سے متفق ہوتے ہیں کہ رشتے بنائے نہیں جاتے بلکہ یہ آسمانوں پر طے ہوجاتے ہیں، زمین پر تو صرف ان کا ملن ہوتا ہے، ایسے لوگ کبھی پریشانی کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے گھروں کے آنگن خوشیوں سے محروم رہتے ہیں۔ لہٰذا شرافت اور لڑکے میں کسبِ کمال کی صلاحیت کو اپنے مدنظر رکھیں، کیونکہ جس شخص میں اپنی محنت سے دو وقت کی روٹی کما لینے کی صلاحیت ہو، وہ دنیا بھر کی آسائشیں بھی خدا کی مرضی سے وقت آنے پر حاصل کر ہی لیتا ہے۔
والدین کو بہو میں تعلیم، سلیقہ اور شعور۔۔۔ جب کہ لڑکی والوں کو داماد میں ایک کوالٹی ڈھونڈنی چاہیے، وہ یہ کہ کیا وہ شخص آنے والی زندگی کے دور کی ضروریات پوری کرسکتا ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کچھ اور ہی سوچ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لڑکی سسرال میں آئے تو لڑکے اور اس کے گھر والوں کے لیے آسائش اور تعیشات کے سارے لوازمات جہیز کی شکل میں ساتھ لے کر آئے۔ دوسری جانب لڑکی والوں کی سوچ ہوتی ہے کہ ہماری بیٹی اپنے گھر میں جیسی بھی زندگی بسر کرتی رہے وہ الگ ہے، لیکن سسرال جائے تو اسے تمام تعیشات بہم ہوں۔ بس یہی بنیادی چیز ہے کہ ہم اچھے رشتوں کے بروقت نہ ملنے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ لڑکی کم عمر ہوتی ہے اور زیر تعلیم ہوتی ہے کہ رشتے آنے شروع ہوجاتے ہیں، لیکن غریب والدین یہ سوچ کر کہ بیٹی پڑھ لکھ کر کوئی نوکری کرلے، پھر جہیز جمع کرکے شان سے شادی کردیں گے، آنے والے رشتوں کو انکار کرتے رہتے ہیں، اور پھر جب سب کچھ ان کے حسب منشا ہوجاتا ہے تو لڑکی کے رشتے نہیں آتے اور وہ والدین کی دہلیز پر ہی بوڑھی ہونے لگتی ہے۔ اگر ہم شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلیں، سادگی کو اپنائیں اور جہیز کی لعنت کو ختم کرلیں تو آج ہمیں جو سماجی مسئلہ درپیش ہے وہ کبھی کا ختم ہوجائے۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ’’شادی میں تاخیر لڑکے اور لڑکیوں دونوں میں متعدد ذہنی بیماریوں اور نفسیاتی عوارض کو جنم دیتی ہے۔ آج کے جدید دور میں فیشن اور ذرائع ابلاغ کے نام پر بے حیائی کا جو فروغ ہورہا ہے، یہ نوجوان نسل کو جسمانی طور پر کمزور اور ذہنی طور پر تیزی سے بیمار بنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان حالات میں ایسے لڑکے اور لڑکیاں جو کہ شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہوں اور حالات بھی اجازت دیں تو پھر شادی میں تاخیر کرنا غیر مناسب بات ہے‘‘۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ’’شادی کے لیے مناسب رشتے نہ ملنے کی توضیح فضول ہے، کیونکہ ہم رشتوں کا معیار اپنے سماجی مرتبے کے مطابق قائم کرتے ہیں، لہٰذا جب سب کچھ ایک پاکیزہ رشتے کی مضبوط بنیاد ڈالنے کے بجائے مفادات کی سوچ پر قائم ہو تو پھر ایسے رشتے دیرپا نہیں ہوتے۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ملک میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہی ہے، کیونکہ جب دونوں خاندان شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور اس سے پہلے انہوں نے اپنے ذہن میں جو معیارات مقرر کیے ہوئے ہیں وہ پورے نہیں ہوتے، تو پھر لالچ کی بنیاد پر قائم یہ رشتہ بھی دیرپا ثابت نہیں ہوتا اور جلد ہی زمین بوس ہوجاتا ہے۔ لہٰذا بہترین اور عمدہ بات یہ ہے کہ لڑکی کی صورت، شکل اور والدین کا بینک بیلنس دیکھنے کے بجائے لڑکی کی صرف تعلیم اور سلیقہ شعاری دیکھیں، اور لڑکے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ صلاحیت دیکھی جائے کہ آیا وہ دو وقت کی روٹی کما سکتا ہے یا نہیں؟ اگر لڑکا اور لڑکی دونوں میں یہ صلاحیتیں ہیں تو پھر شادی کردینی چاہیے اور باقی سب کچھ ان دونوں اور خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔ خدا دنوں کو پھیرنے والا ہے اور وہ سب کے لیے بہتر کرتا ہے۔‘‘

حصہ