(۔۔۔میں ثواب نہیں بیچوں گا(شگفتہ ارشاد

308

آج کے مسلم حکم راں گناہ ثواب کے جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتے، انہوں نے اپنی غیرت تک سُلا ڈالی ہے، کوئی انہیں لاکھ جھنجھوڑے، یہ بے غیرتی کے مارے بیدار نہیں ہوں گے
یعقوب بن جعفر بن سلیمان بیان کرتے ہیں کہ عموریہ کی جنگ میں وہ معتصم کے ساتھ تھے۔ عموریہ کی جنگ کا پس منظر بھی انتہائی دل چسپ ہے۔ ایک پردہ دار مسلمان خاتون عموریہ بازار میں خریداری کے لیے گئی۔ ایک عیسائی دکان دار نے اسے بے پردہ کرنے کی کوشش کی اور خاتون کو ایک تھپڑ رسید کیا۔ خاتون نے بے بسی کے عالم میں پکارا:
’’وا معتصما، میری مدد کے لیے پہنچو‘‘۔
سب دکان دار ہنسنے اور اس کا مذاق اڑانے لگے کہ سیکڑوں میل دور سے معتصم تمہاری آواز کیسے سُنے گا؟
ایک مسلمان یہ منظر دیکھ رہا تھا۔اس نے خودکلامی کے انداز میں کہا: میں اس کی آواز کو معتصم تک پہنچاؤں گا۔ وہ بغیر رکے دن رات سفر کرتا ہوا معتصم تک پہنچ گیا اور اسے یہ ماجرا سُنایا۔ یہ سُننا تھا کہ معتصم کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا (کاش کہ آج کے دور میں پرویزمشرف، بے نظیر، نواز، زرداری، گیلانی، راجا پرویز، پرویز کیانی، راحیل شریف کا بھی ہوجاتا، جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جرم بے گناہی میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی)۔ معتصم غم وغصّے سے بھرگیا، تلوار نیام سے باہر نکال لی اور ہاتھ میں لے کر اونچی آواز میں چلاّنے لگا: میری بہن، میں حاضر ہوں۔ میری بہن، میں حاضر ہوں۔
اس نے فوراً لشکر تیار کرنے کا حکم دے دیا۔ مسلمانوں کی آمد سے خوفزدہ ہوکر رومی قلعہ بند ہوکر بیٹھ گئے۔ ایک بدبخت رومی ہر روز فصیل پر نمودار ہوتا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا۔ مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ وہ بدبخت اتنے فاصلے پر تھا کہ مسلمانوں کے تیر وہاں تک نہ پہنچ پاتے تھے۔ مجبوراً اُسے اُس کے انجام سے دوچار کرنے کے لیے قلعہ فتح ہونے کا انتظار کرنا پڑا، جب کہ مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اسے ایک لمحے سے پہلے جہنم رسید کردیا جائے۔
یعقوب بن جعفر کہنے لگے: ان شاء اللہ میں اسے واصل جہنم کروں گا۔ انہوں نے تاک کر ایسا تیر مارا، جو سیدھا اس کی شہ رگ میں گُھس گیا۔ وہ تڑپا، گرا اور واصل جہنم ہوگیا۔ مسلمانوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور ان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ معتصم بھی بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا: تیر مارنے والے کو میرے پاس لایا جائے۔ یعقوب بن جعفر کو معتصم کے سامنے پیش کیا گیا۔
معتصم نے کہا: گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرنے کے عمل کا ثواب مجھے فروخت کردو۔
انہوں نے کہا: امیرالمومنین، ثواب بیچا نہیں جاتا۔
معتصم کہنے لگا: اگر آپ آمادہ ہوں تو میں ایک لاکھ درہم دینے کے لیے تیار ہوں۔
انہوں نے کہا: میں ثواب نہیں بیچوں گا۔
معتصم مالیت بڑھاتا رہا۔۔۔یہاں تک کہ پیشکش پانچ لاکھ درہم تک پہنچ گئی۔
اب یعقوب بن جعفر نے کہا: خلیفہ، اگر آپ ساری دنیا دے دیں، تب بھی میں ثواب فروخت نہیں کروں گا، البتہ میں آپ کو اس کا نصف ثواب تحفے میں دیتا ہوں اور اس بات کی گواہ اللہ پاک کی ذات ہے۔
معتصم خوش ہوگیا،کہنے لگا: اللہ آپ کو اس کا اعلیٰ بدلہ عطا فرمائے، میں راضی ہوا!!
nn

حصہ